• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بغل بچے کس بات پربغلیں بجا رہے ہیں۔ٹنل وژن بھی وژن ہوتا ہے لیکن یہ تو اس سے بھی عاری ہیں۔یہ ضمنی انتخابوں میں پھنسے دھنسے لاہور این اے 120تا لودھراں لدھڑوںکی طرح بھاگے پھررہے ہیںاور نہیں جانتے، نہیں پڑھتے کہ......’’لکھا ہے دیوارِ چمن پرپھول نہ توڑولیکن تیز ہوا اندھی ہے‘‘آصف زرداری نے خوب کہا ہے کہ ’’اگلی حکومت مخلوط ہوگی‘‘ میں اس کلام ِ معرفت میںمعمولی سے اضافہ کی اجازت چاہتے ہوئے صرف اتنا عرض کروں گا کہ یہ جنم جلی، بختوں ماری حکومت مخلوط ہی نہیں مخنث ہونے کے ساتھ ساتھ لولی، لنگڑی اورپولیوزدہ بھی ہوگی جس کا ہونا نہ ہونا ایک برابر ہوگا۔ منوبھائی کی ایک نظم ہے پنجابی کی جس میں وہ کہتے ہیں کہ میٹھے میں مٹھاس نہیں رہی اور کھٹے میں کھٹاس باقی نہیں۔ پنجاب فوڈ اتھارٹی کے ڈائریکٹر جنرل نور الامین مینگل سے پوچھیں تو وہ آپ کو بتائیں سمجھائیں گے کہ ہمارے ہاں تو اب دودھ میں دودھ نہیں، مکھن میں مکھن نہیں، شہد میں شہد نہیںاور آئس کریم میںآئس کریم نہیں تو بھائی! ایسے معاشرے اورماحول میں حکومت کے اندر حکومت کیسے باقی رہ سکتی ہے؟ اور اس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ سوچیں کیا نواز شریف کی حکومت واقعی حکومت تھی کہ حکومت کی ڈمی؟ اور کیا شاہد خاقان عباسی کی حکومت بھی سچ مچ کی حکومت ہے یا حکومت کے نام پر فقط ایک جگاڑ، ایک خانہ پری یا ایک ڈھیلا ڈھالا ارینجمنٹ؟ یہ کیسی مجبور، معذور رینگتی گھسٹتی سسکتی حکومت تھی جو اپنے سینے پر دیئے معمولی دھرنے سے نمٹنے کے قابل بھی نہ تھی۔ چھ فٹ کا وزیر داخلہ چھ انچ کا بھی نہ نکلا جب اس کے ادنیٰ اہلکاروں نے ہی اس کاداخلہ بند کردیا۔اگر میری معروضات میں تھوڑا سا بھی دم ہے تو برادران اسلام اور چمچگان جعلی جمہوریت خود ہی اندازہ لگالیں کہ اگلی حکومت کیسی ہوگی؟ بلکہ میں تو ’’مور اوور‘‘ کے طور پر یہ بھی عرض کرتا چلوں کہ صرف اگلی ہی نہیں، اس سے اگلی اور پھر اس سے اگلی حکومت بھی ایسی ہی ہوگی یعنی ’’بہت کہیں کہ ہے، نہیں ہے‘‘ اور سچ پوچھیں تو ہونا بھی ایسے ہی چاہئے کیونکہ جیسی کھوکھلی جمہوریت ویسی ہی کھوکھلی حکومت۔آپ کو قسم ہے اس پاکستان کی پلیز! پی ٹی آئی، ن لیگ، پیپلزپارٹی، ایم کیو ایم، اے این پی وغیرہ نہیں صرف اورصرف پاکستانی بن کر سوچئے کہ کیا یہ سیاستدان بطور ایک کمیونٹی اس قابل ہیں کہ آنکھیں بند کرکے تمام تر اختیار اقتدار سمیت یہ ملک ان کے حوالے کردیا جائے، اک ایسا ملک جس کی حالت ایسی کردی گئی۔میں سازشوں میں گھرا اک یتیم شہزادہیہیں کہیں کوئی خنجر مری تلاش میں ہےیہ کرپٹ، خودغرض، نااہل، بے اصول، بے لگام کیا واقعی اس قابل ہیں کہ 21کروڑ سے زیادہ بے زبانوں کو ان کے رحم و کرم پر چھوڑ دیاجائے؟ سیاست تو سیاستدانوں نے ہی کرنی ہے جیسے ہیوی ڈیوٹی کمرشل وہیکلز تو ظاہر ہے پروفیشنل ڈرائیورز نےہی چلانی ہیں لیکن اگر وہ نشئی ہوں اور تربیت سے بھی عاری تو انجام اس خبر پر ہوتا ہے کہ گاڑی الٹ جانے یا انڈرپاس میں پھنسا دینے کے بعد ڈرائیور فرار ہو گیا۔ ان ’’اقاموں‘‘ کی اقامت گاہیں اور پناہ گاہیں بھی کہیں اور ہیں۔ خدانخواستہ ’’گاڑی‘‘ الٹ گئی تو یہ بھی فرار سمجھو.... ہم آپ کدھر جائیں گے اورہمارا کیا بنے گا کالیا؟یہ جسے سیاست کہتے ہیں، وہ سیاست نہیںجسے جمہوریت بتاتے ہیں وہ ہرگز جمہوریت نہیں۔سو اگر انہیں سچ مچ کی حکومتیں درکار ہیں تو انہیں اپنی حرکتوں، رویوںاور کارکردگیوں پرغور کرنا ہوگا۔ دس سال سے یہ کوڑھ زدہ جمہوریت جمہور کو چمٹی ہوئی ہے تو کوئی مجھے بتائے اس ملک میں کوئی ایک حقیقی جوہری تبدیلی آئی؟ دس سال پہلے اک عام آدمی جس حال میں تھا، کیا آج اس سے بہتر حالت میں ہے یا بد سے بدتر اور ستیاناس سے سواستیاناس ہوچکا؟ میں بکائو بینی فشریز کی نہیں خالص عوام کی بات کر رہا ہوں۔عزت دنیا کی کسی کرنسی کے عوض دنیا کے کسی شاپنگ مال پر برائے فروخت نہیں جو خریدی جاسکے، یہ کمانی پڑتی ہے۔ پونے بائیس کروڑ انسانوں کے ملک میں ایک ڈیڑھ کروڑ ووٹ چھین کر، خریدکر، بٹور کر یا لے کر یہ کہنےسے کہ ’’کروڑوں عوام میرے ساتھ ہیں‘‘ کوئی لیڈر نہیں بن جاتا اور جو لیڈر نہیں ہوتا، اس کے ساتھ ویسا ہی ہوتا ہے جو ہوا..... جوہو رہاہے اور جوہوگا۔مختصراً یہ کہ اگلی حکومت بھی پچھلی جیسی ہی ہوگی اور اس سے اگلی بھی، سامنے چاہے جو کوئی بھی ہوگا ’’عباسی‘‘ ہی ہوگا۔

تازہ ترین