نیا سن عیسوی کیا طلوع ہوا، پہلے ہی مہینے ادب، سیاست، صحافت، سائنس، موسیقی اور دوسرے شعبوں کے کئی تابناک سورج غروب ہو گئے۔ ان میں ایئرمارشل (ر) اصغر خان، ڈاکٹر اشفاق احمد، منو بھائی، ڈاکٹر حسن ظفر عارف، زبیدہ آپا، استاد نذر حسین، رسا چغتائی، ساقی فاروقی اور نثار احمد نثار جیسی شخصیات بھی تھیں جن کے تذکرے کے بغیرعصر حاضر کی قومی تاریخ ہمیشہ نامکمل رہے گی۔ بچھڑنے والوں میں سے نثار احمد نثار اگرچہ روزنامہ جنگ میں طویل عرصہ سے قومی، ملی، سیاسی اور سماجی موضوعات پر فکر انگیز کالم لکھنے کی وجہ سے ایک خاص مقام رکھتے تھے مگر ان کی اصل پہچان سیاست تھی۔ وہ ایک خاموش مگر سرگرم سیاسی کارکن تھے۔ وہ سہارنپور سے ہجرت کرکے راولپنڈی کو اپنا مستقل مسکن بنانے والے ایسے سفید پوش خانوادے سے تعلق رکھتے تھے جس کا تحریک آزادی میں قابل رشک کردار رہا۔ ان کے والد محترم برکت علی تحریک خلافت میں مولانا محمد علی جوہر کے سرگرم ساتھی اور تحریک پاکستان میں نوابزادہ لیاقت علی خان کے معتمد خاص تھے۔ بڑے بھائی ظہور احمد نے تحریک آزادی میں کئی مرتبہ قید و بند کی صعوبتیں جھیلیں۔ تایا زاد بھائی ولی محمد فوج میں تھے۔ اپنے ہم وطنوں پر گولی چلانے سے انکار پر انگریزوں کے غیظ وغضب کا نشانہ بنے اور بے دردی سے شہید کردیئے گئے۔ اس خانوادے کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ سہارنپور میں مولانا حسین احمد مدنی، سید عطا اللہ شاہ بخاری، خان عبدالغفار خان، مولانا حسرت موہانی، خان لیاقت علی خان، شیخ محمد عبداللہ، چوہدری خلیق الزماں، جنرل شاہنواز خان، جوش ملیح آبادی، حیات اللہ انصاری، لال بہادر شاستری، دیوان سنگھ مفتون، جگر مراد آبادی اور کئی دوسرے قومی رہنما، شاعر اور سیاستدان ان کے گھر آتے رہے۔ اس سے نثار احمد نثار کے خاندانی پس منظر کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ قیام پاکستان کے بعد نثار احمد نثار نے اپنی صلاحتیں مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے ملک قوم کی خدمت کے لئے وقف کردیں۔ وہ خان عبدالقیوم خان کے معتمد ساتھیوں میں شامل تھے۔ ایک عرصہ تک مسلم لیگ (قیوم) کے سیکرٹری اطلاعات رہے۔ ایوب خان کے مارشل لا دور میں پس زنداں بھی رہے۔ وہ خان قیوم کے اس 32میل لمبے جلوس میں شامل تھے جس کے نتیجے میں ایوب خان نے مارشل لا لگایا۔ نثار احمد نثار 1964میں مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کی زیر قیادت پشاور سے کراچی تک نکلنے والے متحدہ اپوزیشن کے جلوس اور جلسوں میں شریک اور محترمہ کے بہت قریب رہے۔ انہوں نے محترمہ کے بطور صدارتی امیدوار کاغذات نامزدگی پر تجویز کنندہ کی حیثیت سے دستخط کئے جس پر انہیں گرفتار کر کے شاہی قلعہ لاہور پہنچا دیا گیا۔ ان کا گھر سیاسی سرگرمیوں کا مرکز تھا۔ اکثر قومی لیڈر وہاں آتے رہتے اس لئے انہیں کئی بار قید و بند کا سامنا کرنا پڑا۔ 1965کی پاک بھارت جنگ میں چوہدری غلام عباس کے ساتھ انہیں وار ریلیف کمیٹی کا رکن بنایا گیا تاشقند معاہدے کے خلاف تحریک چلی تو اس میں بھی پیش پیش تھے اور گرفتار ہوئے، ضیا دور میں مجلس شوریٰ کی رکنیت پیش کی گئی جو انہوں نے مسترد کردی۔ محمدخان جونیجو اور غلام اسحاق خان سے بھی ان کے قریبی تعلقات تھے۔ 1987-90میں جب فدا محمد خان مسلم لیگ کے صدر اور نواز شریف سیکرٹری جنرل بنے تو نثار احمد نثار سیکرٹری اطلاعات بنائے گئے سیاسی سرگرمیوں کے علاوہ 1995سے روز نامہ جنگ میں کالم بھی لکھتے رہے یہ فرض دم واپسیں تک نبھایا ۔ ان کے اخباری کالموں کا مجموعہ ’’آئو سچ بولیں‘‘ 2016میں شائع ہوا۔ اس میں ان کے سو سے زائد کالم اور مضامین شامل ہیں جو ان کی حق گوئی کا بے مثال مظہر ہیں۔ وہ نہایت بے باکی سے سیاسی و سماجی مسائل کی نشاندہی کرتے اور ان کا حل تجویزکرتے جو ایک صاحب بصیرت ہی کر سکتا ہے۔ نثار ایک سیلف میڈ اور مجلسی آدمی تھے۔ مری روڈ پر ان کا کاروبار تھا جہاں بیشتر وقت ادیبوں، شاعروں اور سیاسی کارکنوں کا میلہ لگا رہتا۔ غریبوں اورحاجت مندوں کی مدد کا جذبہ انہیں وراثت میں ملا تھا جو انہوں نے اپنے بیٹوں سیاسی و سماجی شخصیت ڈاکٹر جمال ناصر، سیشن جج سہیل ناصر اور زبیر ناصر کو منتقل کیا۔ ذاتی زندگی میں وہ ایک خوش اخلاق، ملنسار اور مرنجاں مرنج انسان تھے۔ علم دوست اور اہل علم کے قدر دان تھے۔ 2002سے انہوں نے سیاست سے کنارہ کشی اختیار کر لی اور صرف کالم نویسی پر توجہ دینے لگے۔ 84سالہ زندگی کے آخری دنوں میں ان کے معمولات میں یہ تبدیلی آئی کہ وہ ٹی وی آن کر کے زیادہ تر بیت اللہ شریف اور مسجد نبویؐ کے مناظر دیکھتے رہتےیہ گویا سفر آخرت کی تیاری تھی۔ قرآن پاک انہوں نے مولانا حسین احمد مدنی سے پڑھا تھا جو اپنی جگہ خود ایک بڑا اعزاز ہے۔آخری ایام میں ضعیف العمری کے سوا انہیں کوئی بڑا عارضہ لاحق نہیں تھا۔ 16جنوری کو یعنی وفات سے ایک روز قبل انہوں نے اپنے بیٹے ڈاکٹر جمال ناصر سے کہا کہ مجھے عمرہ کی ادائیگی کے لئے لے چلو۔ شرط یہ ہے کہ پوتا علی بھی ساتھ ہو اور مکہ مکرمہ میں قیام بیت اللہ شریف کے قریب ترین ہوٹل میں ہو۔ ڈاکٹر صاحب نے حکم پر عمل کرنے کا وعدہ کیا۔ یہ اپنے بڑے بیٹے سے نثار صاحب کی آخری گفتگو تھی جس کے بعد وہ اپنے کمرے میں جا کر سو گئے۔ صبح دیر تک نہ اٹھے تو ڈاکٹر جمال ناصر ساڑھے 8بجے خود ان کے کمرے میں گئے۔ آواز دی، کوئی جواب نہ آیا۔ ہلایا جلایا تو پتہ چلا کہ وہ تو ابدی نیند سو چکے ہیں۔ اب کبھی نہیں جاگیں گے۔ یہ ایک ایسے شخص کی پرسکون موت تھی جس نے ایک بھرپور اور ہنگامہ خیز زندگی گزاری۔اللہ تعالیٰ ان کی قبر روشن اورا ن کے درجات بلند فرمائے۔ (آمین)