وسطی پنجاب سے جنوبی پنجاب میں غیر قانونی منتقلی پر لاہور ہائی کورٹ نے گزشتہ سال چار شوگر ملوںکو بند کرنے کا حکم دیا تھا لیکن جن اضلاع میں یہ ملیں قائم کی گئی تھیں ان سے تعلق رکھنے والے کاشتکاروں نے اس سال ڈیڑھ لاکھ ایکڑ رقبے پر گنا کاشت کر لیا جو شوگر ملوں کی بندش کے باعث کھیتوں میں پڑا سوکھ رہا ہے جس کے باعث کسان اگلی فصل بھی کاشت نہیں کر پا رہے۔ تشویش کی ایک اور بات یہ ہے کہ گنے کی بیکار پڑی اتنی بڑی پیداوار قومی سرمایہ ہے جس سے بر وقت چینی بنا کر قومی آمدنی میں شامل کیا جانا ضروری ہے کیونکہ کروڑوں روپے کے اس سرمایہ پر ان کاشتکاروں اور قومی خزانے کا حق ہے۔ اس سلسلے میں سپریم کورٹ کے فاضل چیف جسٹس جناب جسٹس میاں ثاقب نثار نے منگل کے روز اسلام آباد میں جنوبی پنجاب سے آئے ہوئے متاثرہ کاشتکاروں کے مظاہرے کا نوٹس لیتے ہوئے اگلے روز کیس کی سماعت کے دوران بجا طور پر صورت حال کا ادراک کرتے ہوئے یہ کہا کہ ہمیں گنا کاشت کرنے والوں سے ہمدردی ہے۔ ان کا ایک پیسے کا نقصان بھی نہیں ہونے دیں گے اور جب تک ان کا مکمل گنا نہیں اٹھایا جاتا ہم اس معاملے کی مکمل نگرانی کریں گے اور کسانوں کا کھیتوں سے گنا اٹھا لینے تک کیس کی روزانہ سماعت ہو گی۔ فاضل عدالت نے متعلقہ شوگر مل کو حکم دیا کہ وہ علاقے کے کاشتکاروں کا گنا سرکاری نرخوں پر خریدنے کا پلان عدالت میں پیش کرے۔ کسانوں کا کھیتوں سے گنا نہ اٹھانے کا یہ مسئلہ نیا نہیں، ہر سال جونہی کرشنگ کا سیزن آتا ہے مختلف حیلے بہانوں سے کسانوں کو پریشان کیا جاتا ہے جس کا نتیجہ ماضی میں کبھی گنے کی کم پیداوار اور کبھی چینی کی کم پیداوار کی صورت میں سامنے آیا اس سے ملک میں چینی کا بحران پیدا ہوا اور قیمتیں بڑھیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ نہ صرف گنے کی سرکاری نرخوں کے مطابق خریداری یقینی بنائی جائے اس کے ساتھ ساتھ چینی کی صنعت کا پہیہ رواںدواں رکھا جائے تاکہ قومی معیشت کو سہارا مل سکے۔