راولپنڈی(اپنے رپورٹر سے)ضلع کچہری راولپنڈی میں واقع نقل برانچ رشوت کے حصول کیساتھ ساتھ کبائر حرکات کیلئے بھی استعمال ہورہا ہے۔جبکہ اراضی ریکارڈ روم محکمہ مال کے انچارج کے خلاف 32فوجداری مقدمات کے باوجود ملازمت کرنے کا انکشاف ہوا ہے۔ڈسٹرکٹ عدلیہ کی زیر نگرانی نقل برانچ کی نئی بلڈنگ مئی میں مکمل کرانے کی یقین دہانی کرائی گئی ہے۔جس کے بعد جوڈیشل مقدمات کی فائلیں سٹور کرنے کی گنجائش15لاکھ ہوجائے گی۔ذرائع کے مطابق نقل برانچ میں رشوت کے ساتھ شراب نوشی اور دیگر کبائر حرکات کی شکایات ،غیر متعلقہ افراد کے ریکارڈ تک رسائی، لوگوں کو مطلوبہ دستاویزات کے حصول میں مشکلات پرضلعی عدلیہ اور انتظامیہ کا مشترکہ اعلی سطح کا اجلاس ہوا۔اس موقع پر ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج سہیل ناصر اور ڈپٹی کمشنر راولپنڈی طلعت محمود گوندل نے ریکارڈ روم بارے بریفنگ دی۔اجلاس میں بتایا گیا کہ ریکارڈ روم کی منجمنٹ کا موجودہ سیٹ اپ اپریل2017سے چل رہا ہےجس کے دوران تقریبا تین لاکھ جوڈیشل فائلیں عدلیہ کی زیر نگرانی قائم ریکارڈ میں منتقل ہوچکی ہیں اور جگہ کی کمی کے باعث مزید منتقلی روک کر نئے ریکارڈ کی روم کی تعمیر کی جارہی ہے۔جو مئی تک مکمل کرنے کی ہرممکن کوشش کی جائے گی۔جس کے بعد 15فائلیں سٹور کی جاسکیں گی۔اس موقع پر جسٹس عبادالرحمن لودھی نے ہدایت کی کہ لاہور ہائی کورٹ راولپنڈی بنچ کے جسٹس عبادالرحمن لودھی نے نقل برانچ ضلع کچہری کا کنٹرول فوری طور پر ضلعی عدلیہ کو سنبھالنے اور ریکارڈ کو کمپیوٹرائزڈ کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہاسینئر سول جج ریکارڈ روم سپروائز کریں اور اپنے سٹاف کے زریعے کام نمٹائیں۔اگر افرادی قوت کی کمی ہے تو ایڈہاک بھرتی کرلیں۔جبکہ سٹاف کی مطلوبہ کام کیلئے تربیت کا بھی اہتمام کیا جائے۔غیر ضروری مقدمات کا محفوظ شدہ ریکارڈ تلف کیا جائے۔ریکارڈ کی مکمل منتقلی تک ریکارڈ کی حفاظت (بالخصوص آتشزدگی نہ ہونے پائے )انتظام ہونا چاہیے۔اگر کوئی قانونی مسئلہ ہو تو ہائی کورٹ کو رپورٹ اور سمری بھجوائی جائے لاہورہائی کورٹ اس پر حکم جاری کرے گی۔انہوں نے محکمہ مال کے ریکارڈ روم کے حوالے سے بھی ڈپٹی کمشنر راولپنڈی کو خصوصی ہدایات دیتے ہوئے کہا کہ نقل کیلئے آنے والوں کو وہاں تعینات عملہ تنگ کرکے رشوت پر مجبورکرتا ہے۔انچارج ریکارڈ روم کے خلاف 32فوجداری مقدمات کے باوجود اس کی تعیناتی کیوں برقرار ہے۔جبکہ اس کے رشتہ دار بھی ریکارڈ روم تک رسائی رکھتے ہیں۔جن کے پاس سرکاری مہریں تک موجود ہوتی ہیں۔جس پر ڈپٹی کمشنر راولپنڈی نے بتایا کہ اس کو معطل کردیا گیا ہے اور مزید کارروائی کی جارہی ہے۔واضح رہے کہ انتظامیہ اور جوڈیشری کے درمیان ریکارڈ روم کی منتقلی و بہتری کے حوالے سے کئی امور پرماضی میں بھی اتفاق رائے ہوچکاہے۔لیکن آج بھی سرکاری ریکارڈ روم(نقل برانچ) کی حالت زار بدل سکی ہے نہ اس کی موثر نگرانی کا انتظام ہوسکا ہے۔ذرائع کے مطابق یہ ریکارڈ روم1860سے قائم ہوا تھا۔تاہم عدلیہ اور انتظامیہ کی علیحدگی کے بعد ریکارڈ کا انتظام انتظامیہ کے پاس تھا۔جس سے مسائل جنم لے رہے تھے۔پہلے بھی لاہور ہائی کورٹ کے حکم پر ضلعی عدلیہ اور انتظامیہ نے ملکر ریکارڈ روم کی منتقلی کا فارمولا طے کیاگیا تھا۔لیکن مسائل حل نہیں ہورہے ہیں۔دوسری طرف پنجاب حکومت کیلئے اربوں روپے ریونیو وصولیاں کرنے والے محکمہ مال کا اراضی ریکارڈ روم بھی کسی بھوت بنگلہ سے کم نہیں۔جہاں برسوں قبل لگنے والی آگ کے زخم آج بھی پہلے روز کی طرح تازہ ہیں۔ اراضی ریکارڈ سنٹر جو آتشزدگی سے تباہ ہوچکا ہے اس کی سفیدی تک کی کوشش نہیں کی گئی۔عوام کی قیمتی اراضی کا ریکارڈ سلن زدہ فرش پر بکھرا پڑا ہوتا ہے۔لیکن کوئی اس پر توجہ نہیں دیتا ہے۔