قومی ہاکی ٹیم جب ہارتی ہے تو کہا جاتا ہے، ملک میں ہاکی کا ٹیلنٹ ختم ہو چکا ہے، یہ کھیل صرف 30سے35کھلاڑیوں تک محدود ہے۔ دوسری جانب جو بھی فیڈریشن آتی ہے ، وہ صرف پیسے کا رونا روتی ہے، لیکن کہانی کا ایک دوسرا پہلو بھی ہے۔ یہ لکھتے ہوئے انتہائی دکھ ہو رہا ہے کہ اس کھیل کی تباہی اور بربادی کے اصل کردار وہ سابق اولمپئنز بھی ہیں جنھوں نے اپنے شاندار کھیل سے ہاکی میں قومی پرچم سربلند کیا لیکن افسوس ماضی میں پاکستان ہاکی کی پہچان یہ سابق اولمپئنز اب اس کھیل پر بوجھ بن گئے ہیں ، چند ایسے اولمپئنز تو اس معاملے میں ہاکی کھلاڑیوں کی نظروں میں ہی گرگئے ہیں ، اپنی چاپلوسی کی وجہ سے ۔ ان کا مقصد صرف ہر فیڈریشن کیساتھ باری لینا ہے۔ رہی سہی کسر موجودہ ہاکی فیڈریشن کے شرمناک کارناموں نے پوری کر دی ہے۔ مالی بے قاعدگیوں اور من پسند اولمپئنز کو ساتھ رکھنے کی روش نے ملک میں ہاکی کا جنازہ نکال دیا ہے، لیکن فیڈریشن کے صدر بریگیڈیئر (ر) خالد کھوکھر ہوں ، یا پھر سیکریٹری اولمپئن شہباز سینئر لگتا ہے، دونوں نے تو شاید پاکستان ہاکی کو تباہ کر نے کا تہیہ کیا ہوا ہے، جب موجودہ فیڈریشن نے ہاکی کے معاملات کی زمہ دار سنبھالی ، اس وقت پاکستان کا عالمی درجہ بندی میں ساتواں نمبر تھا اور اب قومی ہاکی ٹیم تاریخ کی بدترین 14ویں پوزیشن پر موجود ہے۔ اور فیڈرشین کے عہدیداروں کی خواہش ہے کہ انھیں مزید دوسال دیے جا ئیں۔ حیران کن بات ہے، کراچی اور لاہور میں فیڈریشن نے ورلڈ الیون کے میچوں کا انعقاد کیا، یہ قابل ستائش بات ہے، البتہ ’’ہال آف فیم‘‘ میں فیڈریشن نے جو بندر بانٹ کی اور ہاکی اولمپئنز کا مذاق اڑایا، اس پر پاکستان ہاکی سے وابستہ لوگوں کی خاموشی سمجھ سے بالاتر ہے؟ وہ ہاکی فیڈریشن جس نے بنگلہ دیش میں کھیلے گئے ایشیا کپ میں کھلاڑیوں کو چند سو ڈالرز ڈیلی الائونس دینے میں آنسو نکلوا دیے، اپنے من پسند اولمپینز کو غیر ملکی دوروں کے نام پر سیر سپاٹے کروائے، اب اس نے ہال آف فیم میں غیر ملکی ہاکی لیجنڈز کی پذیرائی ، تو کی لیکن اپنے ہاکی لیجنڈز کو نظر انداز کرکے ثابت کردیا کہ فیڈیشن میں کام کر نے والے عہدیدار محض خوشامدی اولمپئنز کو ہی مانتے ہیں۔ جب فیڈریشن کا طرز عمل یہ ہوگا تو ملک میں ہاکی کیسے ترقی کر سکتی ہے۔ سیدھا سوال ہے؟ بین الاقوامی ہاکی میں ریکارڈ 348گول کر نے والا پنالٹی کارنر ایکسپرٹ سہیل عباس ، اولمپئنز منظور جونئیر، رشید الحسن اور حنیف خان کیساتھ اولمپک ، ورلڈ کپ اور ایشین گیمز میں گولڈ میڈل حاصل کر نے والا پاکستان کا واحد گول کیپر شاھد علی خان کیا اس قابل نہیں کہ ان کا نام ہال آف فیم میں شامل ہوتا۔ شرم آنی چاہیے، ہاکی فیڈیشن کے عہدیداروں کو جنھوں نے ہال آف فیم کیلئے ایک ریفری کو دوسرے ملک سے بلا لیا اور اپنے ہی ملک کے نامور اور ریکارڈساز اولمپئنز کو نظر انداز کر دیا۔ اس افسوس ناک اقدام کی اصل وجہ ان اولمپئنز کا پی ایچ ایف کے ہم خیال نہ ہونا ہے، بات بھی کچھ غلط نہیں ، جب فیڈریشن اپنے اوپر لگنے والی مالی بے قاعدگیوں کا جواب دینے کے لئے تیار نہ ہو، ٹیم کی کارکردگی دن بدن خراب سے خراب تر ہو رہی ہو،تو کیسے ،کوئی غیر ضرور تعریف کرسکتا ہے ،ماضی میں پاکستان ہاکی فیڈرشین کے سیکریٹری رہنے والے اولمپئن آصف باجوہ نے سابق اولمپئینز کو پرانی گاڑیاں کہا تو احتجاج ہوا، وہاں آصف باجوہ کے کہے الفاظ پر احتجاج بنتا تھا، وہ اولمپئنز جنھوں نے پاکستان ہاکی کی خدمت کی، فیڈریشن اگر انھیں کچھ دے نہیں سکتی، تو کم ازکم ان کی تذلیل بھی تو نہ کرے، لیکن موجودہ فیڈریشن کیساتھ اولمپئن اصلاح الدین صدیقی کی وابستگی پر ہاکی کے حلقوں میں حیرانگی کا اظہار کیا جا رہا ہے،35سال پہلے ہاکی چھوڑ دینے والے 70 سال کے اصلاح الدین فیڈریشن کے خرچے پر کچھ دن پہلے آسٹریلیا گئے اور واپسی پر انھیں چیف سلیکٹر بنا دیا گیا، فیڈریشن کے صدر بریگیڈر(ر) خالد کھوکر نے اصلاح الدین جو ماضی میں ہر فیڈرشین کی تعریف کر کے عہدہ لینے میں مشہور ہیں ، انھیں نواز کر سابق اولمپئنز کو واضح پیغام دیدیا ہے کہ صرف منہ بند رکھنے پر ہی عہدہ ملے گا۔ اگر ہاکی فیڈریشن کی یہی روایت برقرار رہی تو اصلاح الدین صدیقی اور ان کے ہم خیال اولمپئنز ملک میں اس کھیل کی تباہی کے سب سے بڑے ذمہ دار ہونگے۔