• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بیت اللہ شریف کی زیارت اور طواف , حدود حرم میں صلوٰۃ کے قیام کے لئے مسجد الحرام کی طرف سفر ذہن میں بے تابی اور قلب و روح کی بے قراری میں مسلسل اضافوں کے ساتھ شروع ہوتا ہے۔ اس میں دور و قریب کی بھی کوئی تخصیص نہیں ہے۔ جو لوگ مکہ کے قریب واقع شہروں سے مسجد الحرام کی طرف آتے ہیں یا جو ہزاروں میل دور کسی ملک سے مکہ مکر مہ کی طرف محو سفر ہوتے ہیں تقریباً سب کے احساسات ایک جیسے ہی ہوتے ہیں۔
مجھے حاضری کا شرف مل رہا ہے۔ اللہ کے گھر کو خانہ کعبہ کو اپنی آنکھوں سے دیکھنے کی، دیوار کعبہ اور غلاف کعبہ کو چھونے کی، چومنے کی سعادت مل رہی ہے۔ ساری عمر خانہ کعبہ کی طرف رخ کرکے صلوٰۃ ادا کی ہے۔ اب صحن حرم میں اپنی آنکھوں سے اُسے دیکھتے ہوئے تکبیر کہنے اور کعبہ کے سامنے اقامت صلوٰۃ کا موقع ملنے والا ہے۔ وہ خطہ جہاں اللہ کے آخری نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے قلب اطہر پر قرآنی آیات کا نزول ہوا وہاں جاکر تلاوت قرآن کرتے ہوئے قلب و روح کی کیا حالت ہوگی.. ؟ کیا یہ جسمانی وجود ان نورانی لمحات اور روحانی کیفیات کا متحمل ہو سکے گا۔
آج سے تقریباً بیس برس پہلے جب میں اپنے والد محترم خواجہ شمس الدین عظیمی، والدہ، اہلیہ اور بچوں کے ساتھ لبیک اللھم لبیک کہتا ہوا زندگی میں پہلی مرتبہ بیت اللہ شریف کی طرف جارہا تھا ۔ اس وقت بھی دل کا حال عجیب تھا۔ کئی مرتبہ کی حاضری کے بعد اب ایک مرتبہ پھر بیت اللہ شریف کی طرف جارہا ہوں اس وقت بھی حال کچھ مختلف نہیں۔ مسجدالحرام وہ مقدس ترین مقام ہے جہاں بار بار حاضری سے جذبوں میں کمی نہیں آتی بلکہ شوق اور طلب میں مسلسل اضافہ ہوتا ہے۔
مسجد الحرام میں حاضری، خانہ کعبہ کی زیارت و طواف، مقام ابراہیم کی زیارت صفا اور مروہ کے درمیان سعی کرنا جہاں ایمان میں تازگی اور روحانی تسکین کا سبب بنتا ہے وہیں ابوالانبیاء حضرت ابراہیم علیہ السلام سے شروع ہونے والی تاریخ کے مختلف ادوار بھی ذہن میں آنے لگتے ہیں۔ مسجد الحرام دنیا کی پہلی اور سب سے بڑی مسجد ہے۔ اس مسجد میں اقامت الصلوٰۃ کی فضیلت اور اجر بہت زیادہ ہے۔ آج کل مختلف نمازوں میں یہاں دس عالم حضرات امامت فرمارہے ہیں۔ مسجد الحرام میں اذان کی ذمہ داری 18مختلف مؤذنین کے پاس ہے۔
مختلف ادوار میں اس مسجد میں توسیع ہوتی رہی ہے سعودی حکومت کی جانب سے حالیہ توسیع کے بعد یہاں بیک وقت نو لاکھ سے زائد مسلمان نماز ادا کرسکتے ہیں۔ حج یا عمرہ کے لئے دنیا کے ہر خطے سے آنے والے اس مقدس شہر میں کم و بیش ہفتہ پندرہ دن یا ایک ماہ تک قیام کرتے ہیں۔ فی الوقت عمرہ کے لئے مکہ آنے والوں کی تعداد ساٹھ لاکھ سالانہ سے زائد ہے۔ سعودی حکومت کے وژن 2030ء کے تحت سعودی عرب کے کئی علاقوں میں ترقیاتی کام ہورہے ہیں۔ ان میں ایک نئے شہر نیوم کی تعمیر کے علاوہ مکہ کے قریب بلندی پر واقع شہر طائف میں ایک نئے انٹرنیشنل ایئرپورٹ کی تعمیر بھی شامل ہے۔ طائف کے قریب ایک علاقے سوق عکاظ کو سرمائی سیاحت کے لئے ترقی دی جارہی ہے۔ اس نئے ائیر پورٹ سے حجاج اور معتمرین کو مکہ آمد اور روانگی کے لئے سہولتیں فراہم کی جائیں گی۔ یہ ائیرپورٹ 2020ء میں کام شروع کردے گا۔ حجاج اور معتمرین کے لئے جدہ اور طائف میں ائیرپورٹ کی تعمیر اور مکہ میں زائرین کے لئے مزید سہولتوں کی فراہمی کے بعد توقع ہے کہ زائرین کی تعداد سالانہ ایک کروڑ پچاس لاکھ تک ہوجائے گی۔
مکہ اور مدینہ کے درمیان سفر سڑک کے ذریعے ہی ہوتا رہا ہے۔ سعودی حکومت زائرین کی سہولت کے لئے اب ٹرین سروس بھی شروع کررہی ہے۔ اس تیز رفتار ٹرین کے ذریعے مکہ سے جدہ تک 78 کلومیٹر سفر آدھے گھنٹے میں اور جدہ سے مدینہ تک 410 کلومیٹر سفر تقریباً دو گھنٹوں میں طے ہوگا۔ اس ٹرین کا آزمائشی سفر 31 دسمبر 2017 کو کامیابی سے مکمل ہوا۔ اس ٹرین کے ذریعے مارچ 2018 سے مسافروں کو سفری خدمات مہیا کی جائیں گی۔
مسجد الحرام کے ارد گرد حضرت ابراہیم اماں حاجرہ حضرت اسماعیل علیہم السلام اور خاتم النبین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے وابستہ کئی تاریخی آثار بھی موجود ہیں۔ زائرین ان مقامات کی زیارتوں کے لئے جاتے ہیں۔ حج اور عمرہ کے لئے آنے والوں کو زیارت کے لئے طائف شہر جانے کی اجازت بھی دے دی گئی ہے۔ ہمارا قافلہ ستر سے زائد افراد پر مشتمل ہے۔ اہل قافلہ میں سے تندرست افرادگزشتہ اتوار کو حرا کی زیارت کے لئے گئے۔ مظفر آباد آزاد کشمیر کی ممتاز سماجی شخصیت اور منتظم قافلہ شیخ طاہر رشید نے پہاڑ پر چڑھنے کے لئے ضروری ہدایات دیں۔ سب لوگ کلمہ طیبہ اور درود شریف کا ورد کرتے ہوئے چڑھائی پر آہستہ آہستہ آگے بڑھ رہے تھے کہ اچانک ہماری ایک بہن کا سانس پھولنے لگا۔ ان میں مزید اوپر جانے کی ہمت نہ رہی۔ غار حرا کی زیارت سے محرومی کے خیال نے انہیں شدید اداس کردیا۔ ان کے ساتھ موجود ان کے صاحبزادے اسامہ مشتاق سے اپنی ماں کے چہرے پر یہ اداسی دیکھی نہ گئی۔ اس سعید بیٹے نے اپنی ماں کو اپنے کندھوں پر بٹھایا اور انہیں غار حرا تک لے گیا۔
مختصر قیام کے لئے دنیا کے ہر خطے سے اتنی بڑی تعداد میں حجاز مقدس آنے والوں کے لئے رہائش ، خوراک ، ٹرانسپورٹ اور دیگر سہولتوں کی مسلسل فراہمی بجائے خود ایک بہت بڑا کام ہے۔ حجاز مقدس میں رہنے والے گزشتہ تقریباً ڈیڑھ ہزار سال سے اس متبرک فریضے کی ادائی میں مصروف ہیں۔ زائرین حرمین شریفین کی میزبانی کے لئے صدیوں پر محیط تجربات اور جدید ٹیکنالوجی کے مدبرانہ امتزاج پر مشتمل کوششوں نے بیک وقت لاکھوں زائرین کو سہولتیں فراہم کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ ہر روز لاکھوں افراد یہاں آتے لاکھوں ہی یہاں سے جاتے ہیں۔ ان زائرین کے لئے معیاری اشیائے خورونوش وافر مقدار میں دستیاب ہیں۔صحت کی سہولتیں اسپتال اور کلینکس کے ذریعے پوری کی جارہی ہیں۔ نہ تو یہاں پانی کی کمی ہوتی ہے نہ بجلی کی فراہمی میں کوئی تعطل آتا ہے۔ کسی علاقے میں نکاسی آب میں کوئی رکاوٹ نہیں دیکھی گئی۔
اس مرتبہ اپنے قیام کے دوران مجھے کراچی سے آنے والے چار مختلف خاندانوں کے بارے میں معلوم ہوا کہ ان کے ٹریول ایجنٹس نے ان سے اپنی مطلوبہ پوری رقم وصول کرکے مسجد الحرام کے قریب واقع جن ہوٹلز کے واؤچر جاری کئے وہ جعلی نکلے۔ احرام باندھے ہوئے یہ زائرین کراچی سے ہوائی سفر کے بعد مکہ مکر مہ میں بتائے گئے ہوٹل پہنچے تو انہیں معلوم ہوا کہ اس ہوٹل میں ان کی بکنگ ہی نہیں کروائی گئی۔ سعودی عرب میں امن عامہ اور سہولتوں کی بہتر فراہمی کی اہم ترین وجہ حکومت کی جانب سے قوانین اور ضابطوں پر عملدرآمد میں بہت سختی برتنا ہے۔ پاکستان کی وزارت حج اور وزارت داخلہ کو ٹریول ایجنٹس کی طرف سے کئے جانے والے وعدوں کی تکمیل یقینی بنانے، خاص طور پر حج اور عمرہ ٹریول ایجنٹس کو ملنے والے حجاج کوٹے اور عمرہ کے لئے ہوٹل کی بکنگ کی ویری فکیشن یقینی بنانے کے لئے فوری اقدامات کی ضرورت ہے۔

تازہ ترین