• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہماری سیاسی اور عسکری قیادت سمجھ لے کہ اگر پاکستان کو بچانا مقصود ہے تو پھر محض زبانی جمع خرچ سے کچھ نہیں ہونے والا۔ گزشتہ ہفتہ کے روز امریکی و نیٹو ہیلی کاپٹروں نے پاکستان کی مہمند ایجنسی میں وحشیانہ حملہ کر کے ہمارے 24 فوجیوں کو شہید کر دیا۔ اُسی روز کابینہ کی ڈیفینس کمیٹی کا اجلاس ہوا جس میں نیٹو سپلائی کو فوری طور پر بند کرنے اور سمشی ائیر بیس کو امریکا سے 15 دن میں خالی کرانے کے فیصلوں کے ساتھ ساتھ اس بات کا بھی اعلان کیا گیا کہ امریکا کے ساتھ تعاون پر مکمل نظرثانی کی جائے گی۔ جو لوگ اس حقیقت سے واقف نہیں کہ پہلے ہمارے ساتھ ماضی میں کیا کچھ ہوتا رہا اور امریکا نے ہماری خودمختاری کو کس طرح بار بار تار تار کیا اُن کے لیے تو پاکستان کی سیاسی اور فوجی قیادت کا یہ ردعمل بہت قابل تحسین اور غیرت مندانہ ہو گا۔ مگر جو ماضی سے واقف ہیں اُن کے لیے یہ سب کچھ محض وقتی ردعمل کے علاوہ کچھ نہیں کیوں کہ ہمارا ماضی گواہ ہے کہ ہمارے ساتھ کچھ بھی ہو جائے ہم امریکا کی غلامی کو چھوڑنے کے لیے تیار نہیں۔ پہلے بھی امریکی و نیٹو افواج نے کئی مرتبہ پاکستان کی حدود کی خلاف ورزی کرتے ہوے ہماری افواج اور ایف سی کے درجنوں جوانوں اور افسروں کے علاوہ ایک بڑی تعداد میں ہمارے شہریوں کو شہید کیا۔ ہماری ہی اجازت سے اور ہمارے ہی ہوائی اڈوں سے اڑنے والے ڈرونز کے حملوں میں 2200 سے زیادہ ہمارے ہی لوگ جن میں بچے ، عورتیں اور بوڑھے شامل ہیں کو شہید کیا ۔ مگر ہم نے کبھی کچھ نہ کیا!!! سب کچھ چپ چاپ بر داشت کرتے گئے۔ جب عوامی پریشر کا خطرہ ہوا تو دکھلاوے کے لیے احتجاج بھی ریکارڈ کرایا دیا۔ کیا وکی لیکس نے پوری قوم کے سامنے اس حقیقت کو عیاں نہیں کیا ہمارے وزیر اعظم صاحب نے امریکیوں کو یقین دلا تھا کہ آپ ڈرون حملے کرتے رہیں ہم دکھلاوے کا شور مچاتے رہیں گے۔ عام شہری کی زندگی کی تو یہاں کوئی قیمت ہی نہیں۔ اُن کو تو یہاں امریکہ کے ہاتھوں ایسے مروایا جاتا ہے جیسے وہ انسان ہی نہیں۔ اس تازہ واقعہ سے ایک مرتبہ پہلے بھی پاکستانی چوکی پر امریکی و نیٹوحملے کے نتیجے میں ہمارے تین فوجیوں کی شہادت پر نیٹو کی سپلائی لائن کو بند کر دیا گیا تھا مگر چند ہی دنوں میں اُس کو دوبارہ کھول دیا گیا۔ ہم پر تو ریمنڈ ڈیوس کی قیامت بھی گزری ۔ کہنے کو تو ہم اسلامی دنیا کی واحد ایٹمی طاقت ہیں اور دنیا کی چھٹی بڑی فوجی قوت مگر ہمیں تو دومئی 2011 کو ایبٹ آباد پر امریکی حملہ کی ذلت کا بھی سامنا کرنا پڑا ۔ مگر شرمندہ ہونے کی بجائے ہمارے صدر نے واشنگٹن پوسٹ میں فوری لکھے گئے اپنے مضمون میں ایبٹ آباد حملہ کو سراہا جبکہ وزیر اعظم گیلانی نے اپنے فوری ردعمل میں اس واقعہ کو عظیم کامیابی قرار دے دیا۔ فوج کی ترجمانی کرنے والے ماہنامہ انگریزی رسالہ Hilal نے مئی 2011 کے شمارے میں اپنے ادارتی نوٹ میں مئی دو کے واقعہ کو مثبت انداز میں بیان کیا۔
اپنا سب کچھ امریکہ کے لیے نچاور کرنے کے باوجود ہم غلامی کی ایک ایسی دلدل میں پھنس چکے ہیں جس کی کوئی نظیر نہیں ملتی۔ ہم نے امریکا کے لیے اپنے چالیس ہزار فوجیوں، پولیس و سکیورٹی ملاز مین اور عام شہریوں کو قربان کر دیا، ستر ارب ڈالر (تقریبا6200 ارب روپیے) کا نقصان اپنے ملک اور اس کی معیشت کو پہنچادیا، اپنے بھائیوں، بیٹوں اور حتہ کہ ایک بیٹی (ڈاکٹر عافیہ) کو امریکا کے حوالے کر دیا، اپنے ہوائی اڈے اور زمینی اور فضائی حدود امریکی فوج اور سی آئی اے کو پیش کر دیے تا کہ وہ اپنی مرضی و منشاء کے مطابق افغانستان کو تباہ و برباد کر دے اور جو چاہے ہمارے ملک میں بھی کر لے۔ اس سب کے باوجود ہم نے کیا حاصل کیا ؟؟ ہمیں کیا ملا؟؟ خودکش دھماکے، دہشتگردی، بدامنی، آگ اور خون کا کھیل، شدت پسندی، ذلت، بدنامی، نیٹو فوجی آپریشن اور ڈرون حملے!!! ہماری پارلیمنٹ نے 2008 اور 2011میں متفقہ طور پر دو قراردادیں پاس کیں اور امریکا سے متعلق پاکستان کے خارجہ پالیسی کو برابری کی بنیاد پر استوار کرنے کے علاوہ ڈرون حملوں کو فوری طور پر روکنے کا مطالبہ کیا۔ پاکستان کی خودمختاری اور سالمیت کا ہر حال میں تحفظ کرنے کا عہد کیا اور کسی بھی خلاف ورزی کو کسی طو ر بھی برداشت نہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ یہی فیصلہ آل پارٹیز کانفرنس نے کیا بلکہ تمام سیاسی جماعتیں اس بات پر متفق ہو گئیں کہ پاکستان کی بربادی کا سبب بننے والی امریکا کی نام نہاد دہشتگری کے خلاف جنگ کو خیرآباد کہتے ہوے حکومت پاکستان میں طالبان سے بات چیت کے ذریعے امن کو یقینی بنایا جا ئے۔ابھی پالیمنٹ اور آل پارٹیز کانفرنس کے فیصلوں پر ابھی عمل درآمد کرنا باقی ہے مگر حکومت کی طرف سے طالبان سے بندوق کی بجائے بات چیت سے مسئلہ حل کرنے کے عندیہ نے خودکش دھماکوں اور دہشت گردی کے سلسلے کو روک دیا۔ طالبان کی طرف سے حال ہی میں یہ بھی کہا گیا کہ انہوں نے پاکستان کے اندر حملوں کو روکنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ہمارے ملک کا امن یقینی طور پر امریکا کے لیے پریشانی کا باعث ہے۔ شاید نیٹو کا تازہ حملہ امریکا کی اسی خفگی کا نتیجہ ہو۔ امریکا جو پاکستان میں بدامنی اور خون خرابے کا خوہاں ہے وہ پاکستان میں طالبان کے ساتھ حکومت کے مزاکرات کو کیسے برداشت کر سکتا ہے۔ کچھ لوگوں کا تو یہ بھی خیال ہے کہ میمو سکینڈل سے پاکستانی قوم کی توجہ ہٹانے کے لیے یہ کاروائی کی گئی ہے۔ وجہ جو بھی ہو اب فوج اور حکومت کو پارلیمنٹ اور آل پارٹیز کانفرنس کے فیصلوں پر مکمل طور پر عمل درآمد کرنا ہو گا تا کہ پاکستان کوامریکا کی طفیلی ریاست بننے کی بجائے ایک خودمختار اور باوقار ملک بنایا جا سکے۔ فیصلے تو وزیر اعظم کی زیر قیادت دفاعی کمیٹی نے کر لیے مگر ضرورت اس بات کی ہے کہ ان فیصلوں پر مکمل عمل کیا جائے۔ ابھی تو قوم ہربیرونی جارحیت کے خلاف اپنی فوج اور حکومت کے ساتھ کھڑی ہوتی ہے۔ ایسا نہ ہو ہماری فوجی و سول قیادت امریکہ نواز پالیسیوں پر چلتی رہے اور نوبت اس حد تک پہنچ جائے کہ عوام مایوس ہو کر اپنا وہ ردعمل بھی ظاہر کرنا چھوڑ دیں جو اس وقت تک یقینا قابل دید ہے۔ امریکا ڈرون حملوں کی طرح نیٹو حملوں کو بھی ہمارے لیے ایک معمول کی کاروائی میں بدلنا چاہتا ہے کیوں کہ اسی طرح وہ اپنے اصل نشانہ (پاکستان کا نیوکلئیر پروگرام) تک پہنچ سکتا ہے۔ شاہ محمود قریشی نے گھوٹکی میں اپنے جلسہ میں خطاب کرتے ہوے یہ بات کہہ دی کہ پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو صدر آصف علی زرداری سے خطرہ ہے۔ یہی بات کچھ اور بھی لوگ کر تے رہے ہیں۔ پاکستان ایٹمی انرجی کمیشن کے ایک اعلی ترین افسر نے اپنے کچھ اسی نوعیت کے تحفظات کی بنا پر2008 میں استعفی دے دیا تھا مگر اس وقت کے چئیرمین جائینٹ چیف آف سٹاف کمیٹی نے اس ایٹمی سائنسدان کا استعفی قبول نہ کیا۔
تازہ ترین