کراچی (ٹی وی رپورٹ)جیوکے پروگرام ’’آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ‘‘ میں میزبان نے تجزیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ نواز شریف کی مہم کیا کامیاب ہوتی دکھائی دے رہی ہے، جو کچھ لودھراں میںہوا کیا وہ 2018ء کے عام انتخابات کی طرف اشارہ کررہا ہے کہ وہاں کیا ہوگا، نااہلی کے بعد جو بیانیہ نواز شریف نے دیا لودھراں کے انتخابی نتائج سے تو یہ لگ رہا ہے کہ وہ عوام میں مقبول ہورہا ہے، نواز شریف کامیابی کے ساتھ خود کو مظلوم ثابت کررہے ہیں، نااہل ہوگئے ہیں، نیب میں مقدمات چل رہے ہیں مگر اس کے ساتھ ہی جو بیانیہ دے رہے تھے کیا لودھراں کے انتخابات اس بات کے عکاس ہیں کہ عوام اس بیانیے کو مان رہی ہے، نواز شریف کی نااہلی کیا عمران خان کو مہنگی پڑرہی ہے، انتخابی نتائج تو کم ازکم یہی کہہ رہے ہیں، اگر یہی صورتحال رہی تو کیا آئندہ انتخابات میں نواز شریف بڑی کامیابی حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے اور کیا عمران خان کیلئے یہ زیادہ بہتر ہوتا کہ نواز شریف وزیراعظم رہتے، پانچ سال پورے کرتے، بہت سارے وعدے پورے نہ کرپاتے اور گونواز گو کا جو نعرہ عمران خان کے پاس ساڑھے چار سال رہا عمران خان اسی پر اگلا الیکشن لڑتےاب جبکہ ساڑھے چار سال بعد وہ نعرہ نہیں ہے تو نواز شریف حکومت میں بھی ہیں اور اپوزیشن میں ہوتے ہوئے اپنے ساتھ ہونے والی زیادتی کا نعرہ لگارہے ہیں مگر عمران خان گونواز گو کے نعرے کے بعد کچھ نیا نہیں دکھاپارہے ہیں۔ شاہزیب خانزادہ نے کہا کہ لودھراں میں این اے 154کا ضمنی انتخاب کئی حوالوں سے اہم رہا، یہ انتخاب عام انتخابات سے چند ماہ پہلے ہوا ہے اس لئے اس کے نتائج کسی نہ کسی صورت عام انتخابات کی عکاسی ضرور کرسکتے ہیں، دوسرا یہ نشست سپریم کورٹ سے جہانگیر ترین کے نااہل کے بعد خالی ہوئی، دو سال پہلے ہی اس نشست پر ہونے والے ضمنی انتخاب میں جہانگیر ترین نے ن لیگ کے امیدوار صدیق بلوچ کو تقریباً چھتیس ہزار ووٹ سے شکست دی تھی، این اے 120میں نواز شریف نااہل ہوگئے اور وہاں سے کلثوم نواز جیت گئیں، این اے 154 سے جہانگیر ترین نااہل ہوئے لیکن یہاں سے ن لیگ کا امیدوار جیت گیا، جہانگیر ترین کی نااہلی کے بعد پی ٹی آئی نے علی ترین کو میدان میں اتارا اور عمران خان اسے بہترین امیدوار قرار دیتے رہے، ان پر تنقید ہوئی، موروثی سیاست کا الزام لگا مگر عمران خان اس فیصلے کا دفاع کرتے رہے، عمران خان نے الیکشن کمیشن کے نوٹس کے باوجود لودھراں جاکر خطاب کیا، جہانگیر ترین سمیت اہم پارٹی رہنما مہم چلاتے رہے اس کے باوجود ن لیگ کے سید محمد اقبال ایک لاکھ تیرہ ہزار سے زائد ووٹ لے کر کامیاب ہوگئے حالانکہ ن لیگ کا کوئی بڑا رہنما ان کیلئے انتخابی مہم چلانے نہیں گیا، ن لیگ اس کامیابی پر خوش ہے اور اسے نااہلی کے خلاف عوامی فیصلہ قرار دے رہی ہے۔ سربراہ عوامی مسلم لیگ شیخ رشید نے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ نواز شریف کو سزا ہولینے دیں پھر فیصلہ کریں گے کیا ہونے جارہا ہے،ن لیگ کو 2018ء کے انتخابات میں جیتتا ہوا نہیں دیکھ رہا ہوں۔ پروگرام میں ایم کیو ایم کے رہنما بیرسٹر فروغ نسیم نےبھی اظہار خیال کیا۔ شاہزیب خانزادہ نے مزید کہا کہ ن لیگ کیلئے آئندہ انتخابات کی رکاوٹیں ایک ایک کر کے دور ہورہی ہیں، انتخابات سے پہلے عموماً جو فضا اپوزیشن کے حق میں ہوتی ہے وہ اس وقت حکومت کے حق میں دکھائی دے رہی ہے، نواز شریف کی جماعت مرکز اور پنجاب میں حکومت میں ہے مگر اپوزیشن میں بھی ہے، نواز شریف کی نااہلی نے ن لیگ کو دونوں طرح کی سیاست کرنے کا موقع فراہم کردیا ہے، انتخابات سے پہلے کوئی بڑی عوامی تحریک یا احتجاج ہوتا نظر نہیں آرہا ہے، اس سے قبل خدشات ظاہر کیے جارہے تھے کہ حکومت کیلئے سینیٹ انتخابات کرانا مشکل ہوجائے گا ، جنوری میں ہی حکومت ہار مان لے گی لیکن ایسا نہیں ہوا، سانحہ ماڈل ٹائون پر جسٹس باقر نجفی رپورٹ سامنے آنے کے بعد اٹھنے والا سیاسی طوفان بھی تھم گیا ہے، ختم نبوت کے معاملہ پر استعفوں کی تحریک بھی شہباز شریف کی ایک ملاقات کے بعد ٹھنڈی ہوگئی، نہ صرف احتجاج رک گیا بلکہ احتجاجی تحریک کے سربراہ پیر حمید الدین سیالوی کے بھتیجے نظام الدین سیالوی نے واضح کیا کہ بعض خفیہ طاقتوں نے ان کے احتجاج کو ہائی جیک کرنے کی کوشش کی، اس اعتراف کے بعد یہ معاملہ بھی فی الوقت پہلے جیسا خطرناک نہیں رہاہے۔شاہزیب خانزادہ نے تجزیے میں مزید کہا کہ پیر کو ہمارے پروگرام میں فاروق ستار نے دعویٰ کیا کہ فروغ نسیم نے کہا ہے کہ اصل لیڈر فاروق ستار نہیں پرویز مشرف ہیں، آج اس پر فروغ نسیم کا جواب سامنے آیا جس میں انہوں نے واضح کیا کہ پرویز مشرف سے بھائیوں جیسا تعلق ہے، پرویز مشرف اچھے انسان ہیں لیکن ان کے سیاسی لیڈر نہیں ہیں، اس حوالے سے باتیں فاروق ستار کو غلط انداز میں پہنچائی گئی ہیں۔شاہزیب خانزادہ نے تجزیے میں مزید کہا کہ نقیب کیس میں ڈیڈ لائنز کے باوجود مرکزی ملزم رائو انوار پیش نہیں ہوئے اس کے باوجود انہیں منگل کو حفاظتی ضمانت مل گئی، سپریم کورٹ نے پولیس کو رائو انوار کو گرفتار کرنے سے روک دیا ،رائو انوار کی عدم گرفتاری کی وجہ سے سوال اٹھ رہے ہیں کہ کیا رائو انوار اداروں سے بھی بالاتر ہوچکے ہیں، کیا تحقیقات رائو انوار کی خواہش کے مطابق ہوگی، کیا گرفتاری ہوگی تو ان کی مرضی کے مطابق ہوگی، نقیب اللہ کیس میں سامنے آنے والی پیشرفت نہ صرف حیران کن ہے بلکہ اداروں کی صلاحیتوں پر بھی سنگین سوالات اٹھ رہے ہیں۔شاہزیب خانزادہ نے تجزیے میں مزید کہا کہ آج سے تقریباً پچاس سال پہلے ایک اسکول کی لڑکی اپنے حق کیلئے لڑی اورا سکول انتظامیہ کو جھکنے پر مجبور کردیا، اس لڑکی کے اسکول آنے سے پہلے تک اسکول انتظامیہ اپنی مرضی سے اسکول میں ہیڈ گرل کا انتخاب کرتی تھی مگر اس لڑکی نے یہ طریقہ قبول نہیں کیا اور اس انتخابی عمل پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ ہیڈ گرل کا انتخاب باقاعدہ طور پر طالب علموں کو کرنا چاہئے۔