• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے پیر کو قومی اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے کچھ اہم سوالات اٹھائے۔ اہل سیاست خصوصاً صاحبان اقتدار کی ہر بات سوچی سمجھی رائے اور کسی خاص فکر کی نمائندہ سمجھی جاتی ہے۔ وزیراعظم کا روئے سخن زیادہ تر عدلیہ کی طرف رہا۔ وزیراعظم عباسی نے کہا کہ ہم سب نے آئین کے دفاع کا حلف لیا ہے۔ اداروں کے درمیان کشمکش کا نقصان (کسی فرد یا جماعت کو نہیں بلکہ) ملک کو ہوتا ہے۔ عدالتوں میں منتخب نمائندوں کو چور کہا جارہا ہے۔ ساتھ ہی وزیراعظم نے سوال اٹھایا کہ ہاؤس کے دونوں طرف (یعنی حکومتی اور اپوزیشن) ارکان کو قانون سازی کا حق نہیں ہے؟ کیا اس کے لئے پہلے (عدالت سے) اجازت لینا ہوگی؟ اس معاملے پر ہاؤس کو بحث کرنی چاہئے۔ اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم پاکستان نے ایک اور بہت اہم نکتہ اٹھایا۔ انہوں نے کہا کہ ہم سب انسان ہیں کوئی غلط فیصلہ ہو اور اس کے منفی اثرات ہوئے تو کیا وہ فیصلہ ذاتی ذمہ داری بن جائے گا؟
اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ نے ان نکات پر کہا کہ پارلیمنٹ کا تقدس ہم نے خود پامال کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ماضی کی غلطیوں کا اعتراف کرنا چاہئے۔ سید خورشید شاہ نے سوال کیا کہ ہمارا عدلیہ کو ڈکٹیشن دینا ٹھیک ہے؟
پارلیمنٹ میں قائد ایوان اور قائد حزب اختلاف کی تقاریر کا پس منظر گزشتہ چند ماہ میں ہونے والے عدالتی فیصلے اور دوران سماعت معزز جج صاحبان کے تبصرے ہیں۔ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار کا کہنا ہے کہ پارلیمنٹ سپریم ادارہ ہے لیکن آئین اُس پر فوقیت رکھتا ہے۔ پارلیمنٹ آئین سے متصادم قانون نہیں بناسکتی۔ پارلیمنٹ میں کی گئی قانون سازی پر نظر ثانی کا اختیار آئین نے عدلیہ کو دیا ہے۔
پاکستانی کچھ عرصے سے عدلیہ کی فعالیت اور اشرافیہ کی حساسیت کے مشاہدے کر رہے ہیں۔ پارلیمنٹ، حکومت اور سول سروس کے مختلف شعبے اس ساری صورت حال میں کہیں کنفیوژن، کہیں اضطراب اور کہیں جواب دہی سے بچنے کے لئے ریکارڈ درست کرتے نظر آتے ہیں۔ سیاسی حکمراں تلقین کر رہے ہیں کہ ریاست کے سب اداروں کو اپنی اپنی آئینی حدود میں رہ کر کام کرنا چاہئے۔ لیکن ساتھ ہی یہ بھی سمجھ میں نہیں آرہا کہ آئینی تقاضوں کو خود جمہوری حکومتیں ہی نظر انداز کرنے لگیں تو ذمہ داروں سے جواب طلبی ہوگی یا نہیں؟، اگر ہوگی تو کس طرح ؟ سوال یہ ہے کہ پارلیمنٹ میں عدلیہ کے اختیارات پر بحث کس پس منظر اور کس مقصد کے تحت ہوگی، کیا بعض اراکین پارلیمنٹ قوانین پر نظر ثانی کے لئے عدلیہ کے اختیار کو حکومتی امور میں مداخلت سمجھ رہے ہیں؟ پاکستان میں جمہوریت کے استحکام کے خواہشمند کئی اصحاب یہ سمجھتے ہیں کہ قوانین پر نظر ثانی سمیت عدلیہ کے کئی اختیارات میں مداخلت کی کوششیں کسی بھی لحاظ سے جمہوریت کی خدمت نہیں ہوں گی۔
حکمراں ہوں، عدلیہ ہو یا سرکاری مشینری، نجی ادارے ہوں یا عام لوگ آئین و قانون پر عمل سب کی طرف سے نیک نیتی اور صدق دل سے ہونا چاہئے۔ ایسا نہ ہو اور قانونی تقاضے محض کاغذ کی حد تک ہی پورے کئے جارہے ہوں تو ایسے کسی ملک میں امن اور خوشحالی نہیں لائی جاسکتی۔ بہتر طرز حکمرانی کے لئے آئین و قانون پر ان کے الفاظ اور روح کے مطابق عمل لازمی ہے لیکن اس سے بھی پہلے یہ مرحلہ ہے کہ آئین میں تبدیلی اور قانون سازی کرتے وقت ریاست کے استحکام ، قوم کے وسیع تر مفاد ، عوام کے بنیادی حقوق کے تقاضوں کے ساتھ ساتھ آئین کے بنیادی ڈھانچے کو سامنے رکھا جائے۔
پاکستان میں فوجی حکمراں آئین کی کھلی خلاف ورزیاں کرتے رہے۔ 1958میں جنرل ایوب خان اور 1969میں جنرل یحییٰ خان کے مارشل لا جیسے اقدامات کی روک تھام کے لئے 1973ء کے آئین میں آئین پاکستان کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کو آرٹیکل 6 کے تحت سنگین غداری قرار دے کر روکنے کی کوشش کی گئی۔ اس آئین کے مرکزی خالق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی کابینہ میں وزیر قانون ، پاکستان کے بہت قابل وکیل عبدالحفیظ پیرزادہ اور ان کے ساتھی قانون دان سمجھتے تھے کہ آئین کا یہ آرٹیکل مستقبل میں پاکستان میں مارشل لا کا راستہ روکے رکھے گا۔ 77ء کے انتخابات میں دھاندلی کے خلاف اور نئے انتخابات کے حق میں اپوزیشن کی تحریک جب ملک کے طول و عرض میں پھیل گئی تو 5جولائی کو جنرل ضیا الحق نے پاکستان میں مارشل لا نافذ کردیا۔ 12اکتوبر 1999 کو تو حالات 77ء جیسے نہ تھے اس کے باوجود جنرل پرویز مشرف منتخب وزیر اعظم اور اسمبلیوں کو برطرف کرکے خود پہلے چیف ایگزیکٹو اور کچھ عرصے بعد صدر مملکت بن گئے۔ ان دونوں فوجی حکمرانوں کو عدالتوں سے نہ صرف یہ کہ آئین کے خلاف ان اقدامات کی تائید بلکہ حکومت کرتے رہنے حتیٰ کہ آئین میں ترمیم کرنے کے اختیارات بھی مل گئے۔ یہ آئین پاکستان کے ساتھ برتاؤ کا انتہائی مختصر ذکر ہوا۔
عوام کے ووٹوں کے ذریعے حکومت کا حق حاصل کرنے، پارلیمنٹ میں بیٹھ کر آئین میں ترمیم اور قانون سازی کے اختیارات کے حامل سیاست دانوں کا آئین کی تعمیل و تکریم کا ریکارڈ بھی کچھ زیادہ قابل رشک نہیں ہے۔ 5جولائی 1977ء اور 12اکتوبر 1999ء کو جنرل ضیا الحق اور جنرل پرویز مشرف کے خلافِ آئین اقدامات اور ان کی جانب سے آئین میں کی گئی تبدیلیوں کو منتخب اراکین اسمبلی نے ہی آئینی سند عطا کی۔ ان کے علاوہ پارلیمنٹ اور منتخب حکومتوں کی موجودگی میں کئی آئینی دفعات کو نظر انداز کیا جاتا رہا اور ان پر عملدرآمد نہ کرنے کے لئے مختلف جواز بیان کئے جاتے رہے۔
پاکستان سمیت دنیا کے کئی ترقی پذیر یا غریب ملکوں میں اقتدار کا مطلب حکمراں طبقے، انکے اہلخانہ اور مصاحبین کیلئے ملکی وسائل سے دولت، مراعات اور استحقاق کا حصول ہے۔ کمزور معاشروں کی ایک نشانی یہ بھی ہے کہ وہاں انصاف تک رسائی عام آدمی کی استطاعت اور سکت سے باہر ہوتی ہے۔ چھوٹے چھوٹے جرائم میں ملوث کئی غریب برسہا برس جیل کی سلاخوں کے پیچھے گزار دیتے ہیں اور سنگین گھناؤنے جرائم میں ملوث بااثر دولت مند لوگ جرم کے بعد اپنی انگلیوں سے فتح کا نشان بناتے ہوئے مقدمے کی کارروائی میں شامل ہوتے ہیں۔
پاکستان میں ہونے والی قانونی بحثیں بھی پاکستان کے کروڑوں غریب ووٹروں کے لئے کسی فیض یا ریلیف کا سبب نہیں بن رہیں۔ پاناما اور بعض دیگر معاملات پر عدلیہ کے فیصلے ہوں یا تبصرے ان سے غریب عوام کو تو کچھ نہیں مل رہا ، ہاں حکمراں طبقات کو فائدے پہنچ رہے ہیں۔
2018انتخابات کا سال ہے۔ مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی ، تحریک انصاف ، ایم کیو ایم، جے یو آئی، جماعتِ اسلامی، اے این پی یا دیگر جماعتوں میں سے کسی نے ابھی تک آئندہ پانچ سال میں عوام کی فلاح و بہبود کے لئے کوئی قابلِ عمل پروگرام پیش نہیں کیا ہے، نہ ہی اپنے منصوبوں پر عمل کرنے والے اہل اور باصلاحیت افراد کے ناموں سے ووٹرز کو آگاہ کرنا ضروری سمجھا ہے ۔ لگتا تو یہی ہے کہ اگلے انتخابات کسی قابلِ عمل منشور کے بجائے مظلومیت اور ہمدردی کے نام پر لڑے جائیں گے۔ عام لوگ بس نعرے لگاتے اور کروڑوں غریب بعد میں روٹی پانی کے حصول میں دھکے کھاتے ہی رہ جائیں گے۔ عوام ووٹ دیں گے ، ان کے ووٹوں سے منتخب ہونے والے نہ جانے کتنے ہی اراکینِ اسمبلی سیاست کو نوٹوں کے حصول کا ذریعہ بنائے رکھیں گے۔ نہیں کہا جاسکتا کہ تعلیم، صحت، بنیادی ضروریات سے محروم کروڑوں پاکستانیوں کے خراب حالات کب اور کس طرح بہتر ہوں گے.....؟

تازہ ترین