• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نہال ہاشمی ایک ماہ جیل کاٹ کر رہا ہو گئے۔رہائی پر قسم اٹھا کر کہا کہ انہوںنے کوئی توہین عدالت نہیں کی بلکہ انہیں تو انتقام کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ نہال ہاشمی کی جو تقریر میڈیا نے سنائی اور جس پر انہیں توہین عدالت کا نوٹس دیا گیا وہ قابل اعتراض ضرور تھی لیکن کیا عدالت عظمیٰ کے لیے مناسب تھا کہ ہاشمی کی طرف سے پیش کی گئی غیر مشروط معافی نامہ میں تبدیل کروانے کے باوجود تاکہ اُسے قابل قبول بنایا جائے ، ہاشمی کو نااہل قرار دے کر تیس دن کے لیے جیل بھی بھیج دیا گیا۔ عموماً ایسا ہوتا نہیں۔ عدالتیں معافی مانگنے پر معاف کر دیتی ہیں۔ نہال ہاشمی ایک غریب سیاست دان ہے۔ اُس کو تو سزا دھمکی دینے پر ہوئی۔ توہین عدالت بلکہ اس سے بہت بڑی سزا اگر کسی کو ہونی چاہیے تھی تو وہ جنرل مشرف کو جس نے ایک نہیں بلکہ پچاس سے زیادہ اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کو نہ صرف غیر قانونی طور پر نکالا بلکہ انہیں بچوں سمیت نظر بند بھی کیا۔ جو مشرف نے عدلیہ اور ججوں کے ساتھ کیا اُس کی کوئی نظیر نہیں ملتی لیکن اس جرم پر مشرف کو تو ایک دن کے لیے بھی جیل نہیں بھیجا گیا۔ مشرف نے اپنے ایک حالیہ ٹی وی انٹرویو میں کہا کہ اُنہیں سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی مدد سے ملک سے باہر جانے کی اجازت ملی۔ مشرف نے یہ سنگین الزام بھی لگایا کہ ہمارے جج پس پردہ دبائو کے تحت ہی کام کرتے ہیں اوراسی دبائو کے تحت فیصلے دیتے ہیں۔ اُن کا کہنا تھا کہ اسی دبائو کے تحت انہیں ملک سے باہر جانے کی اجازت دی گئی۔ اس سے بڑی توہین عدالت کیا ہو سکتی ہے؟ لیکن عدلیہ نے مشرف کے اس بیان پر کوئی کان نہ دھرا۔ مشرف نے تو دو بار آئین کو پامال کیا لیکن وہ اس کے باوجود بیرون ملک آرام دہ زندگی گزار رہے ہیں۔ حال ہی میں سپریم کورٹ نے بہت اچھا کیا کہ حسین حقانی کو پاکستان واپس لانے کے لیے ایف آئی اے کو فوری اقدامات کرنے کا حکم دیا۔ کتنا اچھا ہوتا کہ سپریم کورٹ جنرل مشرف کے ریڈ وارنٹ بھی جاری کرتی کیوں کہ مشرف کے جرائم کی سنگینی سے تو کسی کو انکار نہیں ہو سکتا۔ قانون کی بالادستی کو اگر قائم کرنا ہے تو پھر قانون کا اطلاق سب سے پہلے اُن پر ہو جو سب سے طاقت ور ہیں اور جنہوں نے بار بار ثابت کیا کہ وہ جو مرضی آئے کر لیں اُنہیں کوئی چھو بھی نہیں سکتا۔ اچھا ہوتا کہ جس طرح سپریم کورٹ نے اپنے فیصلہ اور نگراں جج کے ذریعے میاں نواز شریف اور اُن کے بچوں کے خلاف عدلیہ کو جلد فیصلہ کرنے کا پابند بنایا ہے، اُسی تیزی سے مشرف کے خلاف بغاوت کے کیس کا بھی فیصلہ کروایا جاتا۔ بغاوت کا کیس تو خصوصی عدالت کے سامنے گزشتہ چار سال سے pending پڑاہے جبکہ اس بارے میں قانون تو روز کی بنیاد پر کیس سننے اور جلد فیصلہ کرنے کی تلقین کرتا ہے۔ قانون تو یہ بھی کہتا ہے کہ اگر ملزم عدالت میں پیش نہ بھی ہو تو فیصلہ جلد کرو۔ ایک لمبے وقفے کے بعدخصوصی عدالت 8 مارچ کو دوبارہ اس کیس کو سنے گی۔ دیکھنا ہو گا کہ عدلیہ کی جلد انصاف کی فراہمی کی حالیہ مہم کا جنرل مشرف کے خلاف عدالتوں میں التو ا مقدمات پر بھی کوئی اثر پڑتا ہے یا سابق ڈکٹیٹر ایک بار پھر ثابت کرنے میں کامیاب ہوں گے کہ وہ قانون سے بالاتر ہیں اور ان کا احتساب نہ تو پاکستان کی حکومت اور نہ ہی عدلیہ کر سکتی ہے۔سول حکومت اور عدلیہ کے اس امتحان کے ساتھ ساتھ نیب اور اُس کے سربراہ جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال کو بھی ایک بڑی مشکل نے آن گھیرا ہے۔ اپنے ایک حالیہ فیصلہ میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے نیب کو ہدایت دی ہے کہ وہ جنرل مشرف کے اثاثہ جات اور مبینہ کرپشن کے متعلق انکوائری کرے۔ نیب چیئرمین جو آج کل سیاستدانوں اور سرکاری افسران کے احتساب میں کافی سرگرم ہے، اس معاملہ میں دو ہفتہ گزرنے کے باوجود کوئی فیصلہ کرنے سے قاصر ہیں۔ اس بارے میں نیب اور جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال نے خاموشی اپنا رکھی ہے۔ اس کے جواب کے لیے بھی شاید ہمیں جنرل مشرف کے کسی آئندہ انٹرویو کا انتظار کرنا پڑے گا جس میں اُن سے پوچھا جا سکتا ہے کہ آخر اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلہ کے باوجود اُن کے خلاف نیب تحقیقات کیوں نہیں شروع کر رہا؟ کہیں کوئی دبائو تو نہیں!

تازہ ترین