• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

افتخار چوہدری کی نظربندی ختم کرنے کے مشرف کے حکم پر عمل نہیں ہوا، عشرت العباد

Todays Print

دبئی (اعزاز سید)بدھ کا سرد دن، 18دسمبر 2002، متحدہ قومی موومنٹ انٹرنیشنل سیکرٹریٹ لندن میں فون کی گھنٹی بجتی ہے، خودساختہ جلاوطن اور پارٹی کے بانی کے قابل اعتماد ساتھی محمد انور فون کے اسپیکر کا بٹن دباتے ہیں۔ ’’میں میجر جنرل احتشام ضمیر، آئی ایس آئی کا ڈپٹی ہوں، ‘‘یہ آواز کمرے میں بیٹھے ہوئے افراد کی توجہ اپنی جانب مبذول کرالیتی ہے۔ خیرسگالی پر مبنی جملوں کے تبادلے کے بعد آئی ایس آئی کے ڈپٹی، انور کو بتاتے ہیں کہ انہیں گورنر سندھ کے لئے تین نام درکار ہیں۔ انور جواب دیتے ہیں کہ وہ بانی متحدہ سے نام معلوم کر کے انہیں بتاتے ہیں۔ انور کو ابھی پارٹی سربراہ کو کال کرنی تھی جو لندن سیکرٹریٹ کے نزدیک رہتے ہیں۔ اچانک فون کی گھنٹی دوبارہ بجتی ہے۔ طریقہ کار کے مطابق انور کال ریسیو کرنے کے لئے اسپیکر کا بٹن دباتے ہیں۔ اس مرتبہ بانی متحدہ خود ہیںاور معلوم کرتے ہیں کہ کیا ہورہا ہے۔ محمد انور انہیں احتشام ضمیر کی کال کے بارے میں بتاتے ہیں کہ وہ گورنر سندھ کے لئے نام مانگ رہے ہیں۔ بانی متحدہ ان سے کہتے ہیںکہ تین نام لکھو اور پھر تین نام لکھواتے ہیں، خود اپنا نام، اپنی ایک سال کی بیٹی افضا الطاف کا نام اور ڈاکٹر عشرت العباد۔ جو اس وقت اسی میز پر محمد انور کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے۔ کمرے میں بیٹھا ہوا ہر شخص جانتا تھا کہ بانی متحدہ اصل میں گورنر کے عہدے کے لئے عشرت العباد کا نام لے رہے ہیں۔ لیکن وہ شخص جس کانام مسند کے لئے منظور کیا گیا تھا وہ اس معاملے پر کسی فیصلے سے قبل اپنی بیوی اور بچوں سے تبادلہ خیال کرنا چاہتا تھا۔ عشرت العباد اپنے گھر جاتے ہیں، اپنی بیوی شاہینہ جبین اور اپنے چاروں بچوں سے اپنے گورنر بننے کے بارے میں ان کی رائے معلوم کرتے ہیں۔ یہ کوئی پہلا موقع نہیں تھا کہ جب وہ سرکاری عہدہ لینے جارہے تھے، 90 کی دہائی کے اوائل میں وہ صوبائی ہاؤسنگ اینڈ انوائرمنٹ کے وزیر رہ چکے تھے۔ عباد کی اہلیہ شاہینہ جبین جو میڈیکل کی سابق طالبہ تھیں، اپنے شوہر کو مشورہ دیتی ہیں کہ یہ عہدہ قبول نہ کیا جائے، کیونکہ 1993 میں ملک چھوڑنے کے بعد سے ان کی زندگی پہلے ہی پریشانی کا شکار ہے۔ اہلیہ اور بچے مسلسل بے یقینی کی صور تحا ل میں رہنے اور کام کرنے سے اکتا چکے ہیں۔ شاہینہ چاہتی ہیں کہ عباد پارٹی چھوڑ دیں اور اپنے خاندان اور لندن میں میڈیکل کے پیشے پر توجہ دیں۔ پورا خاندان متفقہ طور پر اس خیال کو مسترد کردیتا ہے۔ اس دوران جبکہ وہ بیٹھے ہوئے ہیں ان کی لینڈ لائن کے فون کی گھنٹی بجتی ہے۔ عباد فون اٹھاتے ہیں، بانی متحدہ دوسری جانب ہیں۔ عباد انہیں اپنے خاندان کے فیصلے کے بارے میں بتاتے ہیں۔ بانی متحدہ فیصلہ قبول کرنے سے انکار کر دیتے ہیں اور اسپیکر پر پورے خاندان سے بات کرتے ہیں اور انہیں عہدہ قبول کرنے پر راضی کرتے ہیں۔ خاندان ہچکچاتے ہوئے قبول کر لیتا ہے اور اسی دن عباد کا پورٹ فولیو سیکورٹی کلیئرنس کے لئے آئی ایس آئی کو بھیج دیا جاتا ہے اور عشرت العباد اگلے چند روز میں اسلام آباد روانہ ہونے کے لئے تیاریاں شروع کر دیتے ہیں۔ یہاں سے عشرت العباد کااس مسند کے لئے سفر شروع ہوتا ہے جسے انہوں نے کامیابی سے 13 برس 11 ماہ اور 13 روز تک سنبھالے رکھا۔ ہم دبئی کے فائیو اسٹار ہوٹل کے ایک کونے میں بیٹھے ہوئے ہیں جہاں عباد اس صحافی کو اپنے ماضی کے کچھ واقعات میں شریک کر رہے ہیں۔ سیاستدان اکثر کہتے ہیں کہ اقتدار حاصل کرنا بہت بڑی کامیابی ہے۔ اگر اقتدار میں رہنا ایک سیاستدان کی کامیابی کا تسلیم شدہ پیمانہ ہے تو عشرت العباد بلاشبہ اس ملک کی تاریخ کے کامیاب ترین سیاستدان ہیں جنہوں نے طویل عرصے تک مسند سنبھالے رکھی حتی کہ فوجی ڈکٹیٹر سے بھی زیادہ عرصے تک۔ انہوں نے چار صدور کے ساتھ جن میں سے ایک فوجی آمر تھے، 7 وزرائے اعظم، 6 وزرائے اعلی اور تین فوجی سربراہان کے ساتھ کام کیا۔ کسی اور سیاستدان یا یہاں تک کہ فوجی آمر کو بھی یہ اعزاز حاصل نہیں۔ کہانی جاری ہے۔ 21 دسمبر 2002 ہفتے کو سرکاری چھٹی ہونے کے باوجود پاکستانی ہائی کمیشن عباد کو پاسپورٹ جاری کرتا ہے کیونکہ ان کا پاسپورٹ پہلے ہی زائدالمعیاد ہوچکا تھا اور وہ سیاسی پناہ میں رہ رہے تھے۔ ٹکٹ کا انتظام کیا گیا اور اسی روز عباد نے اسلام آباد کے انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر لینڈ کیا جہاں ان کا استقبال آئی ایس آئی کے ڈپٹی نے کیا اور بعد میں انہیں ان کی سرکاری رہائش گاہ سندھ ہاؤس لے جایا گیا۔ دو روز کے بعد آئی ایس آئی کے ڈپٹی میجر جنرل احتشام ضمیر انہیں آرمی ہاؤس روالپنڈی لے جاتے ہیں جہاں جنرل پرویز مشرف ان کے آئی ایس آئی چیف لیفٹیننٹ جنرل احسان الحق ، ان کے چیف آف اسٹاف جنرل حامد جاوید، ایم آئی چیف میجر جنرل ندیم تاج اور ان کے پرنسپل سیکرٹری طارق عزیز کے ساتھ بیٹھے تھے۔دونوں اس میٹنگ میں شامل تھے جہاں مشرف نے عشرت العباد کو خوش آمدید کہا اور اس ملاقات کا آغاز ان کے ماضی اور ان کی ذاتی زندگی کے بارے میں پوچھ گچھ سے ہوا۔ اس میٹنگ میں جنرل مشرف نے دیگر سوالات کے علاوہ مجھ سے یہ بھی پوچھا کہ سندھ میں میجر کلیم کے کیس میں میرا کردار کیا تھا۔ میں نے انہیں بتایا کہ میرا اس سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس کے بعد انہوں نے کہا کہ مجھے اس بارے میں بتایا گیا تھا ۔میں نے انہیں کہا کہ آپ چیک کرسکتے ہیں کہ اس کیس میں کچھ دیگر افراد نامزد ہیں۔ میں اسے بھی نہیں جانتا۔ یہ بات عشرت العباد نے اس انٹرویو کا حوالہ دیتے ہوئے بتائی۔ اسی میٹنگ میں عشرت العباد سے مشرف نے پوچھا تھا کہ ان کی جماعت بہت مقبول اور متوسط طبقے کی نمائندگی کرتی ہے تو آپ کی جماعت کے لوگ تشدد کی وارداتوں میں کیوں ملوث ہیں؟ عشرت العباد نے کہا کہ جب کوئی جماعت مقبول ہوجاتی ہے تو ایسا ہوتا ہے۔میں نے مشرف سے کہا کہ’’خدا جب حسن دیتا ہے، نزاکت آہی جاتی ہے۔‘‘اس پر مشرف سمیت جتنے بھی لوگ میٹنگ میں موجود تھے ہنسنے لگے۔انہوں نے بتایا کہ فوجی افسران کے ساتھ یہ ان کی پہلی میٹنگ تھی ، جنہوں نے آئندہ دو برسوں میں اہم کردار ادا کرنا تھا۔وہ ان کا دل جیت چکے تھے۔ 26دسمبر کی اسی سرد شام میں میجر جنرل احتشام ضمیر ، عشرت العباد کو اپنی گاڑی میں اسلام آباد لے گئے اور انہوں نے ایک ریسٹورینٹ میں رات کا کھانا کھایا۔ اچانک میجر جنرل احتشام نے عشرت العباد سے سوال کیا کہ کیا ان کے پاس کل حلف اٹھانے کی تقریب کے لیے شیروانی ہے یا نہیں؟ عشرت العباد نے کہا کہ انہیں اس بات کا علم نہیں تھا کہ یہ ضروری ہوتی ہے۔ جس کے بعد آئی ایس آئی کے ڈپٹی چیف عشرت العباد کو اسلام آباد میں ہی اپنے درزی کے پاس لے گئے۔ رات کی تاخیر کی وجہ سے دکان بند ہونے والی تھی۔ میجر جنرل احتشام نے دکاندار سے کہا کہ یا تو انہیں کوئی شیروانی دو یا پھر آج رات ہی سی کر دو کیوں کہ انہیں کل حلف اٹھانے کی تقریب میں شرکت کرنی ہے۔ دکاندار نے بتایا کہ درزی گھر جاچکا ہے اس لیے ممکن نہیں ہے کہ آج رات شیروانی سی کر دی جاسکے ، تاہم اس نے اپنے ایک صارف کی شیروانی انہیں دیتے ہوئے کہا کہ اگر یہ انہیں پوری آتی ہے تو ٹھیک ہے بصورت دیگر اس کے پاس کوئی حل نہیں ہے۔ عشرت العباد نے وہ شیروانی پہن کر دیکھی ، ان کی قسمت اچھی تھی اور شیروانی انہیں پوری آئی، جیسے کہ وہ شیروانی ان کے لیے ہی بنی تھی۔ اگلے روز عشرت العباد نے 30 ویں نوجوان ترین گورنر کا حلف اٹھایا، جب کہ وہ ایک ایسے شخص کی شیروانی پہنے ہوئے تھے، جسے وہ جانتے تک نہیں تھے۔ ان کے اختیا را ت کے حصول کا سفر اسی روز شروع ہوا۔ آنے والے دنوں میں انہیں سخت راستے پر چلنا تھا جو، ان کی پارٹی پالیسی اور فوجی قیادت کی لائن جو کہ اصل میں ملک چلا رہے تھے، کے درمیان کا راستہ تھا۔ وہ پہلے ہی دونوں کا دل جیت چکے تھے۔ عشرت العباد کے گورنر ہاؤس پہنچتے ہی ان کے راولپنڈی آرمی ہاؤس کے بھی متعدد دورے شروع ہوگئے۔ جہاں انہوں نے جنرل مشرف اور ان کے ساتھی فوجی افسران سے قریبی تعلقات استوار کرنا شروع کردیئے۔ وہ بہت جلد ہی راولپنڈی کے بھروسے مند سویلین فرد بن گئے کیوں کہ فوج باضابطہ طور پر انہیں اجلاس میں شرکت کی دعوت دیتی رہی، یہاں تک کے ان اجلاسوں میں بھی ان کی شرکت ہونے لگی جہاں صرف فوجی افسران ہی شریک ہوتے تھے۔ فروری 2003 میں اسی طرح کے ایک اجلاس میں جو کہ جنرل پرویز مشرف کے سربراہی میں ہورہا تھا، وہ شریک ہوئے۔ اجلاس میں ملک میں اصلاحاتی عمل کے حوالے سے ایک بہترین سیشن ہوا، جہاں وزیر اعظم جمالی اور اس وقت کے وزیر اعلیٰ سندھ سردار علی محمد مہر کی کارکردگی سے متعلق انٹیلی جنس رپورٹس زیر بحث آئیں۔ اجلاس کے شرکا اس کارکردگی رپورٹ پر سخت نالاں ہوئے، صورتحال سے نمٹنے کے لیے ہر کسی نے اپنی رائے دی، کچھ نے تو یہاں تک کہا کہ سیاسی نظام ختم کیا جانا چاہیئے۔ اس کے بعد مشرف نے نوجوان اور واحد سویلین شخص عشرت العباد کو اپنی رائے دینے کےلئے کہا۔ عشرت العباد نے افسران سے کہا کہ، آپ لوگوں کے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ آپ نظام کو چلنے نہیں دینا چاہتے، آپ نظام سے بہت جلد بے زار ہوجاتے ہیں، یہاں تک کے اس نظام سے بھی جو آپ نے خود بنایا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سیاسی استحکام کا دارومدار عوام کی حقیقی سیاسی نمائندگی سے ہوتا ہے، مصنوعی نمائندگی سے مسائل پیدا ہوتے ہیں، جس کا آج ہمیں سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ جنرل مشرف اور تمام افسران خاموشی سے ان کی باتیں سنتے رہے اور یہ خاموشی اس وقت تک قائم رہی جب تک عشرت العباد اپنے اگلی بات کرنے کے لیے رکے۔ یہاں عشرت العباد نے تجویز دی کہ اگر عوامی عہدیدار اچھی کارکردگی کا مظاہرہ نہ کرے تو پورے نظام کو سزا نہیں دینی چاہئے، جو شخص مسئلے کی وجہ ہے صرف اسے نکال دینا چاہئے۔ اس پر مشرف نے جلدی سے کہا کہ ہاں ہم ایسا ہی کریں گے۔ ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل احسان، ڈی جی ایم آئی میجر جنرل ندیم تاج اور مشرف کے چیف آف اسٹاف سب نے مثبت اظہار کیا۔ عشرت العباد نے تجویز دی کہ یہ رپورٹس براہ راست متعلقہ افراد سے شیئر کی جائیں اور انہیں جواب دینے کا موقع دیا جائے۔ اگلے برس کے وسط تک دونوں چلے گئے اور نئے اصول بنائے گئے یعنی جمہوریت کی بساط لپیٹنے کے بجائے مسئلے کی وجہ بننے والے شخص کو ہٹایا جائے۔ آج کی تاریخ تک بہت سے چہرے تبدیل ہوئے ہیں اور یہ اصول اب تک کام کررہا ہے۔ مشرف کے دور میں نظام کی اندرونی ساخت ویسی ہی رہی۔ صدر اور آرمی چیف مشرف ہمیشہ مشاورتی اجلاس اپنے آئی ایس آئی چیف اور ایم آئی چیف کے ساتھ رکھتے تھے۔ ان کے پرنسپل سیکریٹری طارق عزیز، چیف آف اسٹاف اور گورنر سندھ عشرت العباد بھی بہت سے اہم اجلاسوں میں شرکت کرتے رہے، زیادہ تر اجلاس آرمی ہائوس میں ہی ہوتے رہے۔ 9 مارچ ،2007 کو گورنر سندھ عشرت العباد نے نیوی کی ایک تقریب میں صدر مشرف کو خوش آمدید کہا۔جنرل مشرف سیدھے راولپنڈی سے آئے تھے اور تھکے تھکے سے لگ رہے تھے، ہاتھ ملانے کے بعد دونوں دیگر افسران کے ہمراہ ایک ساتھ بیٹھ گئے۔ جس کے بعد مشرف نے بتایا کہ انہوں نے چیف جسٹس افتخار چوہدری کو برخاست کردیا ہے اور ان کے خلاف ریفرنس بھجوادیا ہے۔ڈاکٹر عشرت العباد ان کی جانب دیکھتے ہیں لیکن وہ زیادہ بات نہیں کرتے کیونکہ دوسرے لوگ بھی قریب ہی موجود ہیں۔ تقریب کے بعد دونوں گورنر ہاؤس کے لئے روانہ ہو جاتے ہیں۔ چیف جسٹس کو ہٹانے سے متعلق خبر کوئی خبر نہیں تھی کیونکہ پرویز مشرف نے پہلے ہی یہ بات ڈاکٹر عباد کو 2006 کے دسمبر کے آغاز میں بتا دی تھی۔ عباد نے یاد کرتے ہوئے کہا کہ ’’اس وقت مشرف صاحب نے ان سے کہا تھا کہ صوبائی اور مرکزی حکومتیں سب چیف جسٹس کے خلاف شکایت کر رہے ہیں۔‘‘ گورنر ہاؤس میں ڈاکٹر عشرت العباد اور جنرل پرویز مشرف نے دوبارہ برطرف چیف جسٹس افتخار چوہدری کے مسئلے کے بارے میں تبادلہ خیال کیا۔ عباد نے انہیں بتایا کہ ایسا نہیں ہونا چاہیے تھا۔ پرویز مشرف نے کہا کہ اب سب کچھ ہوچکا ہے اور پھر وہ اسلام آباد کے لئے روانہ ہوگئے۔ اس وقت تک افتخار چوہدری کو ہٹانے کی خبر نجی ٹی وی چینلز کی ہیڈلائنز بن چکی تھی۔ اسی شام گورنر ٹی وی چینلز دیکھتے ہیں اور انہیں پتہ چلتا ہے کہ برطرف چیف جسٹس افتخار چوہدری کو ان کے گھر پر نظربند کر دیا گیا ہے۔ وہ فون پر مشرف سے بات کرتے ہیں کہ وہ ان سے ملنا چاہتے ہیں۔ کچھ گھنٹوں کے بعد وہ اپنے وقت کے طاقتور ترین شخص جنرل پرویز مشرف کے سامنے بیٹھے ہوئے ہیں۔ وہ مشرف سے کہتے ہیں کہ ’’سر، آپ نے برطرف چیف جسٹس کے خلاف جو بھی ریفرنس فائل کیا ہو لیکن انہیں ان کے گھر پر ان کے اہل خانہ کے ساتھ نظربند کرنا اچھا نہیں ہے۔‘‘ ’’کیا، میں نے ایسا کوئی حکم نہیں دیا، مشرف کے جواب سے انکشاف ہوتا ہے کہ انہوں نے کسی کو حکم نہیں دیا کہ برطرف چیف جسٹس کو نظربند رکھیں۔ نوجوان گورنر دیکھتے ہیں کہ مشرف کو اندھیرے میں رکھا گیا ہے۔ پرویز مشرف فوری طور پر فون اٹھاتے ہیں اور ہدایت دیتے ہیں کہ افتخار چوہدری پر کوئی پابندی نہیں ہونی چاہیے، گورنر سندھ اطمینان کے ساتھ واپس آتے ہیں کہ اب معاملات مثبت طور پر آگے بڑھیں گے ، اس حقیقت کے باوجود کہ پہلے ہی نقصان تو ہو چکا ہے۔ عشرت العباد یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’’میں پر اعتماد تھا کہ جنرل پرویز مشرف کے حکم پر عمل کیا جائے گا لیکن مجھے مایوسی ہوئی کہ صدر کے حکم پر عمل نہیں ہوسکا کیونکہ وقت اور صورتحال پہلے ہی بد سے بدترین ہوچکی تھی۔

تازہ ترین