• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آپ کو حیرت ہو گی کہ میری ہر سیاسی پارٹی میں دوستیاں ہیں، دوستیوں میں قربت ہے، اسی قربت کے طفیل مجھے سیاسی جماعتوں کے اندر ہونے والی بہت سی باتوں کا پتہ چل جاتا ہے، مجھے پاکستان کی تمام جماعتوں کے سربراہوں کو قریب سے دیکھنے کا نہ صرف اتفاق ہوا ہے بلکہ ان سے گفتگو کا شرف بھی حاصل ہوا ہے ۔تمام سیاسی جماعتوں کے سربراہوں کی حالت قریباً ایک جیسی ہے، شاید ان کو ایک جیسا ماحول میسر ہے یا شاید انہوں نے خود ایسے حالات پیدا کر رکھے ہیں کہ وہ قریب قریب ایک جیسی صفات کے مالک بن چکے ہیں،شاید اسی لئے پاکستانی جمہوریت کا پھل لوگوں کی بھلائی کے لئے نصیب نہیں ہو رہا، شاید اسی لئے پاکستان میں ایک مخصوص گروہ ترقی کرتا جا رہا ہے۔پاکستانی سیاسی جماعتوں کے سربراہوں کی ذاتی عادات میں تھوڑا بہت فرق ہو سکتا ہے مگر ان کی سیاسی عادات کم و بیش ایک جیسی ہیں، آج میں آپ کے سامنے بارہ ایسی خصوصیات پیش کرنے لگا ہوں جو ہر پارٹی سربراہ میں موجود ہیں، اسی لئے آپ کو پاکستان میں سیاسی پارٹیاں ایک جیسی لگتی ہیں، سیاسی پارٹی کے سربراہ کا تعلق خواہ کسی بھی علاقے سے ہو اس میں درج ذیل خصوصیات ضرور نظر آئیں گی۔
1-ہر سیاسی جماعت کاسربراہ پانچ چھ بندوں کے حصار میں ہے، اس کی باقی پوری جماعت اس دائرے سے باہر رہتی ہے، یہ پانچ چھ افراد ہر وقت پارٹی سربراہ کے ساتھ چپکے رہتے ہیں، یہ اتنے ہوشیار لوگ ہوتے ہیں کہ وہ اپنے مخصوص دائرے میں کسی کو گھسنے نہیں دیتے۔یہی پانچ چھ افراد پارٹی سربراہ کو الٹی سیدھی پٹیاں پڑھاتے رہتے ہیں، اسے آپ بدقسمتی کہیں کہ پارٹی کے اندر بڑے بڑے معزز اراکین کو ان پانچ چھ افراد کا محتاج ہونا پڑتا ہے ،میں اسے پارٹی سربراہ کے ساتھ پارٹی کی بھی بدقسمتی سمجھتا ہوں۔لیڈر جب سیاسی میٹنگز میں ہو یا عوامی جلسوں میں یہ چھ کا ٹولہ اسے گھیرے رکھتا ہے، عوامی جلسوں میں سیکورٹی حصار کے اندر بھی یہی ٹولہ نمایاں نظر آتا ہے ۔
2-کارکنوں سے دوری بھی ہر سیاسی پارٹی کے سربراہ کا مقدر بنا دیا گیا ہے، اس کے چہیتے اسے کارکنوں سے دور رکھتے ہیں تاکہ پارٹی سربراہ کو اصل صورتحال کا پتہ نہ چل سکے۔مخصوص ٹولے کی یہی کوشش ہوتی ہے کہ لیڈر کو یہ نہ پتہ چل سکے کہ پارٹی کے اندر کیا ہو رہا ہے، پارٹی کے دوسرے لیڈر پارٹی کارکنوں کے ساتھ کیسا رویہ رکھتے ہیںکارکنوں کی پارٹی سربراہ سے ملاقات بھی کیا خاک ملاقات ہوتی ہے اگر کبھی سالوں بعد یہ موقع مل بھی جائے تو کارکنوں کی بات نہیں سنی جاتی بلکہ پارٹی سربراہ کارکنوں سے خطاب کرکے چلا جاتا ہے، اگر کسی کارکن نے ای میل، خط یا پیغام کے ذریعے کوئی شکایت کی تو بدقسمتی سے یہ پیغام پہلے مخصوص ٹولے کے پاس جاتا ہے جو سچ کا دشمن ہوتا ہے، بس اس پیغام کے بعد اس کارکن کا پارٹی میں رہنا مشکل ہو جاتا ہے ۔
3-پاکستان میں سیاسی جماعتوں کے سربراہ کانوں کے بہت کچے ہوتے ہیں، انہیں ان کے مخصوص بندے جو کہہ دیں وہ اسے ہی سچ سمجھتے ہیں، میں نے دیکھا ہے کہ کئی معزز لوگوں کو پارٹی سربراہ بے عزت کرکے رکھ دیتے ہیں، پارٹی کے کئی اہم افراد سے دوریاں اختیار کرلیتے ہیں، پس پردہ کردار کانوں میں پھونکیں مارنے والوں کا ہوتا ہے، قصہ مختصر ہر لیڈر کانوں کا کچا ہوتا ہے ۔
4-ہر سیاسی پارٹی کے سربراہ کیلئے دولت مند افراد اہم بن جاتے ہیں وہ دولت مندوں کی بہت قدر کرتا ہے، کسی کا غریب ہونا بھی سیاسی جماعت کے اندر کسی جرم سے کم نہیں، امارت ایک ایسا ہتھیار ہے جو بہت سے لوگوں کا سر کچل کر آپ کو پارٹی سربراہ کے قریب کر دیتا ہے، پاکستانی سیاسی جماعتوں کے سربراہوں نے چند افراد ایسے رکھے ہوتے ہیں جن کی امارت آسمان کو چھو رہی ہوتی ہے ممکن ہے یہ افراد بہت سے اخراجات برداشت کرتے ہوں۔
5-ہر پارٹی سربراہ کی انگریزی کمزوری ہے، پارٹی میں جو افراد اچھی انگریزی بول لیں ان کو خاص اہمیت مل جاتی ہے حیرت ہے پاکستانی سیاسی جماعتوں کے سربراہ یہ کبھی نہیں سوچتے کہ قابلیت اور چیز ہے اور کسی کا اچھی انگریزی بول لینا ایک مختلف چیز ہے ۔ان سربراہوں کی خدمت میں عرض ہے کہ انگلستان میں پاگل خانوں میں بھی انگریزی بولی جاتی ہے، ٹیکسی ڈرائیور اور سویپر بھی انگریزی بولتے ہیں قابلیت اور چیز ہے، زبان اور چیزہے یہ ضروری تو نہیں کہ ہر انگریزی بولنے والا قابل ہو، قابلیت اردو، فارسی اور پنجابی بولنے والوں میں بھی ہو سکتی ہے ۔
6-سیاسی پارٹیوں کے سربراہ عام طور پر اہل علم سے دور رہتے ہیں۔علم اور کتابوں سے تو خیر وہ پہلے ہی دور ہو چکے ہیں، سیاسی پارٹیوں کے سربراہ اہل علم کی محفلوں میں جانا پسند نہیں کرتے اور نہ ہی ان کی محفلوں میں بیٹھنا انہیں اچھا لگتا ہے، یہ بھی پاکستانی سیاسی جماعتوں کے سربراہوں کی بدقسمتی ہے ۔
7-ہر سیاسی جماعت کا سربراہ خوشامد پسند ہے، اسے جھوٹی تعریفیں سننے کی عادت اپنانا پڑتی ہے اسے سچی اور تلخ باتیں پسند نہیں آتیں۔پاکستان میں ہر سیاسی جماعت کا سربراہ خود ساختہ ارسطو ہے جب وہ اپنی سیاسی محفلوں میں گفتگو کرتا ہے تو یہ تصور کرتا ہے کہ سامنے بیٹھے ہوئے انسانوں کو کچھ پتہ نہیں، بعض تو سامنے بیٹھنے والوں کو بیوقوف سمجھتے ہیں یہ لیڈروں کی بہت بڑی حماقت ہے کہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ انہیں سب پتہ ہے ۔
8-پاکستان کی اکثر سیاسی جماعتوں کے سربراہ فوک وزڈم سے محروم ہیں بلکہ یہ کہنا چاہئے کہ وہ سیاست پاکستان میں کرتے ہیں مگر ان کی یہ سیاست امریکی، برطانوی یا کسی اورسوچ کے زیر اثر ہوتی ہے وہ دیسی لوگوں پر ولایتی طریقے آزمانے کی کوشش کرتے ہیں۔یہی سوچ انہیں خراب کرتی ہے ۔
9-ہر سیاسی پارٹی کے سربراہ کو ماڈسکاڈ لوگ پسند ہیں، پاکستان میں سیاسی جماعتوں کے سربراہ سادے لوگوں سے دور رہتے ہیں، سادگی اختیار کرنے والے لوگ ناپسندیدگی کی فہرست میں آ جاتے ہیں ۔
10-پاکستان میں ہر سیاسی جماعت کے سربراہ کے اردگرد غیر منتخب مشیروں کی بہتات نظر آئے گی، اکثر کے قریب تو غیر سیاسی مشیر ہوتے ہیں،ان مشیروں کو اپنے سوا کسی سے غرض نہیں ہوتی،اسی لئے وہ اکثر عوام دشمن مشورے دیتے ہیں ۔
11-اگر سیاسی جماعت کا سربراہ جھوٹ نہ بھی بولے (جو کہ بہت کم ہوتا ہے ) تو بھی اس کے ارد گرد جھوٹ بولنے والے بہت ہوتے ہیں، وہ باتوں میں جھوٹ کی آمیزش ضرور کرتے ہیں ، پاکستان میں سیاسی پارٹیوں کے سربراہوں کے قول وفعل میں تضاد ضرور نظر آتا ہے ۔
12-ویسے تو یہ کام مشکل ہے مگر اگر لیڈر دیانتدار بھی ہو تو اس کے آس پاس ایسے لوگوں کا ہجوم ہوتا ہے جو بددیانتی کو زندگی کا لازمی حصہ سمجھتے ہیں، ان کے نزدیک دیانتداری کوئی خاص چیز نہیں ہوتی ۔
خواتین و حضرات !ان بارہ خصوصیات کے علاوہ پارٹی سربراہوں میں اور بھی خصوصیات ہیں مگر وہ شاید لکھنے کے قابل نہیں ہیں، انہی خصوصیات نے پاکستان میں پوری طرح جمہوریت نہیں آنے دی، لیڈروں کی انہی خصوصیات کے باعث حالات خراب سے خراب تر ہو گئے چار دن پہلے اردو کی معروف شاعرہ نوشی گیلانی نے مجھے آسٹریلیا سے فون کرکے کہا کہ ’’...ہم چار پانچ نظریاتی ساتھی پاکستان سے باہر منتقل ہو گئے تھے، ہمارا خیال تھا کہ وقت بدلے گا تو پاکستان آ جائیں گے مگر وقت بدلا نہیں، وقت برا ہو گیا ہے....‘‘ سچ پوچھئے میرے پاس اس جملے کا جواب نہیں ہے کہ ’’...وقت بدلا نہیں، وقت برا ہو گیا ہے ...‘‘بقول صائمہ الماس
میرا ہونا ہی جرم تھا میرا
میری دنیا ہی چھین لی مجھ سے

تازہ ترین