آج پاکستان سمیت دنیا بھر میں ہولی کا تہوار جوش و خروش کیساتھ منایا جارہا ہے۔میں نے گزشتہ برس ہولی تہوار کی مناسبت سے اپنے خصوصی کالم میں تحریر کیا تھا کہ ہندو دھرم میں دیوالی کے بعد سب سے بڑا تصور ہونے والا یہ تہوار موسم بہار کی آمد کی خوشی میں منایا جاتا ہے، مذہبی روایات کے مطابق یہ تہوار نیکی کی بدی پر فتح کی یاد دلاتا ہے، دنیا کی تاریخ کے قدیم ترین تہوار کا آغازروایتی پوجا پاٹ کے ساتھ کیا جاتا ہے ، گھروں میں خصوصی پکوان پکائے جاتے ہیں، بھگوان کرشن اور رادھا کی شان میں گیت گائے جاتے ہیں ، فیسٹیول آف کلرز یا رنگوں کے تہوار کے نام سے پاکستان ، انڈیا ، نیپال، سری لنکا ، ماریشس کے علاوہ جنوبی افریقہ، برطانیہ اور امریکہ سمیت کئی مغربی ممالک میں بھی ہولی کی رنگارنگ تقریبات منعقد کی جاتی ہیں۔ہولی کا تہوار درحقیقت تین دنوں پر محیط ہوتا ہے ، پہلے دن رنگوں کی تیاری و سجاوٹ شروع کر دی جاتی ہے،ہولی کی شروعات خاندان کاسب سے بزرگ شخص اہل خانہ پر رنگ پھینک کر کرتا ہے، دوسرے دن پورنم (مکمل چاند) کے موقع پر روشنیاں جلائی جاتی ہیں ، تیسرے اور آخری دن ہولی کا تہوار اپنے عروج پر پہنچ جاتا ہے جب خوشیوں سے بھرپور لوگ ایک دوسرے پر رنگ پھینک کر نیکی کی بدی پر فتح کا جشن مناتے ہیں۔ ازل سے نیکی اور بدی کی نمائندہ قوتوں کے مابین تصادم رہا ہے، لیکن یہ حقیقت ہے کہ آخری جیت ہمیشہ سے نیکی کی ہی ہوتی ہے، اچھے لوگوں کو اپنی جدوجہد کے دوران بے پناہ مسائل اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے لیکن ایسا کبھی نہیں ہوسکتا کہ نیک قوتیں بدی کے مقابلے میں شکست کھا جائیں۔اگر دنیا کے مختلف تہواروں کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ ہر تہوار کے پس منظر میں کوئی نہ کوئی مثبت اخلاقی پیغام پنہاں ہے، ہولی کا تہوار بھی بدی کے خلاف جدوجہد کا درس دیتا ہے۔ہندو مذہبی کتاب بھگوات پرن کے مطابق ہرنیا کے شیپو بادشاہ کو پانچ خاص طاقتیں سونپی گئی تھیں لیکن اس نے دیوتا ہونے کا دعویٰ کرتے ہوئے رعایا سے اپنی پوجا کا مطالبہ کردیا، بادشاہ کے ظلم سے ستائے اسکے اپنے بیٹے پرہ لاد نے بغاوت کردی جس پر وشنودیوتا نے اوتار کی شکل میں زمین پر پدھار کر بادشاہ کے خلاف پرہ لادکی انتھک جدوجہد کو کامیابی سے ہمکنار کیا، سنسکرت زبان کے لفظ پرہ لادکا مطلب خوشیوں سے بھرپور ہے، بادشاہ کی مددگار پرہ لاد کی آنٹی ہولیکا کو نذر آتش کرنے کی یاد میں ہولی کے موقع پرہر سال عظیم الشان آگ بھڑکائی جاتی ہے۔ میں ایک بار پھر دہرانا چاہوں گا کہ ہولی سے منسوب یہ واقعہ بہت سبق آموز ہے کہ ہمارا خداوندِ تعالیٰ پر یقینِ محکم ہونا چاہئے،ہر جگہ موجود خدا سب سے بڑا ہے، خدا اپنے ماننے والوں کی مدد کرتا ہے اوربدی کی قوتیں بظاہر جتنی بھی زیادہ طاقتور کیوں نہ نظر آئیں، بالآخر شکست کھا جاتی ہیں۔اسی طرح ایک حکمران کو اپنا اقتدار عوام کو ستانے کی بجائے خدا کی امانت سمجھ کر بہتری کیلئے استعمال کرنا چاہئے۔ کرشن اور رادھا سے منسوب دوسری روایات کے مطابق ہولی کے موقع پر ایک دوسرے پر مختلف رنگ پھینک کر خوشیوں کا اظہار کیا جاتا ہے، ہندو برادری کے افراد ایک جگہ جمع ہوکر ایک دوسرے کے چہروں پر رنگ ملتے اور پھینکتے ہیں، اس روز ہندو برادری کے افراد ایک دوسرے کو تحفے تحائف بھی پیش کرتے ہیں، خاص پکوانوں میں کچوریاں ، قسم قسم کی مٹھائیاں اور کھانے پکائے جاتے ہیں۔ انگریزسامراج کی آمد سے قبل برصغیر کا معاشرہ مذہبی ہم آہنگی پر مبنی تھا جہاں بسنے والے ایک دوسرے کے مذاہب کا احترام کرتے ہوئے مذہبی تہوار ایک ساتھ منایا کرتے تھے، برصغیر کی مسلمان ثقافت میں لکھنوء کو ایک منفرد مقام حاصل ہے جہاں صدیوں سے ہندو مسلمان باہمی طور پر ہولی کی خوشیاں مناتے آرہے ہیں، اس حوالے سے بے شمار نامور مسلمان شعراکرام نے ہولی کے موضوع پر اپنے مثبت خیالات کا اظہار اپنی شاعری کے ذریعے کیا۔ پاکستان کی غیرمسلم اقلیتی کمیونٹی میں سب سے بڑی تعداد ہندوبرادری کی ہے جو سب سے زیادہ صوبہ سندھ میں بستے ہیں،تقسیمِ ہند کے موقع پرجب ہر طرف نفرت کے الاؤ بھڑک رہے تھے، محبت کا پیغام عام کرنے والے صوفیا کرام، سادھوؤں اور جوگیوں کی دھرتی سندھ میں امن و امان قائم تھا۔ قائداعظم کی گیارہ اگست کی تقریر کے جواب میں پاکستان کو اپنی دھرتی ماتا بنانے والے محب وطن ہندو شہری آج بھی تمام تر مسائل کےباوجود پاکستان کی ترقی و سربلندی کیلئے کوشاں ہیں۔ ملکی حالات کی بات کی جائے تو بدی کی نمائندہ انتہاپسند قوتوں نے یوں تو پورے ملک کے امن و امان کو متاثر کیا ہے لیکن کمزور ہندوؤں کو بھی نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔ ناپسندیدہ اقدامات کا مقصد اپنے ہی ہم وطنوں کے خلاف نفرت کا اظہار ہے جس کی اجازت دنیا کا کوئی مہذب معاشرہ نہیں دیتا۔میں سمجھتا ہوں کہ آج آزادی کے ستر سال گزر جانے کے باوجود ہمارے پیارے وطن پاکستان پر بدی کی قوتوں کی یلغار جاری ہے، دہشت گردی کیخلاف آپریشن ضرب عضب، کراچی رینجرز آپریشن، رد الفساد آپریشن کی کامیابی نے ثابت کردیا ہے کہ تمام تر ظلم و ستم کے باوجود بدی کی قوتوں کا مقدر بالآخرشکست ہواکرتا ہے۔سفارتی محاذ پرمخالفین کے ناپاک عزائم کو ناکام بنانے کیلئے ہمیں اپنی صفوں میں اتحاد برقرار رکھنا ہوگا،ہمیں اپنے معاشرے کو تقسیم کرنے کی بجائے بھائی چارے کو عام کرنا چاہئے، اپنے آپ کو ایک مضبوط اور متحد قوم میں ڈھالنے کیلئے ضروری ہے کہ ہم ملک میں بسنے والے تمام مذاہب کے ماننے والوں کا احترام یقینی بناتے ہوئے مذہبی ہم آہنگی ، برداشت، رواداری پر مبنی پاکستانی معاشرے کی تکمیل میں اپنا بھرپور کردار ادا کریں، میں سمجھتا ہوں کہ اس اعلیٰ مقصد کے حصول کیلئے ایک دوسرے کے مذاہب کی تعلیمات اور تہواروں کے اصل پیغام کو سمجھاجائے، میری نظر میں ہولی صرف رنگ پھینکنے کا نام نہیں بلکہ ایک درس ہے کہ کبھی کسی ظالم غاصب طاقت سے خوفزدہ نہ ہو ا جائے کیونکہ آخری فتح حق کو ہی حاصل ہوا کرتی ہے، ہو لی منانے کا ایک مقصدانسانوں کے درمیان فاصلے مٹا کر انہیں قریب لانا بھی ہے۔مجھے خوشی ہے کہ اب پاکستان میں وزیراعظم، صدر سمیت اپوزیشن رہنما بھی ہندو برادری کی خوشیوں میں شریک ہوتے ہیں۔ میں پاکستان ہندوکونسل کے توسط سے ہر سال کی طرح تمام ہموطنوں کومشترکہ ہولی منانے کی دعوت دینا چاہوں گا۔ کاش کہ وہ دن جلد آئے جب ہم سب ایک دوسرے پر خوشیوں کے رنگ پھینک کردنیا کو بتاسکیں کہ قائداعظم کا پاکستان شدت پسندی کو مکمل طور پرشکست دیتے ہوئے ایک بار پھر امن کا گہوارہ بن گیا ہے جہاں آئین کے مطابق تمام شہریوں کو مذہبی آزادی میسر ہے۔آؤ، ہولی منائیں۔