کراچی(جنگ نیوز)جیو نیوز لائیو ٹرانسمیشن میں بات چیت کرتے ہوئے پی پی پی کی رہنماءشازیہ مری نے کہا کہ چاہے اب جتنی بھی مخالفت ہوپیپلزپارٹی کی حکومت نے سندھ میں تیسری، چوتھی اور پانچویں کلاس کے نصاب میں جنسی آگاہی تعلیم شامل کریگی،سماجی کارکن علی دایان نے کہا کہ سماجی کارکن علی دایان کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ مسئلہ گھمبیر گفتگو نہ کرنے کی وجہ سے ہو رہا ہے ،منیزے جہانگیر نے کہا کہ انگلینڈ اور انڈیا کیطرح ہمارے اسکولز میں اور گھر میں یہ آگاہی دینے کی ضرورت ہے ۔روشنی ہیلپ لائن کے محمد علی کا اس حوالے سے کہنا تھا کہ بچوں کو شعور دینے کیساتھ ساتھ پولیس کو بھی اس حوالے سے بہت کچھ سکھانے کی ضرورت ہے۔رابعہ انعم نے سوال اٹھایا کہ آپ سوچ سکتے ہیں بچی کی لاش ملنے پر پولیس والوں نے دس ہزار روپے طلب کئے اور بچوں کے ساتھ زیادتی کا مسئلہ زیادہ گھمبیر کس وجہ سے ہو رہا ہے، زیادتی پر بات کرنے سے یا پھر اس مسئلے پر ایکشن نہ لینے سے اس ملک میں بہت بڑا طبقہ ایسا ہے جو سمجھتا ہے اس پر جتنی بات ہوگی جتنا کام ہوگا جتنی آگاہی ہوگی وہ فحاشی کے زمرے میں ہوگا ۔ سماجی کارکن علی دایان کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ مسئلہ گھمبیر گفتگو نہ کرنے کی وجہ سے ہو رہا ہے اور بات صرف لڑکیوں کی نہیں ہے یہاں لڑکوں کو بھی اس حوالے سے تحفظ حاصل نہیں ، جنسی آگاہی کے بارے میں ہمیں بچوں کو بچپن میں سکھانے کی ضرورت ہے اسلام آپ پر یہ لازم کرتا ہے کہ آپ اپنی بچوں کی حفاظت کریں انہیں علم کی روشنی دیں علی دایان کا مزید کہنا ہے کہ اسلامیات کے نصاب میں حقوق العباد کے زوایے کے تحت آپ اس ایشو کو ایڈریس کریں ہمارا مذہب اس بات کی اجازت اور اسپیس بھی دیتا ہے ۔ منیزے جہانگیر کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ ایسے کیسز بھی ہماری نظر سے گزرے ہیں جہاں مجرم پکڑا گیا اس نے اعتراف کیا پھر چھوٹ گیا اور پھر اس نے وہی جرم سرانجام دیا قصور میں کئی بچوں سے بات ہوئی تو انکشاف ہوا زیادتی کا نشانہ بننے والے زیادہ تر لڑکے ہیں جن کے ساتھ اس طرح زیادتی ہوئی فلمیں بنائی گئیں اور پھر بلیک میل کیا گیا اسٹیٹ کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس حوالے سے کمپین چلائے اور جسٹس فار زینب صرف یہ نہیں ہوگا کہ اُس مجرم کو کیفر کردار تک پہنچا دیا جائے جسٹس فار زینب یہ ہوگا کہ اس ایشو کو پوری طرح سے حل کیا جائے، ہمارے اسکولز میں اور گھر میں اس کی آگاہی دینے کی ضرورت ہے جس طرح انگلینڈ اور انڈیا میں ہوتا ہے ۔ مسلم لیگ ن کی رہنماء عظمیٰ بخاری نے کہا کہ پنجاب میں جب اغواکے معاملات چل رہے تھے اس وقت بھی ہماری بورڈ میٹنگ ہوئی تھی ہم ڈین اے ایکٹ لا رہے ہیں یقینا پویس کی کارکردگی بہتر ہوتی تو آج ہم اتنے شرمندہ اور پریشان نہ ہوتے۔ رابعہ انعم نے سوال اٹھایا کہ تنقید کیا میڈیا کر رہا ہے یا پھر شہزاد اقبال جو سماء ٹی وی میں ہوتے ہیں اُن پر bashing کی ہے رانا ثنا اللہ نے بغیرت اور کس طرح کے الفاظ بولے گئے ۔ عظمی بخاری نے کہا کہ میں سمجھتی ہوں ایک دوسرے کی تضحیک کرنے سے اس مسلے کا حل نہیں نکل سکتا۔ اُن کا مزید کہنا ہے کہ جو ڈی این اے ایکٹ ہم لانے چاہتے ہیں پنجاب کے اندر ان کیسزکے حوالے سے اُس کے اندر جو ہماری اسلامی نظریاتی کونسل ہے اس کے مطابق ڈی این اے قابل قبول ثبوت نہیں ہوسکتا حالانکہ زیادتی کیسز کے اندر ڈی این اے کے علاوہ کوئی اور چیزکوئی اور گواہی ممکن نہیں ہے چار گواہ وہاں ممکن نہیں ہوسکتے جہاں یہ واقعہ ہو رہا ہومیں سمجھتی ہوں اس ایشو کو تمام پاکستان کی پارٹیز کو اپنے منشور میں شامل کرنا چاہیے ۔