کراچی (نیوز ایجنسیاں/اسٹاف رپورٹر) امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے سندھ پولیس پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ کراچی میں مزدوروں کو پکڑ کر ماورائے عدالت قتل کرنا ایس ایس پی رائو انور کا مشغلہ ہے۔ اگر رائو انوار ایسا ہی بہادر ہے تو اسے پاک بھارت سرحد پر بھیجا جائے۔ پورے ملک میں جنگل کا قانون بنا ہو اہے۔ قاتلوں کو تحفظ اور بے گناہوں کو قتل کرنا سندھ پولیس کا شیوا بن چکا ہے لیکن حقیقت میں نقیب اللہ محسود کے قتل کے اصل ذمہ دار وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ ہیں۔ نقیب اللہ محسود کا جرم کیا تھا۔ حکومت کو نقیب اللہ کی ہلاکت کا جواب دینا ہوگا۔ نقیب اللہ کے قاتل کے خلاف کارروائی کیلئے حکومت کو دس روز کی مہلت دیتے ہیں۔ آصف علی زرداری اور وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ عوام کو انصاف فراہم کریں۔ اگر 10دن کے اندر اندر یہ مسئلہ حل نہ کیا گیا تو جماعت اسلامی 31جنوری کو کراچی میںایک زبردست جرگہ کرے گی جس میں ماورائے عدالت قتل کے حوالے سے لائحہ عمل کا اعلان کیا جائے گا ۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے کراچی میں میڈیا سے گفتگو اور مقتول کے عزیز و اقارب،اہلِ محلہ اور نوجوانوں سے خطاب کرتے ہوئے کیا ۔اس موقع پر ان کے ہمراہ حافظ نعیم الرحمن، عبدالوہاب،عبدالرزاق خان، زاہد عسکری، سرفراز احمد، محمد یوسف، حاجی طور خان، ملک مقصود و دیگر بھی موجود تھے۔سراج الحق نے نقیب اللہ محسود اور دیگر مقتولین کے لیے دعائے مغفرت کرائی اور تعزیت کا اظہار کیا۔سراج الحق نے مزید کہا کہ حکومت سے ایسی کارروائی کا مطالبہ کرتے ہیں جس سے نقیب اللہ کے اہلخانہ مطمئن ہوجا ئیں۔رائو انوار کو معطل کرنا کوئی سزا نہیں ہے۔ان قاتلوں سے وہ سلوک نہیںکیا جس کے وہ حقدار تھے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اس قتل کے اصل ذمہ دار وزیر اعلیٰ خود ہیں، آصف زرداری نقیب کے اہل خانہ کو انصاف دلائیں تاکہ آئندہ کوئی اور پولیس افسر کسی بے گناہ شہری کا خون نہ کرسکے ۔ انہوں نے کہا کہ واقعہ کی تحقیقات جلد از جلد مکمل کی جائیں اور اہلِ خانہ کو انصاف فراہم کیا جائے۔ حکمرانوں نے انصاف فراہم نہ کیا تو عوام کا ہاتھ اور حکمرانوں کا گریبان ہوگا۔کراچی میں 118پولیس مقابلوں میں 424افراد قتل ہوئے ہیں ان تمام واقعات کی تحقیقات ہونی چاہئے۔ اگر عوام کو انصاف نہ ملا تو سندھ کے وزیر اعلیٰ اس کے ذمہ دار ہوں گے۔جماعت اسلامی نے حکومت کو 10دن کی مہلت دی ہے اگر یہ مسئلہ حل نہ ہو ا تو ہم خاموش نہیں بیٹھیں گے ۔ علاوہ ازیں جماعت اسلامی ضلع شرقی کے تحت ادارہ نورحق میں ایک روزہ اجتماع عام سے خطاب کرتے ہوئے امیر جماعت اسلامی پاکستان سینیٹر سراج الحق نے کہا ہے کہ آج ملک میں ظلم کا نظام ہے اور عوام انصاف سے محروم ہیں ، ملک پر چند مخصوص خاندانوں اور کرپٹ اشرافیہ کا راج ہے، ظلم کے اس نظام کے خلاف بغاوت اور عدل و انصاف کا نظام قائم کرنا ہوگا۔ قرآن کو نافذ کرنا ہوگا، اسلامی حکومت ہی عوام کے مسائل کا حل ہے،2018ملک میں تبدیلی، انقلاب اور ظالموں کے احتساب کا سال ہوگا،جماعت اسلامی آج بھی کراچی کے گلی کوچوں میں موجود اور عوام کی حقیقی ترجمان ہے۔ اجتماع سے مرکزی نائب امرا جماعت اسلامی اسد اللہ بھٹو، راشد نسیم، ڈائریکٹر امور خارجہ عبدالغفار عزیز، جماعت اسلامی بلوچستان کے امیر مولانا عبد الحق ہاشمی، سیکرٹری سندھ ممتاز حسین سہتو،امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمن ، نائب امیر جماعت اسلامی کراچی ڈاکٹر اسامہ رضی، امیر ضلع شرقی یونس بارائی ، سکریٹری ضلع نعیم اختر اور دیگر نے بھی خطاب کیا۔ پروفیسر عنایت اللہ خان ٹونکی نے منظوم کلام پیش کیا ۔ اجتماع عام میں مختلف طبقوں سے وابستہ بااثر افرادنے جماعت اسلامی میں شمولیت بھی اختیار کی۔سراج الحق نے مزید کہا ہے کہ آج بھی سندھ کے اندر غریب ہاری جانوروں کی طرح زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ جاگیردارانہ نظام نے انسانوں کو کیڑے مکوڑے کی طرح کردیا ہے۔غریب عوام کے لیے انصاف، تعلیم اور علاج میسر نہیں ہے۔ آج سیاست اور جمہوریت یرغمال ہے ۔ عوام کے حصے میں صرف محرومیاں ہیں۔جماعت اسلامی زندگی میں انقلاب اور تبدیلی کی بات کرتی ہے ۔انفرادی اور اجتماعی زندگی میں صرف اللہ تعالیٰ کے قوانین اور اصولوں کو نافذ کرنے کی دعوت دیتی ہے ۔جماعت اسلامی کے کارکنان معاشرے میں دعوت دین کی جدوجہد میں مصروف ہیں۔معاشرے میں تبدیلی انفرادی محنت اور اسلامی حکومت کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ ایسی اسلامی حکومت جس میں غریبوں کو اپنے گردے فروخت نہ کرنے پڑیں، اسلامی حکومت سودی معیشت کو ختم کردے گی۔استحصالی نظام کو جڑ سے اکھاڑ پھینکے گی ۔دلوں میں جگہ بنانے کے لیے محبت، اخوت اور قرآن کی دعوت انقلاب کو پھیلانے کی ضرورت ہے۔انہوں نے کہا کہ کراچی تحریکوں کی ماں اور انقلاب کا شہر ہے۔ برسوں سے اس شہر پر جو حالات مسلط ہیں اس نے عوام کو بدحال کردیا ہے۔عوام کو پینے کا صاف پانی تک میسر نہیں ہے۔جماعت اسلامی نے کراچی میں تعصب کی آگ بجھانے کے لیے لازوال قربانیاں دی ہیں۔جماعت اسلامی ملک میں عدل و انصاف کا نظام و معاشرہ قائم کرنا چاہتی ہے۔ایسا نظام اور معاشرہ جہاں انصاف کے لیے چھوٹے اور بڑے کی تمیز نہ ہو جہاں روٹی، تعلیم ، صحت اور علاج کی سہولت ہر انسان کے لیے آسانی سے میسر ہو ۔حکمرانوں اور عوام کے درمیان کوئی رکاوٹیں نہ ہو ں ، جہاں عوام حکمرانوں سے سوال کرسکتے ہوں اور حکمران عوام کے سامنے ان کے خادم کی حیثیت سے کا م کریں۔