اسلام آباد (انصار عباسی) سابق وزیراعظم شوکت عزیز 7 فروری کو ایف آئی اے کی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کے روبرو اپنا بیان ریکارڈ کرائیں گے۔ یہ تحقیقاتی کمیٹی تین نومبر 2007ء کی ایمر۰جنسی کی تحقیقات کیلئے تشکیل دی گئی تھی، حال ہی میں جنرل پرویز مشرف نے اپنا دعویٰ دہرایا تھا کہ انہوں نے دیگر لوگوں بشمول اس وقت کی سویلین اور ملٹری قیادت کی مشاورت کے ساتھ آئین معطل کیا تھا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ 2008ء میں خاموشی کے ساتھ پاکستان چھوڑ جانے کے بعد سے شوکت عزیز کبھی واپس نہیں آئے اور اب انہوں نے 3 نومبر 2007ء کی کارروائی کے حوالے سے جاری ایف آئی اے کی تحقیقات میں شامل ہونے پر آمادگی ظاہر کرد ی ہے۔ ایف آئی اے ٹیم کی جانب سے رابطہ کرنے پر شوکت عزیز کا کہنا تھا کہ وہ آئندہ ماہ کی 7 تاریخ کو دبئی میں بیان ریکارڈ کرانے کیلئے دستیاب ہوں گے۔ پہلے کی طرح اس مرتبہ بھی امکان ہے کہ شوکت عزیز خود کو جنرل (ر) پرویز مشرف کی تین نومبر کی کارروائی سے دور رکھیں گے۔ جنرل (ر) پرویز مشرف نے ایف آئی اے کو ریکارڈ کرائے گئے اپنے حالیہ بیان میں سنگین غداری کے مقدمہ میں اس وقت کی سویلین اور ملٹری قیادت کو گھسیٹنے کی کوشش کی تھی تاکہ اپنے اس موقف کو درست ثابت کر سکیں کہ انہیں اس وقت کے وزیراعظم، ارکان کابینہ، سینئر جرنیلوں وغیرہ نے مشورہ دیا تھا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ پرویز مشرف سے خصوصی طور پر پوچھا گیا تھا کہ آیا ان کے پاس اس وقت کے وزیراعظم یا کور کمانڈرز یا پھر کسی اور میٹنگ میں دی گئی اس طرح کی کسی ایڈوائس کی تحریری نقل ہے جس میں انہیں آئین معطل کرنے کا مشورہ دیا گیا تھا۔ تحقیقات کے متعلق معلومات رکھنے والے ذرائع کا کہنا تھا کہ پرویز مشرف کے پاس دکھانے کیلئے کوئی ثبوت نہیں تھے۔ انہوں نے مزید کہا کہ پرویز مشرف تین نومبر کے جرم میں دوسروں کو ملوث کرنے کا سلسلہ جاری رکھا۔ وہ اس حقیقت کو بھی جھٹلا نہ سکے کہ انہوں نے بحیثیت آرمی چیف آئین معطل کیا۔ مشرف نے سابق آرمی چیف ریٹائرڈ جنرل اشفاق پرویز کیانی کا بھی نام لیا لیکن ان کے پاس اپنے دعوے کو درست ثابت کرنے کیلئے کوئی ٹھوس ثبوت نہیں تھا۔ سابق فوجی آمر نے اصرار کیا کہ ایمرجنسی نافذ کرنے سے پہلے جنرل کیانی کے علاوہ انہوں نے سینئر ملٹری اور سویلین قیادت سے بھی مشورہ کیا تھا اور اس میں انہوں نے اس وقت کے وزیراعظم شوکت عزیز کو بھی شامل کیا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ جنرل پرویز مشرف کے ایف آئی اے کو دیئے گئے حالیہ بیان سے ان کی قانونی ٹیم کی حکمت عملی کی عکاسی ہوتی ہے جس نے شروع سے ہی سنگین غداری کے مقدمہ میں سب کو ملوث کرنے کی کوشش کی۔ تین نومبر 2007ء کے غیر آئینی اقدام کے ذریعے سپریم کورٹ کے ججوں کو ہٹانے کی کوشش کی گئی تھی۔ اگرچہ ایف آئی اے کی ٹیم اب تک جسٹس (ر) عبدالحمید ڈوگر کا بیان ریکارڈ نہیں کر سکی کیونکہ ایف آئی اے کی ٹیم کو پرویز مشرف کے سوا کسی اور کے خلاف ثبوت نہیں ملا۔ جہاں تک سرکاری فائلوں اور دستاویزات کا تعلق ہے، ایف آئی اے کی ٹیم کو آئین کے آرٹیکل 6 کے تحت کارروائی کیلئے شروع سے جنرل پرویز مشرف کے سوا کسی اور کے خلاف کچھ نہیں ملا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس وقت کے وزیراعظم شوکت عزیز نے 3 نومبر 2007ء سے قبل سمری پیش کی تھی لیکن اس میں انہوں نے آئین معطل کرنے کی سفارش نہیں کی تھی۔ تین نومبر 2007ء کو جنرل مشرف نے بحیثیت چیف آف آرمی اسٹاف کی حیثیت سے نہ کہ صدر مملکت کی حیثیت سے اپنے دستخط کے ساتھ پی سی او جاری کیا تھا۔ پی سی او کے آخری دو پیراگرافس میں لکھا تھا کہ ’’اور وزیراعظم، چاروں صوبائی گورنر صاحبان، چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی، مسلح افواج کے سربراہان، وائس چیف آف آرمی اسٹاف اور کور کمانڈرز کے ساتھ صورتحال کا جائزہ لے کر میں، جنرل پرویز مشرف، چیف آف آرمی اسٹاف پاکستان بھر میں ایمرجنسی نافذ کرنے کی ہدایت دیتا ہوں۔ میں یہ بھی حکم دیتا ہوں کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کا آئین معطل رہے گا۔ اس حکم پر فوری عمل ہوگا۔‘‘ اب صورتحال یہ ہے کہ ایسی کوئی دستاویز ہے اور پرویز مشرف کے سوا کسی اور کا بیان ہے جس سے ثابت ہو سکے کہ ایمرجنسی کے حکم نامہ میں شامل افسران نے اس طرح کی کوئی ایڈوائس دی تھی۔