عہدساز شخصیتیں اچانک منظرعام پر نہیں آجایا کرتیں بلکہ نرگس کی ہزاروں سالہ بے نوری کا وہ اجر ہوتی ہیں جو ایک خاص وقت پر چمن کو نور کی صورت میں ملنا ودیعت کردیا گیا ہوتا ہے اور دنیا میں بہت کم شخصیات ایسی ہوتی ہیں جو جمہوریت، عوامی حقوق اور عوام کے لئے اپنا سب کچھ قربان کردیتی ہیں ایسےلوگ اس دنیا میں آتے ضرور ہیں مگر جاتے کبھی نہیں۔ قائد ملت، قائد جمہوریت چوہری نور حسین ان میں سے ایک ہیں جو اپنی سیاسی سوجھ بوجھ کی بدولت آزادکشمیر اور برطانیہ میں بھی ایک منفرد مقام رکھتے ہیں۔آزاد کشمیر کے خطہ میں جو شہرت اور عزت چوہرری نور حسین کا مقدر بنی اتنی آزاد کشمیرکے کسی لیڈر کو حاصل نہ ہوئی۔
تحریک آزادی کشمیر کے بیس کیمپ میں جب بھی جمہوریت اور عوامی حقوق کی بات ہوگی تو چوہدری نور حسین کی گرانقدر قومی خدمات کا تذکرہ ضرور ہوگا۔ کشمیر اور پاکستان کےسیاسی ناطہ کی اہم دستاویز 19جولائی 1947کی وہ قرارداد الحاق پاکستان ہے جو قیام پاکستان سے قبل غازی ملت سردار محمد ابراہیم خان کی رہائش گاہ سری نگر میں منظور کی گئی تھی۔ یہ تاریخ کا عجیب اتفاق ہے کہ کشمیریوں نے قیام پاکستان سے قبل ہی تحریک آزادی کشمیر کے ڈانڈے تحریک پاکستان سے جوڑ دیئے۔ میرپور سے اس اجلاس میں چوہدری نور حسین نے شرکت کی اور اس قرارداد پر انہوں نے بھی دستخط کئے تھے۔ چوہدری نور حسین نے آزاد مسلم کانفرنس کے پلیٹ فارم، سے آزاد کشمیر میں بحالی جمہوریت، عوامی حقوق کے تحفظ اور ریاستی تشخص کے احیا کے علاوہ تحریک آزادی کشمیر کے قومی شعور سے نئی نسل کو بیدار کرنے میں غیرمعمولی کردار ادا کیا۔ چوہدری نور حسین صدر آزادکشمیر کرنل شیراحمد کی کابینہ میں آپ وزیرتعلیم اور وزیر مال رہے آپ کو اس وقت ریاست جموں و کشمیر کے کم عمر وزیر کا اعزاز بھی حاصل ہوا۔ آپ آزاد مسلم کانفرنس کے صدر کی حیثیت سے سابق وزیراعظم پاکستان ذوالفقار علی بھٹو شہید کے مشیر بھی رہے۔ انہوں نے سیاست میں اصولوں اور اعلیٰ اخلاقی اقدار کی پاسداری کی جب وفاقی حکومت پاکستان کی آشیرباد سے آزادکشمیر کے عہدہ صدارت سےسردار عبدالقیوم خان کو برطرف کیاگیا تو سیاسی اختلافات کے باوجود چوہدری صاحب کے اس دلیرانہ موقف و اعلیٰ کردار سے متاثر ہوکر سردار عبدالقیوم نے انہیں ’’قائد جمہوریت‘‘ کے خطاب سے نوازا تھا۔ آپ کو تحریک آزادی کشمیر کی تاریخی جدوجہد اور عوامی خدمات اور قربانیوں کی وجہ سے ’’قائد ملت‘‘ کا لقب دیاگیا۔پاکستان میں فوجی آمر جنرل ضیاالحق اور آزادکشمیر میں بریگیڈیئر محمد حیات کی آمریت کے خلاف چوہدری نور حسین نے آواز بلند کی تو پاکستانی فوجی آمروں، کشمیر کونسل کی سازشوں اور بیوروکریسی کے مالشیوں نے بہت سازشیں کیں قید و بند کی صعوبتوں سے دوچار کیا ان کےکاروبار پر حملے، اولاد اور گھر والوں کو پریشان کیا جاتا رہا لیکن یہ مرد آہن مردانہ وار حالات کا مقابلہ کرتا رہا اور آمروں کو سرعام للکارتا رہا اور عظمتوں جراتوں کا بے مثال سفر جاری رکھا۔ آزاد کشمیر میں جنرل ضیاء الحق کے بریگیڈیئر حیات کی آمر حکومت کےخلاف چار جماعتی اتحاد قائم کرکے سردار عبدالقیوم، سردار محمد ابراہیم اور عبدالخالق انصاری کے ساتھ مل کر فیصلہ کن عوامی اور جمہوریت جنگ لڑی۔ اس چار جماعتی اتحاد نے پوری آزاد کشمیر میں جلسے جلوسوں کا انعقاد کرکے عوام کو متحرک کیا اس بھرپور تحریک کی وجہ اور میرپور کے عوام کی قربانیوں اور احتجاج کی وجہ سے بریگیڈیئر حیات کو برطرف کیاگیا اور آزادکشمیر میں جمہوریت کی بحالی اور فوجی آمریت کے خاتمہ کا سفر مکمل کیا۔ چوہدری نور حسین نے بینک سکوائر نانگی میرپور میں آزاد مسلم کانفرنس کے تاریخی کنونشن میں پارٹی صدارت بیرسٹر محمود چوہدری کے حوالے کردی اور اپنے خطاب میں کہا میرپور کے عظیم لوگو میرا ایک ہی بیٹا ہے جو آج میں نے قوم کے حوالےک ردیا ہے۔ قائد ملت، قائد جمہوریت کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ ان کی دعائوں، جدوجہد اور سیاسی قربانیوں کے وسیلہ سے ہی بیرسٹر سلطان محمود چوہدری 1996میں آزاد کشمیر کے وزیراعظم منتخب ہوئے۔ اس کے بعد چوہدری نور حسین نے سیاسی معاملات سے عملاً کنارہ کشی اختیار کرلی تاہم مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرتے ہوئے انہوں نے بہت بڑی عوامی ریلی کی قیادت کرتے ہوئے پونہ میرپور ازاد کشمیر کے مقام سےکنٹرول سیز فائر لائن کراس کی تھی۔ سیاسی زندگی سےکنارہ کشی کے بعد چوہدری صاحب عبادات و ریاضت اور روحانیت کی طرف مائل ہوگئے تھے۔ نماز پنجگانہ، تہجد اور ذکر اذکار وظٓائف ان کا روز کا معمول تھا۔ وہ اولیاء کاملین اور بزرگان دین سےحددرجہ عقیدت رکھتے تھے۔ حضرت بابا پیرا شاہ غازی قلندر دمڑیاں والی سرکار اور حضرت میاں محمد بخش کے مزار کھڑی شریف کئی بار چلہ کشی کی وہ دربار گلہار شریف کوٹلی، دربار گولڑہ شریف، دربار حضرت سلطان باہو باقاعدگی سے حاضری دیتے رہتے تھے۔
قائد ملت، قائد جمہوریت چوہدری نور حسین تحریک آزادی کشمیر اور عوامی خدمات ناقابل فراموش ہیں مگر بدقسمتی سے اس بلند پایہ تاریخی، سیاسی اور عوامی شخصیت کی عظیم جدوجہد اور خدمات کو احاطہ تحریر نہ لایا جاسکا۔ آنے والی نسلیں چوہدری نور حسین کی جدوجہد سے مکمل طور پر آگاہی حاصل نہیں کر پائیں گی اور یہ ان خاص لوگوں کے لئے لمحہ فکریہ اور ایک قرض ہے جو چوہدری نور حسین کی وجہ سے بھرپور زندگی بسر کررہے ہیں۔چوہدری نور حسین سیاسی تاریخ میں گم نہیں ہوئے بلکہ سیاسی تاریخ کےصفحات میں زندہ جاوید ہیں۔ عوامی اور جمہوری استعارہ بھی بھلا کبھی ختم ہوا ہے۔ ایسی شخصیت کو تاریخ سحر انگیز بن کر قابل تقلید بنادیا کرتی ہے۔ چوہدری نور حسین زندہ ہیں اور زندہ رہیں گے تاریخ میں تصنیف میں تالیف میں اور سب سے بڑھ کر عوام کے دلوں میں آزاد کشمیر کے سیاسی افق کا یہ ستارہ 16فروری 2014 کو غروب ہوگیا اور اس عارضی دنیا سے ابدی دنیا کی جانب سفر اختیار کیا۔ آپ کو ہزاروں اشکبار آنکھوں کے ساتھ چیچیاں کھڑی شریف میں اپنے والد چوہدری نیک عالم کے پہلو میں دفن کیاگیا۔ چوہدری نور حسین کی کمی شاید صدیوں پوری نہ ہوسکے۔ آپ کی چوتھی برسی کے موقع پر 16فروری کا دن آزادکشمیر اور میرپور کے عوام کے لئے ناقابل فراموش ہے۔ یقیناً چوہدری نور حسین کی مغفرت اور بلندی درجات کے لئے ہزاروں ہاتھ اٹھ گئے۔