اسلام آباد :… قومی احتساب بیورو اور اس کے سربراہ کے لئے حقیقی آزمائش کا وقت آگیا ہے۔ احتساب بیورو جوروزانہ سیاست دانوں سے زور آزمائی کرتا رہا ہے اب اسلام آباد ہائی کورٹ کی تازہ ہدایت پر بیورو کو جنرل (ر) پرویز مشرف کے خلاف کارروائی آگے بڑھانے کے لئے کہا ہے۔ اس سے قبل یہ نوگو ایریا تصور ہوتا تھا۔ اسلام آباد ہائی کورٹ نے گزشتہ جمعہ کو پرویز مشرف کے خلاف دوران صدارت مبینہ کرپشن پر کارروائی آگے بڑھانے کی ہدایت کی تھی۔ یہ ہدایت جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس میاں گل اورنگزیب پر مشتمل اسلام آباد ہائی کورٹ کی ڈویژن بنچ نے دی تھی۔ اس طرح نیب اور اس کے سربراہ کو حقیقی آزمائش میں ڈال دیا گیا ہے۔ پرویز مشرف کو نظرانداز کرنے پر سپریم کورٹ پہلے ہی نیب کو تنبیہ کرچکی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ نیب اور اس کے سربراہ اسلام آباد ہائی کورٹ کی ہدایت پر عمل کرتے ہیں یا اسے چیلنج کیا جاتاہے۔ کیونکہ گزشتہ برسوں سے انٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ نے پرویز مشرف کے خلاف کارروائی میں تذبذب کا مظاہرہ کیا ہے۔ صرف حال ہی میں پرویز مشرف کا نام لئے بغیر سپریم کورٹ نے حدیبیہ پیپرز ملز کیس میں نیب کو خود اپنا قانون یاد دلایا کہ بیورو کی تحقیقات میں رکاوٹ والے کے لئے دس سال قید کی سزا ہے۔ اس بات پر افسوس ظاہر کیا گیا کہ جنہوں نے شریف برادران کو جلاوطن کرکے نیب تحقیقات کو خطرے میں ڈالا، ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔ یہ قابل سزا جرم ہے جس کے تحت 10سال قید بامشقت کی سزا دی جاسکتی ہے۔ جن لوگوں نے مدعا علیہان نمبر ایک اور دو نوازو شہباز شریف کو جلا وطن کیا تھا، سمجھا جاتا ہے کہ انہوں نے قانونی عمل میں رکاوٹ ڈالی، ناکام بنایا اور اس پر سمجھوتا کیا۔ یہ بات حدیبیہ کیس میں سپریم کورٹ کے تفصیلی فیصلے میں کہی گئی۔ تاہم نیب نے ان کے خلاف استغاثہ کے تحت کوئی کارروائی نہیں کی اور اس جانب سے اپنی آنکھیں بندکئے رکھیں اور اپنا سیاست دانوں کا شکار جاری رکھا۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ نیب کے نہ صرف سابق سربراہان اور نہ ہی موجودہ چیئرمین جسٹس (ر) جاوید اقبال نے پرویز مشرف کے خلاف کسی بھی معاملے میں کوئی کارروائی نہیں کی۔ چند ماہ قبل اس نمائندے نے پرویز مشرف کے خلاف شکایات کے بارے میں مخصوص سوالات کے ساتھ نیب سے رابطہ کیا۔ یہ کہا گیا کہ پرویز مشرف کے خلاف شکایات پر کوئی کارروائی شروع نہیں کی جاسکی کیونکہ نیب کے لیگل ونگ کے خیال میں اس کے قوانین قانونی اور آئینی رکاوٹوں کے باعث پرویز مشرف کا احاطہ نہیں کرتے۔ یہ بھی کہا گیا کہ نیب نے ماضی میں دو وجوہ سے پرویز مشرف کے خلاف تمام شکایات کو ختم کیا۔ (1)اول انہوں نے آرمی چیف کی حیثیت سے جو کچھ کیا، جس میں فوجی اراضی کی سیاست دانوں سمیت سویلینز کو تقسیم شامل ہے۔ نیب قانون کے تحت بیورو اس لئے کارروائی نہیں کرسکتا کیونکہ کرپشن یا فوجی و عدالتی اختیار کے غلط استعمال پر کارروائی اس کے تحت نہیں آتی۔ (2) دوسرے صدر پاکستان کی حیثیت سے پرویز مشرف نے جو کچھ کیا، آئین کے آرٹیکل 248کے تحت انہیں صدارتی استثنیٰ حاصل رہا۔ گو کہ نیب قانون کی تعریف کے تحت ’’عوامی عہد ےکے حامل‘‘ صدر کا دفتر بھی شامل ہے۔ بیورو کے سرکاری ذرائع کا کہنا ہے کہ نیب کے قانونی ماہرین پرویز مشرف کے خلاف شکایات پر کارروائی یا تحقیقات کو روکنے کے لئے مذکورہ آئینی آرٹیکل کا حوالہ دے رہے ہیں۔نیب کی پرویز مشرف کے خلاف کارروائی سے ہچکچاہٹ اس وقت واضح ہوگئی جب حدیبیہ کیس میں نیب کو عدالت عظیٰ کے انتباہ کے باوجود وہ سابق آمر کے خلاف کارروائی نہیں کررہا۔ اب اسلام آباد ہائی کورٹ نے بیورو کو واضح ہدایت دے دی ہے کہ وہ مبینہ کرپشن پر پرویز مشرف کے خلاف جب وہ صدر پاکستان تھے، ان کے خلاف کارروائی کی جائے۔دی نیوز 2012میں ہی سابق فوجی آمر کے ارب پتی ہونے کا انکشاف کرچکا تھا۔8جنوری، 2012کو دی نیوز میں شائع ہونے والی رپورٹ میںبتایا گیا تھا کہ پرویز مشرف اچانک ہی ارب پتی بن گئے تھے ، جب کہ وہ جب12اکتوبر ، 1999میں مارشل لاءلگا کر ملک کے چیف ایگزیکٹیو بنے تھے تو ان کے اکائونٹ میں شاید ہی کوئی پیسہ موجود تھااور اپنے اثاثے عوامی سطح پر ظاہر کیے تھے۔اس وقت ان کے پاس مختلف شہروں میں چند پلاٹس ہی تھے۔دی نیوز رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ اس بات کی کوئی نشاندہی نہیں کی گئی ہے کہ انہیں فنڈز کس نے فراہم کیے تھے اور وہ کیسے اتنے امیر ہوگئے تھے ، تاہم ریٹائرڈ جنرل نے اس کے باوجود آف شور اکائونٹس میں اربوں جمع کرلیے تھے ، اس کے علاوہ وہ بیرون ممالک اور پاکستان میں بھی پہلے ہی جائدادیں خرد چکے تھے۔دی نیوز نے سابق ڈکٹیٹر کے قریبی ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا تھا کہ پرویز مشرف کے دبئی اور لندن میں کم از کم 7سے10آف شور اکائونٹس تھے جس میں ڈالرز ، پائونڈ اسٹرلنگ اور درہم کی صورت بڑی رقم موجود تھی ، اپنی سرگزشت ’’ان دا لائن آف فائر‘‘مشرف نے اس بات کا اقرار کیا ہے کہ ان کا تعلق ایک عاجزانہ گھرانے سے ہے ، جس کے پاس پیسوں کی فراوانی نہیں تھی، تاہم اب وہ صرف اپنےپاکستان میں موجود ذاتی اسٹاف کو کم از کم 5لاکھ روپے تنخوا ہ ادا کررہے ہیں۔8جنوری، 2012کو دی نیوز نے رپورٹ دی تھی کہ غیر ملکی بینک اکائونٹس کے علاوہ پرویز مشرف نے بیرون ملک میں بھی بڑی سرمایہ کاری کررکھی ہے تاکہ بڑا منافع حاصل کرسکیں۔ذرائع کا کہنا تھا کہ صرف دبئی کی آن لائن ٹیڈنگ سروس ، ایم ایم اے میں ہی پرویز مشرف 16لاکھ امریکی ڈالرز(14کروڑ50لاکھ روپے)گزشتہ سال تک لگا چکے تھے۔کمپنی ذرائع کے مطابق، پرویز مشرف کااکائونٹ نمبر AV77777تھا۔یونین نیشنل بینک، جو کہ ابو ظبی کا انویسٹمنٹ بینگ ہے۔اس میں پرویز مشرف اور ان کی زوجہ صہبا مشرف کا مشترکہ اکائونٹ نمبر 4002000304تھا، جس میں گزشتہ برس تک تقریباً1کروڑ70لاکھ اماراتی درہم (تقریبا39کروڑ10لاکھ روپے)تھے۔اسی بینک میں پرویز مشرف اور ان کی زوجہ کا ایک اور مشترکہ اکائونٹ نمبر400200315تھا، جو کہ ڈالر اکائونٹ تھا۔اسی اکائونٹ میں گزشتہ برس تک 5لاکھ35ہزار325امریکی ڈالرز (تقریباً4کروڑ80لاکھ روپے)تھے۔ایک اور اماراتی درہم اکائونٹ میں ، اسی بینک کے اندر پرویز مشرف اور صہبا مشرف کے تقریبا76لاکھ اماراتی درہم(17کروڑ40لاکھ روپے)گزشتہ برس تک تھے۔جب کہ اکائونٹ نمبر4003006700ہے۔یونین نیشنل بینک کے چوتھے اکائونٹ کا نمبر، 4003006711 ہے ، جب کہ پرویز مشرف اور ان کی زوجہ کے اس اکائونٹ میں 80لاکھ درہم(18کروڑ40لاکھ روپے) تھے ۔یونین نیشنل بینک کے پانچویں بینک اکائونٹ کا نمبر 4003006722 ہے، جس میں مشرف اور ان کی زوجہ کے 80لاکھ امریکی ڈالرز (72کروڑ80لاکھ روپے)تھے۔چھٹے اکائونٹ نمبر 4003006733پرویز مشرف اور ان کی زوجہ کے 80لاکھ درہم (18کروڑ40لاکھ روپے)گزشتہ برس تک تھے۔یونین نیشنل بینک کا ساتواں اکائونٹ نمبر 4003006744تھا، جس میں اس جوڑی کے 80لاکھ درہم (18کروڑ40لاکھ روپے)تھے۔اسی بینک کے آٹھویں اکائونٹ میں پرویز مشرف اور ان کی زوجہ کے 13لاکھ امریکی ڈالرز(11کروڑ80لاکھ روپے)تھے۔نواز شریف حکومت کے خلاف بغاوت کے بعدفوجی آمر بننے کے ابتدائی چند ماہ کے دوران ، جنرل مشرف نے اپنی دولت عوامی سطح پر ظاہر کردی تھی ، جس میں شاید ہی کوئی رقم شامل تھی ، بلکہ صرف ملک کے مختلف حصوں میں کچھ پلاٹس کا ذکر تھا۔مشرف کا دعویٰ تھا کہ وہ پاکستان کے مسٹر کلین تھے تو اہم سوال یہ ہے کہ وہ ارب پتی کیسے بنے؟