کراچی (ٹی وی رپورٹ) ترجمان پنجاب حکومت ملک احمد خان نے کہا ہے کہ زینب کے قاتل کو جلد پکڑنے کی پوری کوشش کررہے ہیں، پولیس کو قصور میں مظاہرین پر فائرنگ نہیں کرنی چاہئے تھی، فائرنگ کرنے والے پولیس اہلکار کو گرفتار کر کے مقدمہ درج کرلیا گیا ہے، انسداد فسادات فورس کا قیام عمل میں لایا جارہا ہے۔ وہ جیو کے پروگرام ”لیکن!“ میں میزبان رابعہ انعم سے گفتگو کررہے تھے۔ ”لیکن‘!“ کا یہ خصوصی پروگرام قصور کے علاقے روڈ کورٹ سے نشر کیا گیا جہاں پچھلے دو سال میں بہت سی معصوم بچیوں کوا غوا کر کے زیادتی کی گئی، اس موقع پر زینب کے گھر آنے ،امیر جماعت اسلامی سراج الحق، پیپلز پارٹی کے رہنما چوہدری منظور احمد اور سینئر صحافی اشرف جاوید سے بھی گفتگو کی گئی۔ امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے کہا کہ زینب کے سانحہ کے بعد قوم اپنی بچیوں کے حوالے سے فکرمند ہے، حکومت نے اب بھی کچھ نہیں کیا تو اگلے لائحہ عمل کا اعلان کریں گے۔چوہدری منظور احمد نے کہا کہ شہباز شریف قصور واقعات کا پہلے ہی نوٹس لے لیتے تو انہیں رات کے اندھیرے میں چھپ کر زینب کے گھر نہیں آنا پڑتا،زینب کے معاملہ میں چار دن ملے لیکن پولیس نے کچھ نہیں کیا۔اشرف جاوید کا کہنا تھا کہ قصور میں بچوں کے ساتھ زیادتی کے تسلسل سے ہونے والے واقعات پر مکمل تحقیقات کی ضرورت ہے، مشترکہ تحقیقاتی ٹیم میں انٹیلی جنس اداروں کو بھی شامل کیا جائے جو ان واقعات کی تہہ تک پہنچے۔رابعہ انعم کا اس موقع پر کہنا تھا کہ ایک وحشی کی وحشت کا نشانہ بننے والی ساڑھے چھ سال کی معصوم زینب کے والدین عمرے کیلئے سعودی عرب گئے ہوئے تھے، انہیں اپنی معصوم بچی کے اغوا کی خبر ملنے کے بعد جلدی واپس آنا پڑا، زینب کے تین بہن بھائی ہیں، زینب کی والدہ بتاتی ہیں کہ میں خانہ کعبہ میں بیٹھ کر بی بی زینب کے صدقے اپنی زینب کیلئے انصاف کی دعا مانگ کر اس امید سے آئی تھی کہ میری زینب مجھے مل جائے، لیکن جب وہ ماں آئی تو اسے اپنی زینب کا جنازہ ملا۔ رابعہ انعم کا کہنا تھا کہ زینب کے واقعہ کا سن کر آس پاس کے علاقوں سے ایسے لوگ بھی قصور آرہے ہیں جن کی بچیاں اغوا ہوئیں اور ان کے ساتھ زیادتی ہوئیں، وہ چاہتے ہیں کہ زینب کے ساتھ ان کی بچیوں کیلئے بھی انصاف مانگا جائے،کچھ خواتین نے ہمیں بتایا کہ ان کی بچی سائرہ دو ماہ سے لاپتہ ہے جسے کسی بااثر شخص نے لوٹانے کیلئے غریب ماں باپ سے ڈیڑھ لاکھ روپوں کا مطالبہ کیا، پولیس نے اس معاملہ میں بھی کچھ نہیں کیا۔ترجمان پنجاب حکومت ملک احمد خان نے کہا کہ زینب کے قاتل کو جلد پکڑنے کی پوری کوشش کررہے ہیں، فارنزک سائنس لیب کی مدد سے سی سی ٹی وی فوٹیج کا معیار بہتر بنایا ہے اس طرح ہمیں مشتبہ شخص کی شناخت میں آسانی ہوگی، سی سی ٹی وی فوٹیج سے حاصل کی گئی ملزم کی تصویر پورے شہر میں چسپاں کرنے کے ساتھ انعام کا اعلان بھی کردیا ہے، جس پولیس مقابلہ میں لوگ مارے گئے وہ بچے کے اغوا کا واقعہ تھا، پولیس نے اس بچے کو برآمد کروایا اور اس کارروائی کے دوران ایک شخص مارا گیا تھا، ایک انکاؤنٹر ایسا ہے جس پر حکومت کو ماورائے عدالت قتل ہونے کا شک ہے۔ ملک احمد خان کا کہنا تھا کہ پولیس کو قصور میں مظاہرین پر فائرنگ نہیں کرنی چاہئے تھی، فائرنگ کرنے والے پولیس اہلکار کو گرفتار کر کے مقدمہ درج کرلیا گیا ہے، ڈپٹی کمشنر کی سیکیورٹی پر مامور پولیس اہلکار نے مجمع کو اپنی طرف بڑھتے دیکھ کر سیدھا فائر کردیا جس کے نتیجے میں لوگ ہلاک اور زخمی ہوئے، انسداد فسادات فورس کا قیام عمل میں لایا جارہا ہے۔ زینب کے رشتہ داروں کا کہنا تھا کہ پولیس کے مطابق بچیوں سے زیادتی کے بارہ واقعات میں ایک ہی ڈی این اے ملا ہے، پولیس کے بقول زیادتی کے واقعات میں ملوث کچھ لوگوں کو مار دیا لیکن ہم سمجھتے ہیں بے گناہ لوگوں کومارا گیا ہے،اگر واقعی مجرموں کو مارا ہوتا تو ہمارے ساتھ یہ واقعہ نہیں ہوتا، محلے داروں نے ہی پولیس کو وہ سی سی ٹی وی فوٹیج دی ہے جس میں زینب کسی شخص کے ساتھ جارہی ہے۔