کراچی(ٹی وی رپورٹ)مردان میں اسماءقتل کیس کے سلسلے میں ڈی این اے ٹیسٹ کی رپورٹ آگئی ہے،دو سو آٹھ افراد کے خون کے نمونہ لے گئے تھے لیکن ابھی تک وہ باچہ خان میڈیکل مردان میں پڑے ہوئے ہیں،لاہور نہیں بھیجے گئے ہیں۔پولیس تفتیش کے دوسرے ذرائع کو استعمال نہیں کر رہی۔ مقامی جرگہ بنایا ہوا ہے جس کے ذریعہ اسماء کی فیملی کو کنٹرول کیا ہوا ہے اور اُن کے گھر پر پہرا بھی بیٹھایا ہوا ہے۔ان خیالات کا اظہار جیو نیوزکے پروگرام’’لیکن ‘‘میں مردان کے ضلعی ناظم حمایت اللہ مایارنے میزبان رابعہ انعم سے گفتگو کرتے ہوئے کیا ہے۔ پروگرام ”لیکن“ میں مردان کی متاثرہ بچی اسماء کے دادا نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ جب بچی گم ہوئی تو ہم نے چوکی پر رپورٹ جمع کرائی اور جواب دیا گیا کہ آپ بچی کو ڈھونڈیں اور جیسے ہی خبر ملے ہمیں بتا دیں ،شروع میں پولیس نے کوئی چھاپہ نہیں مارا، ہم بچی کو ڈھونڈتے رہے ،کھیتوں میں سے بچی کی لاش ملی،دوبارہ پولیس سے رابطہ کیا،اُن کو بتایا کہ بچی مردہ حالت میں ملی ہے۔پولیس نے کہا کہ بچی کی لاش کو چوکی پر لے آئیں،چوکی لے گئے،پھر کہا گیا اسپتال لے جائیں،اسپتال لے گئے،ٹیسٹ ہوا۔اُس کے بعد بڑے افسر آنا شروع ہوئے ۔ اس سوال پرکہ حکومت کا دعویٰ ہے چوبیس گھنٹوں میں پولیس نے لاش برآمد کی ہے،کے جواب میں متاثرہ بچی کے دادانے کہا کہ لاش ہم نے خود ڈھونڈی ہے۔جیو نیوز کے پروگرام ”لیکن“ میں نمائندہ جیونیوز آفتاب احمد کا مردان میں اسماء کے قتل کے حوالے سے کہنا ہے کہ پولیس والوں کاجو رویہ ہے اُس سے نہیں لگتا کہ انصاف ملے گا،جہاں کرائم ہوتا ہے پولیس کو چاہیے کہ وہ رپورٹ کریں کہ یہ واقعہ ہوا ہے۔پولیس اُس وقت سے لے کر اب تک اسی کام میں لگی ہوئی ہے کہ کسی طرح حقائق پر پردہ ڈالا جائے۔میڈیکل رپورٹ آنے کے باوجود پولیس کا کہنا ہے کہ اُس کے ساتھ زیادتی نہیں ہوئی،آئی جی کنفرم کر رہے ہیں لیکن مردان پولیس ابھی بھی شک و شبہہ میں ہیں،ایسا نہیں ہے کہ انہیں پتہ نہیں ہے۔ پولیس نے لاش برآمد نہیں کی،متاثرہ بچی کے خاندان کی خواتین نے اُس کی لاش نکالی ہے،لاش نکلنے کے بعد بھی پولیس نے اس جگہ کا معائنہ نہیں کیا۔یہاں پر ایک جرگہ بنایا گیا ہے،جرگہ دو فریقین کے درمیان ہوتا ہے،یہ جرگہ صرف اور صرف اس فیملی پر دباؤ ڈالنے کے لئے ہے ، جب ہم نے خبر بریک کی،میڈیکل رپورٹ ہمارے پاس آئی،میں یہاں خود چل کر آیا متاثرہ بچی کی فیملی کا کہنا تھا کہ یہ سب ہوا ہے لیکن ہم نہیں بتا سکتے کیونکہ پولیس والے ہمیں تنگ کریں گے۔اسماء کی فیملی کا کہنا ہے کہ چوبیس گھنٹوں میں ہمیں اٹھارہ گھنٹے پولیس اسٹیشن میں گزارنے پڑتے ہیں۔جیو نیوز کے پروگرام ”لیکن“ میں اس سوال بچی کی لاش پر کیوں سیاست کی جارہی ہے،کے جواب میں ضلعی ناظم مردان حمایت اللہ کا کہنا ہے کہ یہ بہت افسوسناک ہے کہ چار سالہ بچی کو جنسی تشدد کا نشانہ بنا کر قتل کیا گیا،تیرہ جنوری کو غائب ہوئی اور 14 کو بچی کی لاش ملی،تیرہ جنوری کو رپورٹ نہیں کی،14 جنوری کولاش ملنے کے بعد اسپتال لایا گیا۔ اسپتال میں جو پولیس ہوتی ہے،پوسٹ مارٹم کی رپورٹ آنے کے بعد اسپتال میں موجود پولیس نے لوکل پولیس کو اطلاع دی اور پھر وہاں سے پولیس یہاں پہنچی۔ عمران خان نے جو دعویٰ کیا لاہورمیں کہ پولیس نے چوبیس گھنٹے میں لاش کو برآمد کر کے اتنا بڑا کام کیا ہے اور اُن کا کہنا ہے اسماء کا کیس زینب کے کیس سے الگ ہے،آپ خود اندا زہ لگا سکتے ہیں کہ ان دونوں کیس میں کتنی مماثلت ہے ۔کیس کے حوالے سے تمام حقائق سامنے لانا چاہیں جو متاثرہ خاندان ہے اُن کے ساتھ اظہار ہمدردی ہونی چاہیے۔ میں حقائق سامنے لانا چاہتا ہوں جس کی وجہ سے میری پولیس، آئی جی اور پی ٹی آئی تک سے اختلافات بڑھ گئے ہیں ۔ میں نے میڈیا کو بتایا پھر اے این پی کے پلیٹ فارم سے مظاہرہ بھی کیا جس میں سول سوسائٹی نے بھی بڑی تعداد میں شرکت کی۔اُس کے بعد پولیس اپنے کام میں تیزی لائی ۔ آخری وقت تک پولیس والوں کا کہناتھا کہ بچی کے ساتھ زیادتی نہیں ہوئی ہے،لوگوں کو دھوکہ دے رہے تھے۔ڈی این اے ٹیسٹ کی رپورٹ آگئی ہے،دو سو آٹھ افراد کے خون کے نمونہ لے گئے تھے لیکن ابھی تک وہ باچہ خان میڈیکل مردان میں پڑے ہوئے ہیں،لاہور نہیں بھیجے گئے ہیں۔پولیس تفتیش کے دوسرے ذرائع کو استعمال نہیں کر رہی۔ مقامی جرگہ بنایا ہوا ہے جس کے ذریعہ اسماء کی فیملی کو کنٹرول کیا ہوا ہے اور اُن کے گھر پر پہرا بھی بیٹھایا ہوا ہے۔قبل ازیں جیو نیوز کے پروگرام ”لیکن میں میزبان رابعہ انعم نے پروگرام کے ابتدائیہ میں کہا کہ قصور میں بیٹھ کر جو ہم خبریں پڑھ رہے ہیں جو کچھ ہو رہا ہے جو آپ تک رپورٹ پہنچا رہے ہیں وہ شاید اتنی تکلیف دہ نہیں ہے جتنا جب آپ اُس جگہ قدم رکھتے ہیں تو آپ کو تکلیف ہوتی ہے، آج میں موجود ہوں گجرگڑھی کے علاقے میں جہاں پر اسماء کے ساتھ جو واقعہ پیش آیا چار سالہ معصوم بچی جس کوزیادتی کے بعد قتل کیا گیا آج ہم اُن سے بات کریں گے۔ جو خیبرپختونخوا کی پولیس نے اور حکومت نے گفتگو کی ہے دعویٰ کئے ہیں وہ سب آپ کے سامنے رکھیں گے اور آپ کو بتا ئیں گے کہ اُس میں کیاحقیقت ہے اور کیا محض صرف باتیں ہیں اور دعویٰ ہیں اور کیا انہیں انصاف کی امید اب ہے یا نہیں۔خیبرپختونخوا کی حکومت کو یہ سوچنا ہوگا کہ اسماء کو انصاف دینا ہے یا نہیں دینا ۔اسماء کی فیملی کو پولیس دباؤ میں لے رہی ہے پولیس انہیں خود بتاتی ہے کہ ان سے ملنا ہے،ان سے نہیں ملنا ہے،مزدوری کرنے والے لوگ ہیں جو روز کماتے ہیں روز کھاتے ہیں وہ بھی اب نہیں کما پار ہے کیونکہ اُن کو گھر میں رکھا ہوا ہے،بچی کے جانے کے بعد سے ان کی تکالیف میں اضافہ ہوچکا ہے بجائے اُس شخص کو تلاش کرنے کے پولیس متاثرہ فیملی کے گھر کے باہر بیٹھی ہوئی ہے۔