لندن(مرتضیٰ علی شاہ) حال ہی میں لندن جانے والی قومی احتساب بیورو کی ٹیم نواز شریف اور ان کے بچوں کے خلاف مقدمات میں قابل مواخذہ شواہد کے حصول میں ناکام رہی ہے، اور ان ہی پرانے ڈاکومنٹس کی نوٹرائز کاپیاں اپنے ساتھ پاکستان لے گئی ہے جو جے آئی ٹی سپریم کورٹ کے سامنے پیش کرچکی ہے، اور حسن نواز نے پاناما کے مقدمے کی سماعت کے دوران وہی کاغذات سپریم کورٹ میں پیش کئے تھے ،تاہم نیب کے قریبی ذرائع نےبرطانیہ سے مطلوبہ مدد حاصل کرنے میں ناکامی کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہمیں بھرپور کامیابی ملی ہے اور یہ تمام چیزیں بہت جلد سامنے آجائیں گی ۔دی نیوز کو معلوم ہواہے کہ نیب افسران کی جانب سے 3مرتبہ برطانیہ کے دورے کے باوجود برطانیہ کی سینٹرل اتھارٹی انٹرنیشنل کرمنلٹی یونٹ اور نیشنل کرائم ایجنسی نے باہمی قانونی معاونت کے تحت کوئی نئی معلومات نیب کو فراہم نہیں کیں،نیب کے ایک ذریعے نے اس بات کی تصدیق کی کہ حسن اور حسین نواز شریف کے خلاف کسی دوسرے سرکاری ادارے نے بھی ایسی کوئی معلومات فراہم نہیں کیں جو اس مقدمے میں نیب کیلئے کار آ مد ثابت ہوسکتیں۔نیب کو معلوم ہواہے کہ نیب کی ٹیم کم وبیش ایک ہفتہ لندن میں مقیم رہی اور اس دوران باہمی قانونی معاونت کے تحت ہوم آفس اور نیشنل کرائم ایجنسی کے حکام سے ملاقاتیں کیں، نیب کی ٹیم نے پرانے ڈاکومنٹس کی تصدیق ایک نوٹری پبلک سے کرائی جو کاغذات پر مہر لگانے کیلئے پاکستان ہائی کمیشن گیاتھا۔پانامہ مقدمے کی سماعت کے دوران حسن نواز نے عدالت کو ان کمپنیوں کامکمل ریکارڈ فراہم کیا تھا اور یہ ریکارڈ ان ہی کمپنیوں کاہے۔ اب نیب سپلیمنٹری فلیگ شپ ریفرنس دوبارہ دائر کررہی ہے۔ جے آئی ٹی میں کہاگیا ہے کہ حسن نواز شریف فلیگ شپ انوسٹمنٹ لمیٹڈ ،ہارٹ سٹون پراپرٹیز لمیٹڈ ،کوئنٹ لمیٹیڈ ،فلیگ شپ سیکورٹیز لمیٹڈ، کوئنٹ گلوسیسٹر لمیٹڈ،کوئنٹ پیڈنگٹن لمیٹڈ اور فلیگ شپ ڈیولپمنٹس لمیٹڈ کے مالک ہیں۔ یہ وہی کمپنیاں ہیںجن کے بارے میں جے آئی ٹی نے دعویٰ کیاہے کہ حسن نواز اس کے مالک ہیں اور اسے جے آئی ٹی کے ویلیوم 7میںفلیگ شپ انوسٹمنٹ لمیٹڈ کے نام سے شامل کیاگیا۔نیوز کی تفتیش سے ظاہرہواہے کہ ان میں سے زیادہ تر کمپنیاں صرف خریداری اور فروخت کے مخصوص مقصد کے تحت قائم کی گئی تھیں ،اور اس کے بعد یا بند کردی گئیںیافروخت کردی گئیں ان میں سے بعض کمپنیوں نے ایک دن بھی کاروبار نہیں کیا اور ان کاکوئی اثاثہ بھی نہیں ہے۔فلیگ شپ انوسٹمنٹ لمیٹڈ اب بھی موجود ہے لیکن اس کے نام پر کوئی اثاثے نہیں ہیں،ہارٹ سٹون پراپرٹیز لمیٹڈ ایک پراپرٹی کی خریداری کیلئے قائم کی گئی تھی اور اس کے اثاثوں کی فروخت کے بعد ہی اس کوبندکردیاگیا، کوئنٹ ہولڈنگز لمیٹڈ اب بھی موجود ہے لیکن اس کے کوئی اثاثے نہیں ہیں، کوئنٹ ایسٹن پلیس 2 لمیٹیڈ کئی سال قبل ہی ختم کی جا چکی ہے ، کوئنٹ گلوسیسٹر لمیٹیڈ کم وبیش 5سال قبل ختم کی جاچکی ہے ۔ کوئنٹ پیڈنگٹن لمیٹیڈ موجود ہےلیکن اس کے کوئی اثاثے نہیں ہیں، اورفلیگ شپ ڈیولپمنٹس لمیٹڈ قائم کی گئی تھی لیکن اس نے کبھی کوئی کاروبار نہیں کیا،نیوز کو معلوم ہوا ہے کہ ان کمپنیوں کا ریکارڈ حاصل کرنے اور نوٹری پبلک سے اس کی تصدیق کرانے کے بعد نیب کی ٹیم اس کابنڈل فارن اورکامن ویلتھ آفس لے گئی جہاں متعلقہ حکام نے پریمیم سروس کی شرح سے چارج وصول کرکے نوٹری پبلک کی مہر کی تصدیق کردی اور اس کے بعد پاکستان ہائی کمیشن نے ایف سی او کی مہر کی تصدیق کردی۔ ذرائع کے مطابق یہ سب کچھ نیب عدالت میں یہ ڈاکومنٹس پیش کرنے سے قبل ان کو قانونی طورپر درست کراناتھا۔نیوز کومعلوم ہواہے کہ چارلس گوتھری سالیسیٹر اینڈ نوٹری پبلک کو کم وبیش10روز قبل پاکستانی ہائی کمیشن میںبلایاگیاتھاجہاں انھوںنے کم وبیش 30صفحات کی تصدیق کے بعد اپنے چارج وصول کئے، نیوز نے اطلاع دی تھی کہ برطانیہ نے پاکستان کو حسن نواز کے بارے میں معلومات فراہم کرنے سے انکار کردیاتھا کیونکہ وہ برطانوی شہری ہیں جبکہ حسین نواز کے بارے میں معلومات فراہم کرنے پر اتفاق کیاتھا اور پاکستانی حکام کو بتایاگیاتھا کہ حسین نواز کو برطانیہ میں کوئی بینک اکائونٹ نہیں ہے۔نیب کو نہ تو ان کے بارے میں کچھ مل سکا اور نہ ہی حسن نواز کے خلاف کوئی نئی چیز مل سکی۔نیوز کومعلوم ہواہے کہ نیب کی ٹیم نے گزشتہ 2ماہ کے دوران اپنے تیسرے دورہ برطانیہ کے دوران جن ڈاکومنٹس کی نوٹری پبلک سے تصدیق کرائی ہے وہ وہی کاغذات ہیں کوئسٹ سالیسیٹر اس سے قبل جس کی تصدیق کرچکے ہیںوکلا کی یہ فرم واجد ضیا کے کزن اختر راجہ اور پاکستان ہائی کمیشن کی ہے، لیکن اس دفعہ نیب کی ٹیم نے وہی کاغذات کمپنی کے ہائوس ویب سائٹ سے ڈائون لوڈ کرنے کا فیصلہ کیا نیب نے ان کمپنیوں کے جن کاغذات کی تصدیق کرائی ہے اس میں ان کمپنیوں کے لائسنس ،ان کے کاروبار کی تفصیلات، ان کے اثاثوں اور ان کوقائم کرنے کیلئے استعمال کئے جانے والے کاغذات شامل ہیں۔کہاجاتاہے کہ یہ کمپنیاںبرطانوی قانون کے مطابق قائم کی گئیں انھوں نے کام کیا اور پھر انھیں تحلیل کردیاگیا، کمپنیز ہائوس کے ایک ترجمان کاکہناہے کہ ان کمپنیوں نے کبھی کسی قانون کی خلاف ورزی نہیں کی یہ کمپنیاں کھلی مارکیٹ سے پراپرٹیز خریدنے اور انھیں ڈیولپ اور ریفربش کرکے فروخت کرنے کیلئے قائم کی گئی تھیں۔جے آئی ٹی نے نوٹ کیاہے کہ حسن نواز نے ایون فیلڈ اپارٹمنٹس کو برطانوی کمپنیوں میں سرمایہ کاری کیلئے استعمال کیا یہ فلیٹ 2006سے حسین نواز کی ملکیت ہیں ،یہ ڈاکومنٹس نہ تو برطانوی حکام نے قانونی معاونت کے معاہدے کے تحت نیب کو فراہم کئے ہیں اور نہ ہی ان سے کسی قانون کی خلاف ورزی ثابت ہوتی ہے۔ پاکستان ہائی کمیشن کے ایک ترجمان نے رابطہ کرنے پر کسی طرح کاتبصرہ کرنے سے انکار کردیا۔