• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

زیادتی کا شکار بچے اور بچیاں تحریر:قاری تصورالحق مدنی…برمنگھم

کچھ سال پہلے پشاور کے آرمی پبلک سکول میں بچوں کے قتل عام کا سنگین واقعہ پیش آیا چنانچہ اس حادثے نے وقتی طور پر پوری طور پر منتشر قوم کو ایک ایجنڈے پر متفق ہونے پر مجبور کر دیا اور تمام طبقات نے قومی حفاظت کو مقدم جانا اور ایک ایکشن پلان پر اتفاق کر لیا۔ مجھے اور ساری قوم کو البتہ یہ انتظار ضرور ہے کہ جس پلان کو قومی امنگوں کا ترجمان قرار دیا گیا تھا اس پر مکمل عمل درآمد ہونا چاہئے۔ ہاں ایک بات ضرور دیکھنے اور سننے میں آئی ہے کہ دینی مدارس کے حوالے سے ایکشن پلان ایکشن میں نہیں آیا اور اس پر زور دینے کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ ٹی وی چینلز پر بیٹھ کر دانشوری کا اظہار کرنے والوں کے نزدیک بدامنی کے ذمہ داران مدارس سے تعلق رکھنے والے لوگ ہیں جب کہ شواہد سے یہ بات بالکل عیاں ہوچکی ہے کہ تخریب کاری کرنے والوں کی اکثریت کا تعلق جدید تعلیم رکھنے والوں سے ہے۔ لہٰذا میڈیا کے اندر وہ لوگ جو مختلف معاملات میں رہنمائی کا فریضہ انجام دے رہے ہیں وہ کسی بھی طور پر انصاف کا دامن نہ چھوڑیں لیکن میں یہ بھی نہیں کہ رہا ہوں کہ اگر دینی مدارس سے وابستہ کچھ افراد تخریب کاری سے جڑے ہوتے ہیں تو ان کا محاسبہ نہیں ہونا چاہئے۔ بات میں نے پشاور کے سکول سے شروع کی تھی اور اسی سانحہ کے حوالے سے مجھے یاد پڑ رہا ہے کہ پشاور سکول کے حادثے کے تناظر میں سکولوں کی سیکورٹی کو ترجیح قرار دیا گیا تھا لیکن میرے خیال میں چند دن تک سیکورٹی کے قصے سننے میں آئے اور پھر اس مسئلہ کو فراموش کر دیا گیا۔ میرا میڈیا کے ذمہ داران سے سوال ہے کہ کیا انہوں نے ملک کے تمام اداروں کے بارےمیں تمام متعلقہ لوگوں سے معلوم کیا ہے کہ انہوں نے سیکورٹی کے مطلوبہ مراحل طے کر لئے ہیں اور اگر اس سوال کا جواب نفی میں ہے تو پھر دیگر پیش آنے معاملوں میں مستقل بنیادوں پر مثبت کارروائیوں کی قوم امید نہ رکھے۔ مجھے مذکورہ صورت حال کی روشنی میں پاکستان میں معصوم بچوں اور بچیوں کے ساتھ روا زیادتی اور اس کے ازالہ کے حوالے سے کچھ عرض کرنا ہے۔ پاکستان میں ہر دور کے حکمرانوں کی عادت یہی ہے کہ جب تک پانی سر سے گزر نہ جائے وہ کوئی ایکشن لینے کے لئے تیار نہیں ہوتے۔ قصور لاہور سے کچھ زیادہ دور نہیں لہٰذا وہاں کی صورتحال کو قابو میں لانے کے لئے زیادہ دیر نہیں لگنی چاہئے تھی۔ زینب کے ساتھ زیادتی کے بعد قتل کو حکومت مخالفین نے اس لئے اٹھایا کہ وہ سیاسی فائدہ حاصل کرلیں حالانکہ قصور ہی میں ہونے والے پہلے واقعات کو انہوں نے یہ پذیرائی نہیں بخشی تھی لیکن میرے نزدیک یہ روش ٹھیک نہیں،ہونا یہ چاہئے تھا کہ پہلے واقعہ کو ہی سنجیدگی سے لینا چاہئے تھا۔ان ہی دنوں میں خیبرپختونخوا اور سندھ میں قصور جیسے بدترین واقعات رونما ہوگئے اور پھر سب ہی اپنے اپنے حمام میں ننگے نظر آنے لگے لیکن مجھے جس افسوسناک صورتحال کا تذکرہ کرنا ہے وہ یہ ہے کہ سندھ، بلوچستان، خیبرپختونخوا اور پنجاب میں ہنگامی بنیادوں پر کچھ نصاب تیار کئے گئے اور سیمیناروں کا اہتمام ہوا، بچوں اور ان کے تحفظ میں درکار مذہبی رکاوٹوں پر تبصرے ہونے لگے۔ میں برطانیہ کی بات نہیں کر رہا کہ یہاں کس عمر میں بچوں اور بچیوں کی سکول کی تعلیم کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے مگر پاکستان اور باقی ایشیائی ممالک میں تعلیمی عمر پانچ سال سے شروع ہوتی ہے لہٰذا سکول کی عمر تک تعلیم و تربیت کی مکمل ذمہ داری والدین کی ہے اس لئے ضرورت ہے کہ اولاً والدین کو بچوں کی تعلیم کے حوالے سے آگاہی دی جائے۔ پانچ سال کی عمر میں سکول اور مسجد کا دور شروع ہوتا ہے۔ مساجد میں تو شاید یہ مشکل پیش آئے کہ وہ خود سے متوقع صورتحال میں بچوں کو بچائو کی تعلیم دے پائیں البتہ سکولوں میں اس نظام کے حوالے سے کچھ ہو پائے۔ اس حوالےسے میری درخواست یہ ہے کہ کسی قسم کا بھی نظام وضع کرنے سے پہلے ہر قسم کے مطلوبہ ماہرین کو ضرور شامل کرنا چاہئے تاکہ کسی بھی حوالے سے شامل نصاب ہونے والا مواد متنازع نہ بنے۔ بچوں اور بچیوں کے ساتھ روا زیادتی کے سدباب کے لئے والدین کی تربیت اور اساتذہ کی عمدہ نگرانی سے بھی کام اچھے طریقہ سے ہونے والا نہیں جب تک مجرموں کی سرکوبی کا موثر نظام نہیں ہوگا، کسی مزید تفصیل میں جائے بغیر نجی ٹی وی کے ایک معروف اینکر کی بات پر اپنی بات کو ختم کرنا چاہوں گا کہ جب پاکستان میں جنسی خواہشات کو پروان چڑھانے والے پروگراموں کی بہتات ہوگی اور ان کا سدباب نہیں ہوگا اس وقت تک بچوں اور بچیوؒں کے ساتھ ہونے والے واقعات کو روکا نہیں جا سکتا۔ انسانی حقوق کے سائے میں مردوں اور عورتوں کی برابری کے نعرے نے اختلاط کا جو بھوت ہمارے ذہنوں میں سوار کیا ہے اس نے مسلمان معاشرے کی ساری قدروں کا قتل عام کر دیا ہے۔ بچوں اور بچیوں کے ساتھ جو سلوک ہو رہا ہے اس کو بند کرنے کے لئے معاشرے کے تمام طبقوں کو سرجوڑ کر بیٹھنا چاہئے اور مشترکہ ٹھوس لائحہ عمل کو طے کرنا چاہئے بصورت دیگر اس طوفان کو روکنا مشکل ہو جائے گا۔ وفاقی سطح پر قوانین ترتیب پائیں جن کا تمام ملک میں یکساں نفاذ ہو۔

تازہ ترین