نقیب محسود کے ماورائے عدالت قتل کے خلا ف ملکی سطح پراحتجاج اب تک جاری ہے۔ ہونا بھی چاہئے۔ ایک خرابی تھی جو چلی جارہی تھی، عرصہء دراز سے۔ احتجاج ہوتا تھا، مگر محدود پیمانے پر۔ جن کے لوگ مارے جاتے وہ رو دھو کر چپ ہوجاتے۔پولیس کے ایک حلقے کی زیادتی پر کسی کی نظر جاتی ہی نہیں تھی۔ نام نہاد پولیس مقابلوں اور ماورائے عدالت قتل کے خلاف لکھنے والوں کی تعداد بھی کم ہی تھی۔ پولیس جو اعدادوشمار فراہم کرتی ، ذرائع ابلاغ کی اکثریت بغیر تحقیق کے شائع کردیتی۔ مارے جانے والوں پر جس طرح کے الزامات چاہتے پولیس والے لگا دیتے۔ دہشت گرد تھے، سنگین جرائم میں ملوث تھے، طالبان سے تعلق تھا، اور جو بھی منہ میں آیا کہہ دیا ۔ یہ کام کافی عرصہ سے ہو رہا تھا۔ نقیب محسود کے قتل نے شاید پہلی بار قوم کی توجہ اس طرف مبذول کروائی۔ اتنی بڑی سطح پر کبھی احتجاج نہیں ہوا۔ پہلے کراچی میں دھرنا دیا گیا، اور اب اسلام آباد میں عوام احتجاج کررہے ہیں۔ مطالبہ درست ہے کہ نقیب کے قاتل کو گرفتار کیا جائے۔ ایسا بھی کبھی نہیں ہوا کہ ان حرکات کا مرتکب پولیس افسر اس طرح فرار ہو گیا ہو کہ ڈھونڈے سے نہیں مل رہا۔ اسے زمین نگل گئی یا آسمان کھا گیا۔ سندھ پولیس کو سپریم کورٹ کی جانب سے دی گئی دوسری مدت بھی ایک آدھ دن میں ختم ہونے والی ہے۔
مگر ایک پہلو نظر انداز ہو رہا ہے ۔ نقیب محسود کا قتل کسی پٹھان کا قتل نہیں تھا۔ کراچی میں پولیس نے سرکاری سرپرستی میں ایک مذموم طریقہ اپنا لیا تھا۔ لوگوں کو پکڑا جائے، اور بعد میں ایک نام نہاد پولیس مقابلہ میں ہلاک کردیا جائے۔ اس میں سب ہی نشانہ بنے۔ شہر کے مختلف حصوں سے لوگ اُٹھائے جاتے اور ہلاک کردیئے جاتے۔ اٹھائے جانے والوں کے لواحقین نے پولیس میں رپورٹ بھی درج کروائی اور عدالتوں میں درخواستیں بھی دیں۔ ایسے سینکڑوں معاملات ہیں۔ ان میں سب ہی نشانہ بنائے گئے، اردو بولنے والے بھی، سندھی بھی، پٹھان بھی، بلوچ بھی۔ کسی طبقہ کو بخشا نہیں گیا۔ پیپلز پارٹی کے لیڈروں کا یہ کہنا کہ ان کے دور میں ماورائے عدالت قتل نہیں ہوئے، حقائق کے بالکل منافی بات ہے۔ پولیس کا اپنا ریکارڈ گواہ ہے کہ کتنے بڑے پیمانے پر گزشتہ چند برسوں میں یہ نام نہاد پولیس مقابلے کئے گئے ، لوگوں کو کسی دہشت گرد تنظیم کا کارکن کہہ کر ہلاک کردیا گیا۔ ان میں سب تھے۔ صرف موقع تلاش کیا گیا اور جو ہاتھ آیا اسے ہلاک کردیا گیا۔ ان نام نہاد پولیس مقابلوں کی خبریں بھی شائع ہوتی رہیں۔سب نے دیکھی ہوں گی، کسی نے ان کے خلاف کوئی بات کبھی کی نہیں۔رائو انوار اور اس کے چیلے چانٹے شہر بھر میں جہاں چاہتے جس کو چاہتے ہلاک کردیتے۔ حکومت ان کی سرپرست تھی۔ آج اگر، بظاہر وہ اس کے ساتھ نہیں ہیں تو اس کی وجہ عوامی احتجاج ہے، اور پولس کے خلاف غم و غصہ۔ یہ جو سندھ حکومت کے وزیر داخلہ ہیں، یا وزیر اعلیٰ، اور دوسرے اعلیٰ حکام، ان میں سے کسی کو ماضی میں، اور یہ ماضی قریب کی بات ہے، کبھی کچھ نظر نہیں آیا؟
نقیب کی ہلاکت کے بعد اس معاملے کے صرف ایک پہلو پر توجہ دی جارہی ہے۔ اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ افسوسناک واقعہ کسی پٹھان کے ساتھ پیش نہیں آیا۔ ایک پاکستانی اس ظلم کا نشانہ بنا، جس طرح اس حسین ، معصوم نوجوان سے پہلے بہت سے معصوم بے گناہ نوجوان پولیس گردی کا نشانہ بنتے رہے۔ یہ کہنا کہ کراچی میں پٹھانوں کو نشانہ بنایا گیا، بہت سے بے گناہوں کے معاملے کی اہمیت کم کرنے کے مترادف ہے۔ اس معاملہ کو لسانی رنگ دینے کی کوشش کرنا ایک طرف توان واقعات کے ذمہ دار پولیس والوں کی بہیمانہ حرکات کی شدت کو کم کرنے کا باعث بن سکتا ہے اور دوسری طرف اس سے شہر کے حالات خراب کرنے والوں کے مکروہ عزائم کامیاب ہو سکتے ہیں۔ جن دنوں کراچی میں دھرنا تھا، تقریروں میں لسانیت ابھر آئی تھی۔ خدا بھلا کرے بعض قوتوں کا کہ ان کی مداخلت کام آگئی، ورنہ شہر کے حالات خراب ہو سکتے تھے۔ دھرنے کے دوران کچھ لوگوں نے اس طرح کی باتیں کیں جیسے پولیس مقابلے صرف پٹھانوں کے خلاف ہوئے تھے۔ اب بھی اسلا م آبادمیں پشتون رہنما نقیب کے قتل کی مذمت کرنے وہاں کے دھرنے میں آتے ہیں۔ مذمت ہونی چاہئے۔ مگر یہ بھی تو ان رہنمائوں کی ذمہ داری ہے کہ اس طرح کے ماورائے عدالت قتل جہاں کہیں بھی ہوں ، جب بھی ہوں ان کی مذمت کریں۔ جو لوگ مارے گئے، سب ہی پاکستان کے شہری تھے۔ اگر ان کو پولیس نے مقدمہ چلائے بغیر قتل کردیاتو کیا ان رہنمائوں کا فرض نہیں بنتا تھا کہ اس کے خلاف آواز اٹھاتے۔ کیا انہیں ان مسلسل ہونے والے واقعات کا علم نہیں ہوا تھا؟ یہ ممکن نہیں ہے۔ اور یہی اس سارے معاملے کا افسوسناک پہلو ہے۔ اگر مظلوموں کو بھی نسلی بنیاد پر تقسیم کیا جائے گا اور مذمت یہ دیکھ کر کی جائے گی کہ مرنے والے کا تعلق ملک کے کس علاقے سے ہے، تو معاف کیجئے گا، یہ اسلامی اور سماجی انصاف کے معیار پر پورا نہیں اترے گا۔ان رہنمائوں میں سے کتنے ایسے ہیں جنہوں نے ماضی قریب میں ہونے والے نام نہاد پولیس مقابلوں میں ہلاک کئے جانے والوں کے لواحقین سے تعزیت کی؟ کسی کو توفیق نہیں ہوئی۔ اب بھی نہیں ہوتی اگر نقیب کا معاملہ سوشل میڈیا پر نہ اٹھایا جاتا۔ یہ اس ملک کے رہنما ہیں۔ ان کے دعوے دیکھیں تو لگتا ہے معاملات اگر ان کے ہاتھوں میں آگئے تو سب ٹھیک ہو جائے گا۔ ان کا عمل دیکھیں تو ان کی بات پر یقین کرنے کو جی نہیں چاہتا۔ یہ تو مظلوموں میں بھی نسلی اور لسانی تقسیم کرتے ہیں۔ ان میں وہ بھی ہیں جو اسلام کا نام لیتے ہیں۔ وہ بھی جو سرخ انقلاب کی بات کرتے ہیںاور وہ بھی جن کا نعرہ نیا پاکستان ہے۔ کسی نے بھی کبھی ماضی میں ہونے والی ان حرکات پر آواز نہیں اٹھائی۔ اور اب بھی جب وہ آواز اٹھارہے ہیں تو اس کااثر محدود ہوتا جارہا ہے۔ وہ پورے ملک کے مظلوموں کی آواز نہیں بن رہے۔ خود انہوں نے اپنے لئے ایک تنگنائے پسند کی ہے۔ اگر وہ غور کرتے، تھوڑا سا بھی تدبر ہو تا تو وہ اس موقع کو ملک کے وسیع تر مفاد کے لئے استعمال کرتے۔ مقدمہ چلائے بغیر ملک کے کسی بھی حصہ میں کوئی مارا جائے ، ایک بڑا جرم ہے ، بڑاگناہ ہے۔ یہ سب جگہ ختم ہونا چاہئے۔ پنجاب ہو یا سندھ، خیبر پختونخوا ہو یا بلوچستان، سب جگہ آئین پاکستان کی حکمرانی ہے۔یہ آئین ہر شہری کی جان و مال کے تحفظ کی یقین دہانی کراتا ہے۔ جہاں کہیں اس کی خلاف ورزی ہو، ساری قوم بیک زبان اس کے خلاف آواز اٹھائے۔ یہ رہنما اگر اس پر غور کر لیں تو ان کے حق میں بھی بہتر ہوگا اور اس ملک کے حق میں بھی۔
خوگر حمد تھوڑا سا گلہ بھی کرنا چاہتا ہے۔ اس ملک کی اعلیٰ ترین عدلیہ نے نقیب کے قتل کا نوٹس لیا۔ متعلقہ پولیس افسر کی گرفتاری کا حکم بھی دیا۔ اس عدالت نے، اور جو دوسری عدالتیں ہیں، جہاں لوگ دادرسی کے لئے جاتے ہیں، کسی نے بھی اس سے پہلے ہونے والی کتنی ہلاکتوں کا نوٹس لیا؟ کوئی واضح اعدا د وشمار سامنے نہیں آئے۔ یہ عدالتیں اگر پہلے تھوڑی سی توجہ دیتیں، ماورائے عدالت قتل میں ملوث افسران کے خلاف کارروائی کرتیں تو نقیب کی والدہ سمیت بہت سی مائوں کی گودیں نہ اجڑتیں، بہت سے بچے یتیم نہ ہوتے۔ ایک درخواست بھی اعلیٰ عدلیہ سے ہے۔ ماضی میں، اگر بہت دور نہیں تو گذشتہ دو تین برس کے عرصے میں ہونے والے پولیس مقابلوں میں مارے گئے لوگوں کے اعداد و شمار جمع کئے جانے کا پولس کو حکم کو دیں، اور ان اعلیٰ افسران کے خلاف بھی کارروائی کریں جن کی موجودگی میں ماورائے عدالت قتل ہوئے اور انہوں نے ان غیر ذمہ دار افسروں کے خلاف کارروائی نہیں کی۔ ان جرائم سے اغماض برتنے والے اعلیٰ افسران بھی اتنے ہی ذمہ دار ہیں، جتنے جرم کرنے والے افسران۔