• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میاں صاحب کی پوزیشن روز بروز مضبوط ہوتی جارہی ہے‘ اگر انہیں سزائے موت سے دو چار کیا گیا تو وہ نئے بھٹو بن سکتے ہیں‘ قید کیا تو نیلسن منڈیلا بننے سے کوئی روک نہیں سکتا‘ ملک بدر کیا گیا تو خمینی کی طرح سامنے آسکتے ہیں۔ نادیدہ قوتیں بھی گومگو کا شکار ہیں ، اس لیے وہ بھی بہت دھیمے دھیمے سوچ سمجھ کر قدم اُٹھا رہی ہیں‘ جبکہ قبلہ میاں صاحب جلدی میں معلوم ہورہے ہیں شاید وہ چاہ رہے ہیں کہ جو کچھ ہونا ہے وہ گھڑی کی چوتھائی میں ہی ہوجائے لیکن اُن کا مقابلہ جہاں دیدہ قوت سے ہے۔ میاں نواز شریف کو پےدر پے ہزیمت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے‘ میاں صاحب بھی جلتے توے پر بیٹھے ہیں نہ ان کو اور نہ ہی ان کی زبان کو کسی طرح قرار آرہا ہے‘ 21 فروری کے سپریم کورٹ کے فیصلے نے انہیں سیاست میں کہیں کا نہ چھوڑا‘ انہیں وزارتِ عظمیٰ یا رکن پارلیمنٹ کے عہدے سے نا اہل کرنے کے بعد اب ایک اور فیصلے کی رُو سے وہ ہمیشہ کیلئے پارٹی عہدے سے بھی نا اہل ہوچکے ہیں۔ اب اُن کے حامیوں کی کئی طرح کی آرا سامنے آرہی ہیں‘ حالانکہ یہ ایسا نازک وقت ہے کہ میاں صاحب کو خود سوچ سمجھ کر فیصلہ کرنا ہوگا‘ بہت سوجھ بوجھ کا ثبوت دینا ہوگا‘ میاں صاحب اور اُن کے تمام ساتھی یہ بات خوب اچھی طرح جانتےا ور مانتے ہیں کہ موجودہ وقت بھی میاں نواز شریف کا نام ’’سکہ رائج الوقت‘‘ کی حیثیت رکھتا ہے‘ وہ وزارتِ عظمیٰ سے ہٹائے جانے کے باوجود اُسی پارٹی اور ملکی سیاست میں پوری طرح فعال رہے ہیں‘ اُن کا ہی حکم چل رہا تھا‘ کاش کہ وہ اپنی زبان کو اور اپنے آپ کو قابو میں رکھ سکیں اب بھی کچھ نہیں بگڑا‘ میاں صاحب کے سامنے متحدہ قومی مومنٹ کے بانی کی مثال موجود ہے جنہوں نے کبھی کسی عہدے کیلئے نہ ہی پارلیمنٹ کی رکنیت کیلئے خود کو پیش کیا لیکن اُسکے باوجود اُن کے ہر قسم کے حکم سے سرتابی کی جرأت کسی میں بھی نہیں تھی یہاں تک کہ حکمرانِ وقت بھی اُنکے سامنے مجبور ہوجاتے تھے‘ لیکن بدقسمتی سے انہیں اپنی مقبولیت اور اقتدار ہضم نہ ہوسکا اور وہ آپے سے باہر ہوگئےنہ انہیں زبان پر قابو رہا نہ ہی خود پر‘ انہوں نے حواس باختگی کا مظاہرہ شروع کردیا جس کے باعث اُنکے ہاتھوں سے سب کچھ نکل گیا جو اُن کے قدموں میں بیٹھنا عزت سمجھتے تھے وہی لوگ اُنکے سر پر سوار ہیں۔آج میاں صاحب کو جو بھی مقبولیت‘ اہمیت سیاست میں‘ قومی ملکی معاملات میں حاصل ہے وہ کسی دوسرے کو قطعی حاصل نہیں ہے‘ اب بھی موقع ہے کہ میاں صاحب ٹھنڈے پیٹوں سب قبول کرلیں اور پس پردہ رہ کر حکمرانی کریں ،شاید میاں صاحب کی سوچ درست ہو کہ اُن کے خلاف انتقامی کارروائی کی جارہی ہے‘ اُن کی سمجھ میں اس کڑے وقت میں کچھ نہیں آرہا کہ اُنہیں انتقام کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔
میاں صاحب آپ کو بہت سوچ سمجھ کر قدم اُٹھانے ہیں‘ عقل سے ماورا اقدامات نہیں اٹھانے چاہئیں، آنے والے الیکشن اب کچھ دُور نہیں اُن کا انتظار اور تیاری کریں اور کوئی قدم ایسا نہ اُٹھائیں جس سے آپ کی راہ میں رکاوٹیں حائل کردی جائیں ’’نہ آپ گھر کے رہیں نہ گھاٹ کے‘‘ آپ کے مخالف جن کا آپ کو بخوبی ادراک ہے وہ ’’آپ کی جوتی آپ کا ہی سر‘‘ کرنا چاہتے ہیں۔ جو ہورہا ہے بہت سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ہورہا ہے‘ آپ کو بھاری منڈیٹ دینے کی غلطی ایک بار ہوچکی اب نہیں ہوگی ۔ اب بھی وقت ہے کہ آپ اپنے ’’سکہ رائج الوقت‘‘ کو کھوٹا نہ ہونے دیں‘ اپنی دانش اور ہوشیاری سے صبر و استقامت کا دامن تھام لیں وہی آپ کیلئے فائدہ مند رہے گا ورنہ اگر آپ اپنی قوت کا مظاہرہ کرنے کیلئے سڑکوں پر نکل گئے تو سمجھو پھر آگے چلے ہی گئے ، آپس میں ٹکراؤ سے ملک میں ہنگامی صورت حال جنم لے گی‘ خون خرابہ نہ بھی ہو تو بھی بہت سی لاشیں تو گر سکتی ہیں‘ آگ‘ توڑ پھوڑ تو ہوسکتی ہے‘ پھر ملک کے وسیع تر مفاد میں بہت کچھ ہوسکتا ہے صبر و استقامت سے جو ’’آدھی ادھوری‘‘ ملنے کی امید کی جارہی ہے اُس سے بھی ہاتھ دھونے پڑسکتے ہیں۔
میاں نواز شریف کو اُن کے مشیرانِ گرامی اور حامیوں کو سمجھنا ہوگا کہ جو بساط بچھا دی گئی ہے اُس پر کس طرح چلنا ہے‘ کس طرح خود کو بچانا ہے‘ ورنہ ’’رہے نام اللہ کا‘‘ جو ہاتھ میں آنے کی امید ہے وہ بھی جاتی رہے گی۔ یہی وقت ہے جب صبر و برداشت اور حکمت سے کام لینا ہے ورنہ ’’سکہ رائج الوقت‘‘ کا تصور بھی جاتا رہے گا‘ اس ’’سکے کو بھنانے‘‘ اس سے منافع حاصل کرنے کا بھی یہی وقت ہے اگر اسے درست طریقے سے سنبھال لیا گیا تو آپ کے مخالفین منہ کے بل گر سکتے ہیں‘ آپ کی بے صبری آپ کو ہمیشہ ہمیشہ کیلئے سیاست کے میدان میں دفن کرادے گی۔ اللہ ملک و قوم کا محافظ ہو اور آنے والی آفات سے ہر طرح سے محفوظ رکھے ‘ آمین۔

تازہ ترین