وہ کبھی نا امید نہیں ہوئیں گو کہ کام انکا ایسا تھا کہ قدم قدم پر مایوسیوں کا سامنا ہوتا تھا، منیزے جہانگیر نے یہ بات آنسو سمیٹتے ہوئے اپنی والدہ عاصمہ جہانگیر کے بارے میں کہی۔ بطور اینکر کے ٹیلی وژن پر کہے۔ ان کے الفاظ زیادہ اردو زبان سے تھے، بس ایک آدھ لفظ انگریزی کا تھا جس کا ترجمہ میں نے کردیا۔ انہی کے مطابق ان کی والدہ کا کہنا تھا کہ ہمارے لوگ، پاکستان کے لوگ ہیرے ہیں۔ انہیں تراشتا کوئی نہیں اور ریاست سے مدد نہ ملنے کے باوجود لڑجھگڑ کر کچھ نہ کچھ بن ہی جاتے ہیں۔
عاصمہ جہانگیر کی وفات11 فروری کو ہوئی۔ غم کی جگہ اب ان کی یادیں منانے کا سلسلہ چلا ہے۔ عاصمہ متنازع ترین شخصیت بنیں کیونکہ وہ خواتین، اقلیتوں، سویلین بالا دستی، آزادی اظہار کے حقوق کے لئے مذہبیت، قومیت اور پدرسری ثقافت کے بتوں سے ٹکرائیں۔ یوں یا تو انہوں نے محبت، تشکر اور تفاخر سمیٹے یا تلخی اور نفرت۔ ایسے لوگوں کا مسئلہ یہی ہوتا ہے چونکہ وہ اکثر ان لوگوں کی غلط فہمیوں کا شکار ہوتے ہیں جو انہیں سرے سے جانتے نہیں اس لئے ان کے بارے میں ایسی باتیں اور خیالات رواج پاتے ہیں جن کا حقیقت سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں ہوتا۔
ڈرنا تو خیر سیکھا ہی نہ تھا عاصمہ نے مگر منیزے ہی کے بقول وہ نڈر نہیں تھیں بلکہ انہوں نے ڈر پر قابو پا لیا تھا۔ نہ دھمکیوں سے مرعوب ہوئیں نہ حملوں سے۔ ایک بار بلوچستان میں گاڑی پر حملہ ہوا تو کہنے لگیں کہ ان کی گولیاں ختم ہوجائیں گی مگر میرا جذبہ کم نہ ہوگا۔ ستارہ امتیاز پایا، پاکستان بھر کے وکلا کی پہلی رہنما بنیں۔ کس کس عالمی انعام کا نام لوں جو انہوں نے نہ جیتا ہو۔ حال ہی میں لئے گئے ایک ایوارڈ کی رقم سے وہ ایسے ایف ایم چینلز قائم کرنا چاہتی تھیں جو انسانی حقوق کی تعلیم دے سکیں، ترویج کر سکیں مگر زندگی نے وفا نہ کی۔
27جنوری1952 کو پیدا ہوئیں۔ لاہور کے جیزس اینڈ میری کانونٹ میں داخل ہوئیں۔ یہیں پہلی مہم چلائی اور کامیاب رہیں کہ اسکول کی ہیڈگرل کو نامزد نہ کیا جائے بلکہ جمہوری طریقہ سے چنا جائے۔ 13سال کی عمر میں تشدد دیکھا جب انہیں ایک صحافی اور ایک سیاست دان جنہیں ان کے گھر کے باہر گولی لگی تھی، اسپتال لے کر جانا پڑا۔ ان کے اپنے مطابق انہوں نے بچپن اور لڑکپن میں اپنے گھر میں گفتگو حقوق اور آزادیوں ہی کی سنی اور کہتی تھیں کہ ان کی والدہ تو والد ملک غلام جیلانی کی گرفتاریوں کی عادی ہوچکی تھیں۔ پہلا مظاہرہ 17برس کی عمر میں ایوب حکومت کے خلاف کیا۔ 18سال کی تھیں جب والد کی مارشل لا قوانین کے تحت گرفتاری کو لاہور ہائی کورٹ میں چیلنج کیا۔ 1972میں انہی کی اپیل پر سپریم کورٹ نے یحییٰ خان کی حکومت کو اس کے خاتمہ کے بعد غیرآئینی اور یحییٰ خان کو غاصب قرار دیا۔ 1978میں قانون کی ڈگری لی مگر اس سے کئی سال پہلے ہی مشرقی اور مغربی پاکستان کے سیاسی اور قانونی حلقوں میں نام بنا چکی تھیں۔
80کی دہائی میں ویمن ایکشن فورم بنایا، ضیا الحق کے بنائے گئے خواتین کے حقوق کے خلاف بنائے گئے قوانین کے خلاف جدوجہد کی۔ اس وقت جیل کی سلاخوں کے پیچھے خواتین میں سے آدھی وہ تھیں جو ضیا کے زنا آرڈیننس کا شکار ہوکرقید ہوئیں۔ انہوں نے ایک 13سالہ نابینا لڑکی کا کیس جیتا جو جبری زنا کا شکار بھی ہوئی اور جیل بھی اسی کو کاٹنا پڑی۔ صائمہ وحید کیس دیکھ لیں یا سمیعہ سرور کا، انہوں نے خواتین کے شادی اور طلاق میں مرضی کے حق کا بھی بھرپور دفاع کیا۔1983 میں جمہوریت کی بحالی کے لئے تحریک ایم آر ڈی میں شرکت پر گرفتار ہوئیں۔ ایک جانب ہیروئن، کلاشنکوف، اور فرقہ وارانہ اور نسلی تقسیم اور تشدد عام ہورہے تھے مگر ان کے ذمہ دار، عاصمہ اور ان کے ساتھیوں کو مذہب مخالف، مغرب پرست اور غدار قرار دے رہے تھے۔
1986میں اے جی ایچ ایس کے نام سے دیگر خواتین وکلا کے ساتھ مل کر لیگل ایڈ سنٹر بنایا، پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق کی بنا ڈالنے میں شریک ہوئیں اور 1987میں اس ادارے کی سیکرٹری جنرل منتخب ہوئیں۔ انہوں نے جداگانہ طریق انتخاب، مذہبی شناخت پر مبنی شناختی کارڈ اور مذہب کے غلط استعمال کے خلاف جدوجہد کی۔ سلامت مسیح اور رحمت مسیح جنہیں غلط الزامات پر سزا سنائی گئی تھی، ان کا کیس لڑا۔ پندرہویں ترمیم کی مخالفت کی جس کا مقصد تھیوکریسی کا قیام تھا۔
2006میں بلوچ لیڈر اکبر بگٹی کی ہلاکت سے دو روز پہلے ان سے ملنے کے لئے جانے والوں میں واحد غیرجانبدار شخصیت تھیں جنہیں ملنے کی اجازت دی گئی۔2007 میں ججوں کی بحالی کے لئے جدوجہد کی پاداش میں نظربند ہوئیں۔ خواتین کی لاہور میں میراتھن دوڑ منعقد کی، لاٹھی چارج کا شکار ہوئیں۔ انسانی حقوق کا دفاع کیا، بھارت کے کشمیریوں پر اور اسرائیل کے فلسطینیوں پر ظلم کے خلاف ایسی صدائے احتجاج بلند کی کہ مثال بنی۔ جس شدومد سے انہوں نے کشمیر میں ہونے والے مظالم پر تنقید کی انہی کا خاصہ تھا۔ مغرب کو بھی پاکستان میں جہاد کے نام پر تشدد کا برابر ذمہ دار قرار دیا۔ یورپین یونین پارلیمنٹ میں پاکستان کو سفارتی اور اقتصادی طور پر تنہا کرنے کے خلاف یادگار دلائل دیئے۔ ان کے اصول مستحکم بھی تھے اور ان میں تسلسل بھی تھا۔ ایک وقت میں جن کی معتوب ہوئیں ان ہی پر جب مشکل وقت آن پڑا تو ان کی وکیل بھی ہوئیں۔ ان کی جدوجہد ملک کے کسی ایک خطے تک محدود نہیں تھی انہیں وطن اور وطن کے لوگوں سے بے پناہ محبت تھی، چاہے ان کا تعلق کسی بھی نظریہ سے ہو، کسی بھی مذہب سے ہو۔ ان کی وراثت جرات ہے، امید ہے۔