• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

فیصل آباد کے نوخیز شہداء...نقش خیال…عرفان صدیقی

سانحہ ایسا المناک اور درد اتنا شدید ہے کہ لفظ سجھائی نہیں دے رہے۔ چشم زدن میں چالیس کے لگ بھگ انسانوں کے لقمہ اجل ہو جانے کا تصور ہی دل دہلا دیتا ہے۔ رنج و غم کو بے پناہ کرب میں بدل دینے والا پہلو یہ ہے کہ موت کی آغوش میں چلے جانے والوں کی اکثریت نوخیز طلباء پر مشتمل تھی۔ موت ہر رنگ میں دل فگار ہوتی ہے لیکن بچوں اور نوعمروں کی موت کلیجہ چھلنی کر دیتی ہے۔ میں رات بھر سو نہ سکا۔ پل بھر کو آنکھ لگتی بھی تو دل میں انگارے سے سلگ اٹھتے اور اٹھ کر بیٹھ جاتا۔ بچوں سے کہیں زیادہ میری آنکھوں میں ان کے والدین، ان کے بھائیوں، ان کی بہنوں کے چہرے گھوم رہے تھے۔ کس طرح چند لمحوں کے اندر اندر ان کی کائنات ہی بدل گئی۔ کیا اب کبھی ان کی زندگی پہلے جیسے معمولات میں ڈھل سکے گی؟ کیا روٹھ جانے والے موسم کبھی لوٹ کر آئیں گے؟ کیا اب ان کی مائیں اور ان کے باپ لمبے عرصے تک کڑے دنوں اور لمبی راتوں کی چتا میں جلتے رہیں گے؟ میں جانتا ہوں کہ ہر بچے کے پیچھے ایک کہانی ہوگی۔ پیار، محبت اور شفقت کی کہانی، محنت، کوشش اور تگ ودو کی کہانی، آرزوؤں، تمناؤں اور خوابوں کی کہانی، مستقبل کی منور بستیوں کی طرف جاتے پرشوق راستوں کی کہانی۔ موت کے دست ستم گر نے کس طرح آناً فاناً ساری کہانیوں کو تتر بتر کر دیا؟ زلزلے کے ایک ہی جھٹکے نے کیوں کر آرزوؤں، تمناؤں اور خوابوں کی ساری بستیاں پیوند زمین کر دیں؟
مجھے یقین ہے کہ کلر کہار کی کھائیوں کی نذر ہو جانے والے فیصل آباد کے ننھے شہید کلرکہار کی جھیل اور اس کی شاداب سیر گاہوں سے کہیں زیادہ حسین و دلکش باغوں میں تفریح کر رہے ہوں گے اللہ ان کے ساتھ جاں بحق ہو جانے والے اساتذہ اور دیگر افراد کو بھی اپنی بے پایاں رحمتوں سے نوازے۔ خدائے بزرگ و برتر ان کے والدین اور عزیزوں کو صبر سے نوازے بے شک انسان بے بس و لاچار ہے۔ تقدیر اٹل ہے اور ہمیں حکم ہے کہ کسی چوں و چرا کے بغیر اللہ کی مرضی کے سامنے سر جھکا دیں۔ ہماری جانیں، ہمارے مال اور ہماری اولادیں سب اللہ کی دی ہوئی نعمتیں بھی ہیں اور امانتیں بھی۔ کچھ بھی ہمارا اپنا نہیں وہ جو چاہے عطا فرما دے، جو چاہے چھین لے۔ اگر وہ اپنی محبوب ترین ہستی، نبی آخرالزمان ﷺکو اولاد کے غم سے آزما سکتا ہے تو ہم آپ کیا حیثیت رکھتے ہیں؟
ہر حادثہ کچھ سوال اٹھاتا ہے اور ہر حادثے کے کچھ ہی دن بعد یہ سوالات خود بخود تحلیل ہو جاتے ہیں ہمارے معمولات میں کوئی تبدیلی آتی ہے نہ اصلاح احوال کی کوئی تدبیر کی جاتی ہے یہاں تک کہ ایک اور حادثہ ایک اور قیامت ڈھا جاتا ہے۔ سانحہ کلرکہار کا پہلا سوال ان نجی اسکولوں سے تعلق رکھتا ہے جو ساون کی ہریالی کی طرح پھیلتے جا رہے ہیں گلی محلے کے مکانوں اور کوٹھیوں میں خیمہ زن یہ اسکول دلکش انگریزی نام رکھتے، بھاری فیسیں لیتے اور تمام قواعد وضوابط سے آزاد خالص کاروباری انداز میں ایک دکان سی سجا لیتے ہیں چونکہ مقصود اعلیٰ پیسہ بٹورنا ہوتا ہے اس لئے یہ غیرنصابی اور تفریحی سرگرمیوں کے نام پر میلے ٹھیلے بھی لگاتے رہتے ہیں۔ کوئی یہ جائزہ لینے والا نہیں کہ کیا کوئی اسکول، ایک اچھی درسگاہ کے تقاضے پورے کرتا ہے؟ کیا بچوں کے لئے معقول کلاس رومز، لائبریری ، کھیل کا میدان، لیبارٹریز اور دیگر سازوسامان تدریس موجود ہے؟ کیا اساتذہ مناسب تعلیم و تربیت سے آراستہ ہیں؟ انتہا تو یہ ہے کہ ان اسکولوں پر ایسی بھی کوئی قدغن نہیں کہ وہ کتنی فیس وصول کر سکتے اور کس کس طرح والدین کو نچوڑتے ہیں۔
میں فیصل آباد کے ملت گرامر اسکول سے واقف نہیں ممکن ہے وہ اچھا اور معیاری اسکول ہو۔ یہ بھی ممکن ہے کہ وہ کاروباری اور تجارتی بنیادوں پر نہ چلایا جا رہا ہو لیکن کیا اسکول کی انتظامیہ کو معلوم نہ تھا کہ جو بس وہ کرائے پر لے رہے ہیں اس میں کتنی سیٹیں ہیں کیااسکول کے منتظم نہیں جانتے تھے کہ ساٹھ یا ستر نشستوں کی گنجائش رکھنے والی بس میں اگر ایک سو پانچ یا ایک سو دس طلباء ٹھونس دیئے جائیں گے تو بس اوور لوڈ ہو جائیگی؟ محض پیسوں کی بچت کی خاطر پچاس فیصد زیادہ سواریاں بھر دینے والوں سے اتنا تو ضرور پوچھا جانا چاہئے کہ انہوں نے ایسا کیوں کیا اور بچوں کی زندگیوں کو کیوں خطرے میں ڈالا؟
دوسرا اہم سوال حادثے کا شکار ہونے والی بس کا ہے۔ کیا وہ بس موٹروے پر سفر کے لائق تھی؟ ہمارے ہاں قانون ہونے کے باوجود ایسی فرسودہ اور ناکارہ پبلک ٹرانسپورٹ سڑکوں پر موجود ہے جو سکریپ میں بدل دی جانی چاہئے۔ گاڑیوں کی چیکنگ اور انہیں سڑکوں پر رواں رکھنے کی اجازت دینے والا نظام رشوت میں لت پت ہو کر ناکارہ ہو چکا ہے۔ میں نے دیکھا ہے کہ یورپ ہی نہیں تقریباً تمام مہذب ملکوں میں انتہائی سختی کے ساتھ اس قانون پر عمل ہوتا ہے۔ دبئی میں کسی گاڑی کے ٹائر ذرا پرانے ہوں تو سروس اسٹیشن والے سروس سے انکار کر کے مجاز اتھارٹی کو اطلاع کر دیں گے۔ آپ ان دھلی گردآلود گاڑی سڑک پر لائیں تو چالان ہو جاتا ہے۔ حادثات کی روک تھام کے لئے ضروری ہے کہ ایک خاص سال کے ماڈل سے پرانی گاڑیاں سڑکوں پر نہ آ سکیں ٹوکن کی تجدید کو گاڑی کی بھرپور جانچ پڑتال سے مشروط کر دیا جائے۔ موٹر وے اور بڑی شاہراہوں پر آنے والی گاڑیوں کے ٹائروں کی پرکھ کا کوئی پیمانہ وضع کیا جائے۔ خاص طور پر طلباء و طالبات کے تفریحی دوروں کے لئے مقامی انتظامیہ کا کردار بھی رکھا جائے جو گاڑی کی جانچ پڑتال کے علاوہ اس امر کو یقینی بنائے کہ اوور لوڈنگ نہ ہو۔
تیسرا قابل ذکر پہلو نااہل اور بے ہنر ڈرائیورز کا ہے۔ ڈرائیونگ لائسنس جاری ہونے کا نظام ناقص ہے ایسے افراد بھی لائسنس بنوا لیتے ہیں جو کبھی ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھے تک نہیں ایک بار کسی نہ کسی طور لائسنس حاصل کر لینے والا تادم مرگ، ڈرائیونگ کا استحقاق حاصل کر لیتا ہے عملاً عمر کی کوئی قید نہیں۔ تربیت کا کوئی نظام نہیں۔ ٹریفک قوانین کی پابندی کا شعور ناپید ہے متعلقہ حکومتوں کو چاہئے کہ وہ ڈرائیونگ لائسنس کے اجراء، تجدید اور ڈرائیور کی کارکردگی جانچنے کا معتبر نظام وضع کریں۔ باہر کے ملکوں کی طرح بار بار ٹریفک قواعد کی خلاف ورزی کے مرتکب ڈرائیور کے پوائنٹس کم کرتے رہیں اور ایک خاص مرحلے کے بعد اس کا لائسنس منسوخ کر دیا جائے ممکن ہو تو تمام لائسنس یافتگان کے لائسنسوں کا بھی پھر سے جائزہ لیا جائے۔
تازہ ترین سانحے کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ ایک سو دس کے لگ بھگ سواریاں لے کر فیصل آباد سے کلرکہار تک آنے اور پھر واپس موٹروے پر سرگرم سفر ہونے تک متعلقہ پولیس نے کوئی روک ٹوک کیوں نہ کی؟ موٹروے پولیس تو اچھی شہرت کی حامل ہے اس نے کیوں اس بس کی اوورلوڈنگ کا نوٹس نہیں لیا؟ آئی جی موٹروے کو اپنے طور پر اس کی تحقیق ضرور کرنی چاہئے۔ اگر موٹر وے پولیس کے اختیارات میں کچھ اضافہ ضروری ہے تو اس کی سفارش کی جائے شاید میرا یہ تاثر زیادہ درست نہ ہو لیکن آئے روز موٹروے پر سفر کے دوران مجھے گمان گزرا کہ موٹروے پولیس کے اندر شاید پہلے کی سی مستعدی اور پیشہ ورانہ چابک دستی نہیں رہی۔ آئی جی موٹروے مناسب خیال کریں تو کچھ تجدیدی تربیتی کورسوں کا اہتمام کیا جائے یا تھک سی جانے والی پولیس کو کچھ تازہ خون فراہم کیا جائے۔
وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے حادثے کی جامع تحقیقات کے لئے ایک کمیٹی قائم کر دی ہے عام طور پر ایسی کمیٹیاں ایک رسمی سی رپورٹ مرتب کر کے اپنے فریضے سے سرخرو ہو جاتی ہیں اور پھر یہ رپورٹ کسی فائل میں بند کر سرکاری ریکارڈ کے تابوت میں دفن ہوجاتی ہے۔ اب کے ایسا نہیں ہونا چاہئے ایک ساتھ اتنے بچوں کی ایسی المناک موت بہت بڑا سانحہ ہے کسی لمبی چوڑی تحقیق و تفتیش کے بغیر دو اسباب سطح پر تیرتے نظر آ رہے ہیں جن کا میں نے تذکرہ کیا ہے قانون قاعدے اور ضابطے موجود ہیں لیکن نظام نافذہ کرپشن، بدعنوانی اور نااہلیت میں لتھڑا ہوا ہے اگر فیصل آباد کے نوخیز شہیدوں کے لہو سے اصلاح احوال کی کوئی کونپل پھوٹ سکی تو یقینا ان کی معصوم روحوں کو خوشی ہوگی اور یقینا کئی اور ماؤں کی گودیں اجڑنے سے بچ جائیں گی۔
تازہ ترین