• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
Todays Print

قصور،لاہور (نمائندگان… ایجنسیاں) قصور میں سات سالہ بچی زینب کےساتھ درندگی اور قتل کے بعد شہر میں پر تشدد احتجاج ہوا، پولیس فائرنگ سے 2 افراد جاں بحق ہوگئے، فائرنگ اور لاٹھی چارج سے کئی افراد زخمی بھی ہوئے،خبر پھیلتے ہی مشتعل لوگ بڑی تعداد میں گھرو ں سے نکل آئے‘ مظاہرین نےڈپٹی کمشنر آفس پر دھاوا بول دیا اور آفس کا گیٹ توڑ کر وہاں توڑ پھوڑ کی، مظاہرین نے ڈنڈے اور پتھرما رکر گاڑیاں توڑ ڈالیں اور پولیس پر بھی پتھرائو کیا جس سے بعض اہلکاروں کو زخم آئے،واقعہ کیخلاف قصور میں تمام تجارتی مراکز بند رہے، شہر میں مکمل ہڑتال رہی جس میں وکلاءبھی شامل تھے‘شہر کی صورتحال دیکھتے ہوئے رینجرز طلب کر لی گئی ہے،بچی کے والدین نے کہا ہے کہ ملزمان کی گرفتاری تک بچی کو نہیں دفنائیں گے‘زینب کی نمازجنازہ ڈاکٹر طاہرالقادری نے پڑھائی۔ تفصیلات کے مطابق سات سالہ بچی زینب کے اغواء ہونے کے بعد مبینہ زیادتی کے بعد قتل کے خلاف قصورمیں مختلف مقامات پر احتجا جی مظاہرے ہوئے ۔ مظا ہرین ہاتھوں میں ڈنڈے اور پتھر اٹھا کر پولیس کے خلاف نعرے بازی کرتے رہے ۔ اس دور ان مشتعل مظا ہر ین نے کئی مقامات پر ٹائروں کو آگ جلا کر ٹریفک کے لئے معطل رکھا ۔دوپہر تک مظاہرین کی تعداد میں کئی گنا ضافہ ہوگیا اور مشتعل مظاہرین ڈپٹی کمشنر آفس کا دروازہ توڑ کر اندر داخل ہوگئے اور ڈنڈوں اور پتھرما رکر احاطے میں کھڑی ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر جنرل کی گاڑی سمیت سرکاری اور نجی گاڑیاں توڑ ڈالیں جبکہ مظاہرین کی جانب سے عمارت پر بھی پتھرائو کیا گیا ۔پولیس کی جانب سے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لئے لاٹھی چارج اور ہوائی فائرنگ کی گئی ۔ مظاہرین منتشر ہونے کے بعد دوبارہ جتھوں کی صورت میں ڈپٹی کمشنر آفس پر دھاوا بولتے ہوئے پتھرائو کرتے ۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق مبینہ طور پر پولیس کی ہوائی فائرنگ سے دو مظاہرین جاں بحق جبکہ ایک زخمی ہو گیا‘ مظاہرین کی جانب سے بھی پولیس پر پتھرائو کیا گیا جس سے پولیس اہلکار بھی زخمی ہوئے۔ ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن کی جانب سے بدھ کو عدالتی کارروائی کا بائیکاٹ کیا گیا ‘زینب کے والدین نے کہا ہے کہ ہمارے ساتھ ظلم ہوا ہے اور ہمیں انصاف چاہیے، بچی کی تدفین تب تک نہیں کریں گے جب تک انصاف نہیں مل جاتا۔ عمرے کی ادائیگی کے بعد جدہ سے اسلام آباد پہنچنے پر کمسن بچی کے والد محمد امین نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پولیس نے کوئی تعاون نہیں کیا لیکن دوستوں نے ہمارا ساتھ دیا۔ انہوں نے کہا کہ ویڈیو میں ملزمان کی شناخت بھی ہوگئی لیکن پولیس کی جانب سے کوئی کارروائی نہ کی گئی۔ریجنل پولیس افسر نے میڈیا کو بتایا کہ بچی کی موت گلا دبانے سے ہوئی ۔انہوں نے امکان ظاہر کیا کہ ہوسکتا ہے اس بچی کے قتل میں 2 افراد ملوث ہوں تاہم بہت جلد ملزمان قانون کی گرفت میں ہوں گے۔ انہوں نے بتایا کہ ڈاکٹروں کی جانب سے رپورٹ میں موت کی وجہ نہیں لکھی گئی ۔ مختلف نمونے فرانزک رپورٹ کے لئے بھجوا دئیے گئے ہیں اور وزیر اعلیٰ شہباز شریف نے ہدایت کی ہے کہ اس کی رپورٹ ترجیحی بنیادوں پر فراہم کی جائے۔ پولیس کے مطابق قصور کے علاقے روڈ کوٹ کی رہائشی 8 سالہ بچی زینب 5 جنوری کو ٹیوشن جاتے ہوئے اغواء ہوئی اور 4 دن بعد اس کی لاش کشمیر چوک کے قریب واقع ایک کچرہ کنڈی سے برآمد ہوئی۔ پولیس کے مطابق بچی کو مبینہ طور پر زیادتی کے بعد گلا دبا کر قتل کیا گیا، جس کی تصدیق ابتدائی پوسٹ مارٹم رپورٹ سے ہوئی۔ اس سے قبل ڈی پی او قصور ذوالفقار احمد نے گفتگو میں بتایا کہ شہر میں لگے سی سی ٹی وی کیمروں کی مدد سے تفتیش جاری ہے جبکہ بچی کے لواحقین نے بھی سی سی ٹی وی فوٹیج فراہم کی ہے۔ڈی پی او کے مطابق سی سی ٹی وی فوٹیج میں بچی کو ملزم کے ساتھ جاتے ہوئے دیکھا گیا۔ ڈی پی او کا کہنا تھا کہ مجموعی طور پر زیادتی کے بعد قتل ہونے والی یہ آٹھویں بچی ہے اور زیادتی کا شکار بچیوں کے ڈی این اے سے ایک ہی نمونہ ملا ہے۔ان کا مزید کہنا تھا کہ قصور کے واقعات پر 5 ہزار سے زائد افراد سے تفتیش کی گئی ہے جبکہ 67 افراد کا میڈیکل چیک اپ کروایا جاچکا ہے۔مبینہ زیادتی کے بعد قتل ہونے والی زینب کی نماز جنازہ کالج گرائونڈ میں ادا کی گئی جس میں ہزاروں افراد نے شرکت کی ۔ نماز جنازہ عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر طاہر القادری نے پڑھائی ۔

تازہ ترین