ٹیکسلا (ایجنسیاں)مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنما و سابق وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے کہا ہے کہ نواز شریف اورشہبازشریف کے ماتحت کام کر سکتا ہوںمگرمریم نوازکے ماتحت نہیں‘ اتنا سیاسی یتیم نہیںکہ مریم نواز یا کسی جونیئر کوسر یا میڈم کہوں،پرویز رشید 90ءکی دہائی میں (ن)لیگ میں آیااور مجھے پارٹی سے نکلوانے کی باتیں کر رہا ہے‘نیوز لیکس کے معاملے پر راؤ تحسین اور طارق فاطمی کا ذکر میری رپورٹ میں کہیں نہیں نہ ہی پرویز رشید کو میں نے نکلوایا، ڈان لیکس انکوائری رپورٹ کا معاملہ پارٹی کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی میں زیر بحث لایا جائے ‘پارٹی نے فیصلہ نہ کیاتومیں خود رپورٹ کو عام کردوں گا‘ میں نے کبھی یہ نہیں کہا کہ نواز شریف نا اہلی کا فیصلہ لے کر گھر بیٹھ جائیں تاہم ججز پر ذاتی حملے کرنے سے مسئلہ گھمبیر ہو جاتا ہے‘نواز شریف اپنا موقف ضرور بیان کریں لیکن اداروں کے خلاف بیان بازی نہ کریں کیونکہ انکے خلاف کیس کا فیصلہ بالآخر عدلیہ نے کرنا ہے‘جمہوریت کے پیروکار کہلوانے والے پہلے اپنی پارٹی میں جمہوریت لائیں‘ سیاسی جماعتوں میں جمہوریت کا فقدان ہے‘کچھ معلوم نہیں کہ (ن) لیگ کا بیانیہ کیا ہے؟ اداروں سے لڑائی چلتی رہی تو لوگ ہمیں ووٹ نہیں دیں گے ، آئندہ وزیراعظم (ن)لیگ کا ہوگا یا کسی اور جماعت کایہ فیصلہ بعد میں ہو گا‘ن لیگ میں دھڑے بندی نہیں ‘کوئی یہ سوچ بھی نہ رکھے کہ کسی فارورڈ بلاک کا حصہ بنوں گا ۔وہ ہفتہ کو یہاں کوہستان ہاؤس ٹیکسلا میں پریس کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے۔ چوہدری نثار علی خان نے کہا کہ میں چند ماہ سے دیکھتا ہوں پر کم بولتا ہوں‘مجھے اپنے متعلق پارٹی فیصلے کا انتظار ہے، پارٹی کے اندر اور باہر خود کو متحرک رکھوں گا ‘ پچھلے 7ماہ سے کچھ معاملات پر میں دل گرفتہ ہوا، میں نے نواز شریف کے بطور وزیراعظم دور میں ان کو کچھ مشورے دیئے کہ پارٹی معاملات کو کیسے بہتر بنایا جائے ‘ میں نے پاناما معاملے پر کچھ تجاویز دیں‘ سپریم کورٹ کے بارے میں میرا یہ کہنا کہ ہم ان سے لڑائی نہیں چاہتے یہ میرا اکیلے کا کہنا نہیں تھا بلکہ شاہد خاقان عباسی کا بھی یہی موقف ہے‘ کبھی پارٹی ڈسپلن کی خلاف ورزی نہیں کی لیکن منافقت کی سیاست بھی نہیں کرسکتا‘پارٹی کو چلانے کے حوالے سے میرے کچھ خدشات اور تحفظات ہیں۔ چوہدری نثار نے کہا کہ نواز شریف نے میرے مشوروں پر توجہ نہیں دی، میں نے بہت سی چیزوں کو برداشت کیا اور دلبرداشتہ ہوکرخودکوسائیڈ پررکھنے کا فیصلہ کیا۔وزیر اعظم پر ایل این جی الزام کے حوالے سے انکا کہنا تھا کہ یہ محض سیاسی مخالفین کا شوشا ہے اسے کسی صورت بھی سنجیدہ نہیں لینا چاہئے‘ میں نے کب نواز شریف اور مریم نواز پر تنقید کی، میں بچوں کے نیچے تو سیاست نہیں کر سکتا‘نواز شریف اور شہباز شریف کے ماتحت کام کر سکتا ہوںمگرمریم نوازکے ماتحت نہیں کر سکتا‘میں نے میاں نواز شریف کو خط لکھا کہ پارٹی کے معاملات پارٹی میں حل کئے جائیں اور کمیٹی کا اجلاس بلائیں تا کہ میں اپنا موقف پیش کر سکوں، ایک شخصیت جو 1990کی دہائی میں پارٹی میں آئی۔ انہوں نے کہا کہ اگر یہ معاملات پارٹی میں حل ہوتے ہیں تو اچھی بات ہے اگر ایسا نہیں ہوتا تو میں معاملات عوام کے سامنے لاؤں گا‘ایک ڈان لیکس کا معاملہ ہے، ان شخصیت کا کہنا ہے کہ میں نے ان کو ڈان لیکس پر نکلوایا، میرا سوال ہے کہ سوا سال بعد ڈان لیکس پر جواب کیوں آیا‘اگر پارٹی ڈان لیکس پر وضاحت نہیں دیتی تو اس معاملے کی عوامی لیول پر تشہیر کا آپشن میرے پاس ہے، الیکشن نہ لڑنے والا سیاستدان نہیں ہو سکتا، وہ خوشامدی ، ٹیکنوکریٹ ہو سکتا ہے‘ ٹکٹ کا فیصلہ پارلیمانی بورڈ کرتا ہے‘سابق وزیر داخلہ نے کہا کہ میں میاں نواز شریف اور وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کے حوالے سے بات نہیں کرتا‘معاملات پارٹی میں حل ہوتے ہیں، میں اب پارٹی کے باہر بھی سیاسی طور پر متحرک ہوں گا‘پاکستانی معاشرہ تنزلی کا شکار ہے، گالم گلوچ معمول بن گیا ہے، میڈیا بھی اس کا ذمہ دار ہے‘میڈیا میں ریٹنگ کےلئے گالی گلوچ اور برا بھلا کہنا وطیرہ بن گیا ہے‘ میڈیا کا کام فیصلے صادر کرنا نہیں، آج میڈیا تقسیم ہو چکا ہے‘ہم سیاستدان دوسروں کو چور اور خود کو صادق و امین قرار دیتے ہیں‘ سیاسی جماعتوں میں جمہوریت قانون کا احترام اور ووٹ کا تقدس پہلے ہونا چاہیے۔ میڈیا کے ذریعے اداروں پر حملے ہو رہے ہیں، مشکلات کا حل صرف اور صرف مشاورت ہے۔پریس کانفرنس کے دوران متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے تنظیمی بحران کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے چوہدری نثار نے کہا کہ ʼایم کیو ایم ایک سیاسی جماعت ہے، کسی جماعت میں اس طرح کی توڑ پھوڑ سے تشویش ہوتی ہے اور امید ہے کہ ایم کیو ایم معاملات خود حل کرلے گی۔