اسلام آباد (طارق بٹ )سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ مشرف غداری کیس نگراں حکومت میں واپس لیا جاسکتا ہے ،دوسری طرف سینیٹر پرویز رشیدکا دی نیوز سے گفتگو میں کہنا ہے کہ ف کا ٹرائل اور تین ریٹائرڈ جرنیلوں کے نام ای سی ایل میں ڈالنا بنیادی طور پر بڑھتی ہوئی تنقید پر فضول کوششوں کا حصہ ہے ،یہ یکطرفہ احتساب ہے اور براہ راست شریف خاندان کیخلاف کیا جارہا ہے ،تفصیلات کے مطابق سیاسی حلقوں نے ادیشہ ظاہر کیا ہے کہ وزارت داخلہ کی جانب سے خصوصی عدالت میں پرویز مشرف کیخلاف دائر کیاگیا سنگین غداری الزامات کا مقدمہ جون میں بننے والی نگراں حکومت ختم کرسکتی ہے ،پرویز مشرف کے ٹرائل کی سماعت کیلئے ان کے پاکستان سے جانے کے دو برس بعد تاریخ مقرر کردی گئی ہے ،ایک معروف وکیل نے دی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ایسا قرار نہیں دیا جاسکتا کہ ایسی شکایت صرف وفاقی حکومت دائر کرے اور پھر اسے ختم بھی کرے ایک عام اصول کے مطابق ایک اتھارٹی کو جمع کرائی گئی شکایت کو واپس لینے کا اختیار حاصل ہے ، خصوصی عدالت کا تین رکنی بنچ(جسٹس یحیٰ آفریدی ،جسٹس یاور علی اور جسٹس طاہرہ صفدر )نے مشرف کی سماعت 8 مارچ کو لگائی ،سماعت اس عوامی مطالبے پر کی جارہی ہے جس میں کہاگیا کہ کوئی عدالتی فورم سابق ڈکٹیٹر کیخلاف کیسز نہیں اُٹھا رہا ،جبکہ سیاستدان بھی اس معاملے کو اُٹھارہے ہیں ،سابق ڈکٹیٹر کا ٹرائل ان کے پاکستان سے جانے کے بعد رکا ہوا تھا ،سپریم کورٹ نے ان کا نام ای سی ایل سے نکالا اور موجود حکومت نے بھی ان کے نکل جانے پر توجہ نہیں دی ۔مسلم لیگ (ن )کے سینیٹر پرویز رشید سے دی نیوز کے رابطہ کرنے پر انہوں نے بتایا کہ مشرف کا ٹرائل اور تین ریٹائرڈ جرنیلوں کے نام ای سی ایل میں ڈالنا بنیادی طور پر بڑھتی ہوئی تنقید پر فضول کوششوں کا حصہ ہے ،یہ یکطرفہ احتساب ہے اور براہ راست شریف خاندان کیخلاف کیا جارہا ہے ،خصوصی عدالت کا یہ اعلان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے کہ جب مشرف نے چند روز قبل کہا کہ وہ آئندہ انتخابات کیلئے پاکستان آئینگے ،انہوں نے یہ بھی کہا کہ عدالتیں اب نوازشریف کو وزیر اعظم کے عہدے سے ہٹائے جانے اور موجود حکومت کمزور ہوجانے کے بعد ان کا انصاف کرینگی ۔ہر نگران حکومت کے دور میں ہی بڑی تعداد میں اہم فیصلے ،آنے والی منتخب حکومت کیلئے مسائل پیدا ہوتے ہیں اور ایسا کچھ عناصر کی ایما پر ہوتا ہے ،تاہم اعلی عدالت کا فیصلہ عبوری حکومت کو اہم پالیسی ساز فیصلوں سے روکتی ہے اور اسے صرف ایسے مطلوبہ اقدامات کی اجازت دیتی ہے جو آزادنہ ،شفاف انتخابات کیلئے ہوں ۔ایک بار نگراں حکومت کے قائم ہوجانے پر قومی سلامتی اور دفاعی کونسل اگلی حکومت کی جانب سے ٹوٹ جاتی ہے جوکہ تازہ پارلیمانی انتخابات میں نوازشریف کی سربراہی میں منتخب ہوئی ۔