آج یکم فروری کو امریکہ کی تمام ریاستوں میں نیشنل فریڈم ڈے ایک ایسے عظیم شخص کی یاد میں منایا جارہا ہے جس نے ایک ڈاکئے اور کلرک کی حیثیت سے اپنی پیشہ ورانہ زندگی شروع کی، اپنی قابلیت کی بنا پر وکالت کا امتحان پاس کیا، امریکی کانگرس کا رکن بننے کے بعد دو مرتبہ امریکہ کا صدر منتخب ہوا، سیاہ فام باشندوں کی غلامی کے خاتمے کی ایک ایسی بے مثال تحریک کی قیادت کی جس میں اپنی جان بھی قربان کردی لیکن امریکہ میں غلامی کا ہمیشہ کیلئے خاتمہ کرنے میں کامیاب ہوگیا۔ جی ہاں، میں بات کررہا ہوں امریکہ کے سولہویں صدر ابراہم لنکن کی جنہیں بجاطور پر امریکہ میں بسنے والے سیاہ فام امریکیوں کیلئے نجات دہندہ قرار دیا جاتا ہے۔دور جدید کی سپرطاقت امریکہ آج سے صرف پانچ سو برس پہلے تک دنیا کیلئے ایک نامعلوم خطہ تھا جہاں جنگلی قبائل بسا کرتے تھے، یورپی جہاز راں کولمبس انڈیا کے سمندری راستے کی دریافت میں بھٹک کر امریکہ جا پہنچا اور وہاں کے مقامی باشندوں کو ریڈ انڈین کا نام دے ڈالا۔ بعد ازاں، براعظم امریکہ اپنے دور کی نوآبادیاتی طاقتوں کے استحصال کا بھی نشانہ بنا اور ایک طویل جدوجہد کے بعد برطانوی سامراج سے آزادی حاصل کی گئی۔اس زمانے میں انسانوں کی غلامی کوئی معیوب عمل نہ تھا بلکہ مغربی قوتیں جانوروں کی مانند سیاہ فام افراد کو پکڑ کر امریکہ میں بیگار کیلئے لایا کرتی تھیں، ان بے گناہ غلاموں کی خرید و فروخت کیلئے باقاعدہ بازار لگتے تھے، مالک کو اپنے غلام پر مکمل حقوق ملکیت حاصل تھے اور مالک غلطی کی صورت میں اپنے غلام کو موت کے گھاٹ بھی اتار سکتا تھا۔ امریکی تاریخ کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ جنوبی اور شمالی ریاستوں کے مابین خانہ جنگی کی بڑی وجہ غلامی کو قانونی جواز دینا تھا، جنوبی ریاستیں اپنی معیشت کو مستحکم رکھنے کیلئے غلامی کا سلسلہ جاری رکھنے کی خواہاں تھیں جبکہ شمالی ریاستیں غلاموں کو برابری کے حقوق دینا چاہتی تھیں۔ یہ اپنے دور کی ایک خونی جنگ تھی جس میں لگ بھگ چھ لاکھ امریکی سپاہیوں اور عوام کی بڑی تعداد کو اپنی جان گنوانی پڑی، امریکی خانہ جنگی کا نتیجہ شمالی ریاستوں کے قائد ابراہم لنکن کی فتح کی صورت میںسامنے آیاجس نے یکم فروری1865کو امریکی جوائنٹ ہاؤس اور سینیٹ میںغلامی کے خاتمے کی قرارداد پر دستخط کئے جو تیرہویں ترمیم کی صورت میں امریکہ میں غلامی کے مکمل خاتمہ کا باعث بنی، ایک اندازے کے مطابق اس ترمیم کے بعد چالیس لاکھ سیاہ فام انسانوں کو آزادی میسر آئی، چودہویں ترمیم کے ذریعے انہیں امریکی شہریت کا حقدار بھی تسلیم کیا گیا۔ابراہم لنکن کی عظمت کا ایک اندازہ اس خط سے لگایا جاسکتا ہے جو اس نے اپنے بیٹے کے استاد کے نام تحریر کیا تھا، عظیم امریکی رہنما کا کہنا تھا کہ زندگی گزارنے کیلئے انسان کو اعتماد، محبت اور حوصلے کی ضرورت ہواکرتی ہے۔ امریکہ میں نیشنل فریڈم ڈے سالانہ بنیادوں پر منانے کا کریڈٹ رچرڈ رابرٹ رائیٹ نامی سیاہ فام امریکی شہری کو جاتا ہے، رچرڈ رابرٹ نے جارجیا میں ایک غلام گھرانے میں آنکھ کھولی لیکن اپنی خداداد قابلیت کی بنا پر ماہرِ تعلیم، سیاستدان، سماجی رہنما اور ملٹری آفیسر کے طور پر بھی جانے گئے، بطور بانی نیشنل فریڈم ڈے ایسوسی ایشن انہوں نے امریکی معاشرے کے تمام مکاتب فکر کو دعوت دی کہ وہ مشترکہ طور پر ایک ایسا دن منتخب کرنے میں تعاون کریں جوتمام امریکیوں کی آزادی کی عکاسی کرتا ہو، اس سلسلے میں انہوں نے یکم فروری کا دن عظیم امریکی لیڈر ابراہم لنکن کی جانب سے تیرہویں ترمیم پر دستخط کرنے کے حوالے سے تجویز کیا، رچرڈ رابرٹ کی زندگی نے وفا نہ کی لیکن انکے انتقال کے ایک سال بعد امریکی کانگریس نے یکم فروری کوبطور نیشنل فریڈم ڈے قرار دینے کا بل منظور کرلیا جو1948ء میں صدر ہیری ٹرومین کے دستخط کے بعد نافذ العمل ہوگیا۔ ہر سال امریکہ بھر میںیہ قومی دن منانے کیلئے مختلف امریکی ریاستوں اور سفارتخانوں میں خصوصی تقریبات اس عزم کے ساتھ منعقد کی جاتی ہیں کہ امریکہ آزادی کا علمبردار ہے، میں سمجھتا ہوں کہ امریکہ کو سپرپاور بنانے میں نیشنل فریڈم ڈے سے منسلک آزادی کے نظریہ نے اہم کردار ادا کیا، دنیا بھرکے ذہین و قابل لوگوں کا سرزمین امریکہ پر خوشدلی سے خیرمقدم کیا گیا اور انہیں مساوی شہری حقوق فراہم کئے گئے۔ عالمی منظرنامے میںنوآبادیاتی نظام کے ستائے ہوئے ممالک اور آمریت کے حامی سویت بلاک کے مقابلے میں امریکہ کی زیرقیادت مغربی بلاک جمہوریت، شخصی آزادی اور انسانی حقوق کے تحفظ کیلئے امید کی کرن بن کر سامنے آیا۔انسانوں کی انسانوں کے ہاتھ غلامی کی تاریخ کے شواہد زمانہ قدیم سے ملتے ہیں لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ دنیا کے جس معاشرے میں بھی غلامی کا رواج رہا وہاں آپس کی چپقلش نے ترقی کی راہ ہموار نہیں ہونے دی، دوسری طرف ہر وہ معاشرہ فلاح پاگیا جہاں کے ہر شہری کو ترقی و خوشحالی کے یکساں مواقع میسر آئے۔ آج دورِ جدید میں انسانوں کی غلامی باضابطہ طور پر تو موجود نہیں لیکن کچھ عناصر کی طرف سے دوسروں کو نیچا دکھانے کا سلسلہ جاری ہے۔ اپنے نظریات دوسروں پر تھونپنے کیلئے اقتصادی، نسلی، طبقاتی اور علاقائی غلبے کی خواہش نے معاشرے کا امن غارت کردیا ہے،آج کمزور ممالک میں بسنے والوں پر جنگ مسلط کرکے آزادی سے زندگی بسر کرنے کا حق چھینا جارہا ہے اور خارجہ پالیسی میں حکومتی اختلاف رائے کی سزا بے گناہ عوام کو دی جارہی ہے۔ پاکستان روز اول سے امریکہ کا اتحادی انسانی آزادی پر یقین رکھنے کی بنا پر ہے لیکن پاکستان کی خودمختاری کو پامال کرتے ہوئے ڈرون حملوں اور دھمکیوں کا سلسلہ جاری ہے۔ آج امریکیوں کو ابراہم لنکن کے نظریہ آزادی کا علمبردار ہونے کے ناطے پوری دنیا کے مظلوموں کیلئے آزادی کی راہ ہموار کرنی چاہئے لیکن امریکی باشندے اپنی حکومت کی متنازعہ پالیسیوں کی وجہ سے خودآزادی سے دوسرے علاقوں میں نقل و حرکت کرنے سے گھبراتے ہیں، ابراہم لنکن کا دیس ایک ایسے متنازعہ شہر کو دارالحکومت تسلیم کرنے کا اعلان کررہا ہے جس پر بزور طاقت قبضہ جمایا گیا ہے اور عالمی قوانین کے تحت اسکا پرامن تصفیہ ہونا باقی ہے، اسی طرح مخصوص ممالک کے باشندوں پرامریکہ آمد کیلئے سفری پابندیاں عائد کرنا نوآبادیاتی سوچ کی عکاسی کرتا ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ آج انسانوں کی غلامی کا خاتمہ کرکے ممالک کو غلام بنانے پر توجہ مرکوز کی جارہی ہے تاکہ کمزور ممالک کو مجبور کیا جاسکے کہ وہ ملکی مفادات کے برخلاف عالمی طاقتوں کے حق میں فیصلہ کریں، بصورت دیگر معاشی پابندیوں اور جنگی تصادم کا سامنا کریں۔ میں آج امریکہ کے تمام شہریوں کو نیشنل فریڈم ڈے کی مبارکباد پیش کرتے ہوئے امید کرتا ہوں کہ وہ امریکہ کو پھر سے ابراہم لنکن کے مثبت اصولوں پر عمل کرنے کیلئے اپنے سماج کی منفی قوتوں کو شکست دینے میں کامیاب ہونگے، بطور پاکستانی فریڈم ڈے ہمارے لئے بھی سبق آموز ہے کہ اگر ہم پاکستان کو ایشیائی ٹائیگر بنانا چاہتے ہیں تو ہمیں غلامانہ سوچ سے چھٹکارہ پاکر اکثریت اقلیت سے بالاتر ہوکر اپنے ملک کا وقار بلند کرنا ہوگا تاکہ نہ تو کوئی دوسرا ملک پاکستان پرمیلی نگاہ ڈال سکے اور نہ ہی واچ لسٹ میں شامل کرے۔