اسلام آباد (انصار عباسی) اگرچہ ریٹائرڈ جنرل پرویز مشرف کو غداری کے سنگین الزامات کا سامنا ہے لیکن وہ خوش قسمت ہیں کہ ان کیخلاف کارروائی کیلئے ملک کی عدلیہ کی رفتار کچھوے جیسی ہے۔ سنگین غداری ایکٹ 1973ء کی شق نمبر تین اور پانچ اور فوجداری قانون ترمیمی اسپیشل ایکٹ کے سیکشن پانچ کے تحت درج کی جانے والی فوجداری شکایت نمبر 1/2013 جنرل (ر) پرویز مشرف کیخلاف خصوصی عدالت میں 17؍ دسمبر 2013ء کو درج کی گئی تھی۔ چار سال سے زائد کا عرصہ گزرنے کے باوجود اب تک یہ نہیں معلوم کہ اسپیشل کورٹ کیس کا فیصلہ کب کرے گی۔ اسپیشل کورٹ نے پرویز مشرف کو 24؍ دسمبر 2013ء کو پیش ہونے کیلئے نوٹس جاری کیا تھا لیکن طلبی کے نوٹس (سمن) جاری ہونے کے باوجود سابق فوجی آمر حیلے بہانوں کی وجہ سے پیش نہ ہوئے اور 2؍ جنوری 2014ء کو سوا 12؍ بجے یہ اعلان کیا گیا کہ اگرچہ ملزم عدالت میں پیش ہونے کیلئے اپنے گھر سے روانہ ہوئے لیکن راسے میں انہیں دل کی تکلیف محسوس ہوئی اور انہوں نے طبی معاونت کیلئے اسپتال جانے کا فیصلہ کیا۔ سپریم کورٹ نے یکم جنوری کو دوٹوک ہدایات جاری کیں کہ اگر ملزم 2؍ جنوری کو پیش ہونے میں ناکام رہا تو عدالت قانون کے مطابق ان کی حراست کے متعلق فیصلہ کرے گی۔ 2؍ جنوری سے 31؍ مارچ تک ملزم آرمڈ فورسز انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیولوجی میں رہا لیکن انہوں نے وہاں پنسیلن کی دوائی لی اور نہ ہی ان کے کوئی طبی ٹیسٹ ہوئے۔ ان کی جانب سے یہ موقف پیش کیا گیا کہ ان کی حالت انہیں انجیو گرافی کی اجازت نہیں دیتی کیونکہ صحت کے حوالے سے خدشات پائے جاتے ہیں۔ 31؍ مارچ تک ملزم کی جانب سے تقریباً 13؍ متفرق درخواستیں دائر کی گئیں اور عدالت نے انہیں خارج کر دیا۔ آرمڈ فورسز انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیولوجی راولپنڈی سے کہا گیا کہ وہ ملزم کی حالت کے حوالے سے رپورٹ جمع کرائے اور 31؍ جنوری 2014ء کے آرڈر میں سوالات اور جوابات موجود ہیں۔ 31؍ مارچ کو ملزم جنرل (ر) پرویز مشرف پہلی اور آخری مرتبہ عدالت میں پیش ہوئے اور نتیجتاً ان پر سنگین غداری کی فرد جرم عائد کی گئی۔ عدالت نے ملزم جنرل (ر) پرویز مشرف کو زیر حراست رکھنے کا حکم نہیں دیا لیکن یہ قرار دیا کہ ملزم عدالت میں پیش ہونے کا پابند ہے اور ٹھوس بنیادوں پر پیشی سے استثنیٰ حاصل کر سکتا ہے۔ استغاثہ کا کیس 18؍ ستمبر 2014ء کو جاری کیے گئے آرڈر کے تحت بند کر دیا گیا اور قانون کے مطابق اگلا مرحلہ ضابطہ فوجداری کے سیکشن 342؍ کے تحت ملزم سے جرح تھا۔ اس موقع پر پرویز مشرف کی جانب سے ڈاکٹر فروغ نسیم نے 536؍ مزید ملزمان کی طلبی کی استدعا کی۔ 21؍ نومبر 2014ء کو اسپیشل کورٹ نے آرڈر کے تحت استغاثہ کو ہدایت کی کہ ترمیم شدہ شکایت دائر کی جائے جس میں سابق وزیراعظم شوکت عزیز، وفاقی وزیر زاہد حامد اور سابق چیف جسٹس عبدالحمید ڈوگر کو شامل کیا جائے۔ ان تین افراد نے اسلام آباد ہائی کورٹ سے رابطہ کیا اور جسٹس عبدالحمید ڈوگر نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا، عدالت نے 26؍ فروری 2016ء کو اپنے آرڈر میں کہا کہ جنرل (ر) پرویز مشرف اس کیس میں واحد ملزم ہیں اور اسپیشل کورٹ کا اس ضمن میں آرڈر معطل کر دیا گیا اور عدالت سے کہا گیا کہ وہ تیزی سے ٹرائل کرے اور غیر ضروری کارروائی نہ روکی جائے۔ سپریم کورٹ کے اس آرڈر کے بعد اسپیشل کورٹ نے ملزم پرویز مشرف کو 8؍ مارچ 2016ء کو ہدایت کی کہ وہ ذاتی حیثیت میں 31؍ مارچ کو ساڑھے 9؍ بجے صبح عدالت میں پیش ہوں تاکہ ضابطہ فوجداری کے سیکشن 342؍ کے تحت ان کا بیان ریکارڈ کیا جا سکے۔ اس تاریخ سے قبل ہی ملزم جرنیل اسپیشل کورٹ کی ہدایت کے باوجود ملک چھوڑ کر چلے گئے اور قانون کی نظر میں مفرور رہنے کا فیصلہ کیا۔ ججوں کی سپریم کورٹ میں ترقی کے بعد اسپیشل کورٹ دوبارہ تشکیل دی گئی۔ اب اسپیشل کورٹ جسٹس یحییٰ آفریدی (چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ بطور صدر)، جسٹس طاہر صفدر (بلوچستان ہائی کورٹ کی جج) اور جسٹس یاور علی خان (چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ) پر مشتمل ہے۔ اسپیشل کورٹ نے اب مقدمہ کی سماعت کیلئے 8؍ مارچ 2018ء کی تاریخ مقرر کی ہے تاکہ استغاثہ کی جانب سے استغاثہ ٹیم کے سربراہ ایڈووکیٹ مسٹر محمد اکرم شیخ کے توسط سے درخواست کا جائزہ لیا جا سکے، یہ درخواست ملزم جنرل (ر) پرویز مشرف کے دفاع میں ہے اور اس میں وہی کچھ موجود ہے جو پہلے ہی ریکارڈ پر موجود ہے اور کیس فیصلے کیلئے تیار ہے۔ جس خصوصی قانون کے تحت یہ مقدمہ دائر کیا گیا تھا؛ اس کیلئے ضروری ہے کہ سماعت روزانہ کی بنیاد پر کی جائے اور کسی بھی بنیاد پر عدالت برخاست نہ کی جائے۔ فوجداری ترمیمی قانون (اسپیشل کورٹ ایکٹ) 1976ء کے تحت اسپیشل کورٹ میں اس وقت تک کارروائی برخاست نہیں کی جائے گی جب تک اسپیشل کورٹ اس رائے پر نہ پہنچ جائے کہ انصاف کیلئے کارروائی برخاست کرنا ضروری ہے اور خصوصی طور پر ملزم کی غیر موجودگی کی وجہ سے عدالتی کارروائی برخاست نہیں کی جائے گی، یا پھر ملزم کی غیر موجودگی سے قبل اس کے رویے کی وجہ سے بھی کارروائی برخاست نہیں کی جائے گی تاوقتیکہ عدالت اسے انصاف کی رکاوٹ نہ محسوس کرے، اسپیشل کورٹ ضروری اقدامات کرتے ہوئے ایسے ملزم کے دفاع کیلئے وکیل کو مقرر کر سکتی ہے۔