چوہدری محمد ارشاد، سکھر
پانی انسانی زندگی کا نہایت اہم جزو ہے، بلکہ یوں کہا جائے کہ اس کے بغیر زندگی ممکن نہیں تو غلط نہ ہوگا۔ عوام کو صاف پانی کی فراہمی یقینی بنانا حکومت کی ذمہ داری ہے۔ ایک جانب تو عوام کو آلودہ اور مضر صحت پانی فراہم کیا جارہا ہے تو دوسری جانب غیر معیاری پانی کی فراہمی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بڑی تعداد میں منرل واٹر کمپنیاں بھی میدان میں آگئی ہیں ۔اس میں بھی غیر معیاری پانی فروخت کرنے کا انکشاف ہوا ہے، یہ بات اس وقت سامنے آئی ،جب میونسپل کارپوریشن کے شبعہ صحت کی جانب سے سکھر کے علاقے سائیٹ ایریا میں پانی صاف کر نےوالی کمپنیوں کےخلاف کارروائی کی گئی، اس دوران 3ایسی کمپنیوں کی موجودگی کا انکشاف ہوا ،جن کے پاس نہ تو کمپنی چلانے کا لائسنس تھا اور نہ ہی پانی کے معیاری ہونے کے حوالے سے لیبارٹری ٹیسٹ کا سرٹیفکیٹ تھا، ایک ہی فیکٹری میں 3مختلف ناموں سے منرل واٹر بھی تیار کیا جارہا تھا، چھاپے کے دوران میونسپل انتظامیہ نے فیکٹریوں سے پانی کے نمونے تو حاصل کرلئے لیکن حیرت انگیز طور پر غیر قانونی طور پر قائم فیکٹریوں کو نہ تو سیل کیا گیا اور نہ ہی کوئی گرفتاری عمل میں لائی گئی، جو کہ میونسپل کارپوریشن انتظامیہ کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے۔ سرکاری سطح پر شہریوں کو جو پانی فراہم کیا جارہا ہے وہ آلودہ اور مضر صحت ہونے کے باعث قابل استعمال نہیں جس کے استعمال سے بیماریاں پھیل رہی ہے پیسوں سے جو پانی خریدا جا رہا ہے وہ بھی معیاری نہیں، ایسی صورتحال میں عوام جائیں تو جائیں کہاں؟یہ کمپنیاں کئی سال سے کام کررہی ہیں اور لوگوں کو غیر معیاری پانی فروخت کرکے منافع کمارہی ہیں لیکن آج تک ضلعی و میونسپل کارپوریشن انتظامیہ کی جانب سے ان کے خلاف کوئی کارروائی عمل میں نہیں لائی گئی اور مذکورہ کارروائی بھی اس وقت کی گئی ،جب سپریم کورٹ آف پاکستان کی جانب سے تشکیل کردہ واٹر کمیشن سندھ کے مختلف شہروں کا دورہ کرکے پانی کی صورتحال کا جائزہ لے رہا تھا، جب ہی میونسپل کمشنر منصور سومرو کی نگرانی میں شعبہ ہیلتھ کی ٹیم نے سائیٹ ایریا میں منرل واٹر بنانے والی متعدد فیکٹریوں پر چھاپے مارے، ٹیم میں یوسی چیئرمین و سابق فوڈ لیبارٹری انچارج ڈاکٹر عبدالخالق جتوئی، ٹیکسیشن آفیسر خالد جتوئی، سینئر میڈیکل آفیسر ڈاکٹر طفیل احمد شیخ، او ایس ہیلتھ برانچ عطاء الرحمن شامل تھے۔ جن تین غیر قانونی طور پر چلنے والی فیکٹریوں کے خلاف کارروائی کی گئی ان کا نام تک ظاہر نہیں کیا گیا،فیکٹری مالکان کی عدم موجودگی پر میونسپل کمشنر نے عملے کو ہدایت کی کہ وہ تمام دستاویزات کے ہمراہ دفتر پہنچیں، تاکہ دستاویزات کی انکوائری اور قانونی کارروائی عمل میں لائی جاسکے، ٹیم نے منرل واٹر کے نمونے بھی حاصل کرلئے، جبکہ ٹیم کی جانب سے منرل واٹر فروخت کرنے کے لئے شہر میں لگائے جانیوالے پلانٹس کا بھی اچانک دورہ کیا، وہاں سے بھی پانی کے نمونے لے کر لیبارٹری میں بھیجے ہیں، تاکہ منرل واٹر کے نام پر جو لوگ مضر صحت پانی فروخت کررہے ہیں ان کو سزا دی جاسکے، ہر سال آلودہ اور مضر صحت پانی کے استعمال سے گیسٹرو، پیٹ کے دیگر امراض ، گردوں میں پتھری اور ہیپاٹائیٹس جیسے امراض پھیلنے کا خطرہ رہتا ہے، اڑھائی سال قبل گردوں کے امراض کے بڑے اسپتال (ایس آئی یو ٹی) کے ماہرین ڈاکٹروں نے یہ انکشاف کیا تھا کہ سکھر بچوں کے گردوں میں پتھری کے حوالے سے پورے ملک میں ریڈ زون ہے لیکن اس کے باوجود حکومت اور متعلقہ انتظامیہ نے اس کا کوئی نوٹس نہیںلیا اور آج بھی شہری آلودہ اور مضر صحت پانی پینے پر مجبور ہیں۔یہی وجہ ہے کہ لوگوں کی ایک بڑی تعداد دور دراز علاقوں میں نصب ہینڈ پمپوں، فلٹریشن پلانٹس اور زیر زمین پانی کی موٹروں سے پانی بھرکر لاتی ہے، شہریوں کی اس ضرورت کے پیش نظر سکھر و گرد و نواح کے علاقوں میں صاف پانی کے نام پر منرل واٹر کی فروخت عروج پر پہنچ گئی ہے، درجنوں کمپنیوں کی جانب سے منرل واٹر کی مختلف اقسام کی بوتلوں میں فروخت کے ساتھ شہر کے مختلف علاقوں میں دکانوں پر بھی اب کھلا پانی فروخت ہونے لگا ہے۔ یہ کمپنیاں فلٹر پلانٹس لگاکر زیر زمین بورنگ کے پانی یا واٹر ورکس کی پائپ لائنوں کے ذریعے پانی حاصل کرکے انہیں صاف کرکے شہریوں کو فروخت کرکے خطیر منافع کمارہی ہیں،حالانکہ سکھر و گرد و نواح کے علاقوں میں زیر زمین بورنگ سے حاصل کئے جانیوالے پانی میں آرسینک (سنکھیا) کی مقدار بہت زیادہ ہے۔ یہ کمپنیاں فلٹریشن پلانٹس کے ذریعے پانی صاف کرکے شہریوں کو فروخت کررہی ہیں جو کہ دیکھنے میں تو صاف ہوتا ہے، مگر اس کے متعلق اس بات کی تصدیق نہیں کی جاسکتی ہے کہ اس میں سے آرسینک (سنکھیا) مکمل طور سے ختم ہوگیا ہے یا نہیں اور منرل واٹر کی بوتل پر جو معیاری پانی ہونے کی تصدیق درج ہے یہ پانی اس کے مطابق ہے یا نہیں۔ اس حوالے سے میونسپل کارپوریشن انتظامیہ کی جانب سے پانی کا معیار چیک کرنے اور لگائے جانیوالے پلانٹس کی چیکنگ کےلئے کارروائی تو عمل میں لائی گئی ہے جو کہ خوش آئند بات ہے، مگر حیرت اس بات پر ہے کہ ان فیکٹریوں کو نہ ہی سیل کیا گیا اور نہ ہی ان کے ذمہ داران کو گرفتارکیا گیا ،وہاں اس وقت بھی کام ہورہاہے۔میونسپل کارپوریشن کی جس ٹیم نے کارروائی کی اس میں شامل سابق فوڈ لیبارٹری کے انچارج ڈاکٹر عبدالخالق جتوئی نے ’’جنگ‘‘ کو بتایا کہ میونسپل کارپوریشن کے پاس فیکٹری کو سیل یا کسی کو گرفتار کرنے کے اختیارات نہیں ہیں، کارروائی کے لئے ضروری ہے کہ مجسٹریٹ ساتھ ہو، یہ اختیارات مجسٹریٹ کے ہیں وہ ہی فیکٹری کو سیل کرسکتے ہیں اور وہ ہی گرفتاری عمل میں لا سکتے ہیں، میونسپل کارپوریشن ایسانہیں کرسکتی، غیر قانونی طور پر منرل واٹر کا کام کرنے والے عناصر کی روک تھام کے لئےآئندہ مجسٹریٹ کی موجودگی میں کارروائی کی جائے گی تب اس کے مثبت نتائج سامنے آ سکیںگے۔
سکھر کے شہری و عوامی حلقوں کا کہنا ہے کہ جب اس بات کی تصدیق ہوگئی ہے کہ 3فیکٹریوں کے پاس نہ تو لائسنس ہے اور نہ ہی لیبارٹری سرٹیفکیٹ ہے تو پھر ایسی فیکٹری کو سیل کردینا چاہیے تھا اور ان کے خلاف فوری طو رپر قانونی کارروائی کی جاتی ۔ میونسپل انتظامیہ کو چاہیے کہ مجسٹریٹ کی موجودگی میں اس طرح کی کارروائیاں عمل میں لاکر شہریوں کو پانی فروخت کرنے والی غیر قانونی طور پر قائم فیکٹریوں اور غیر معیاری پانی فراہم کرنے والی فیکٹریوں اور دکانوں کو بند کرکے گرفتاریاں عمل میں لائی جائیں، ان فیکٹریوں کو اگر سیل کرکے قانونی کارروائی نہ کی گئی تو پھر یہ اسی طرح اپنا کاروبار جاری رکھیں گی اور میونسپل کی ٹیم کی کارروائیاں بے مقصد اور کاغذی ثابت ہوکر رہ جائیں گی۔ حکومت اور میونسپل کارپوریشن انتظامیہ اگر سرکاری سطح پر پانی کی فراہمی ممکن نہیں بناسکتی تو کم از کم منرل واٹر کے نام پر لوگوں کو غیر معیاری پانی فروخت کرکے عوام کو دونوں ہاتھوں سے لوٹنے والوں کیخلاف تو کارروائی کرسکتی ہے ؟ انہوں نے وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ، قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف سید خورشید احمد شاہ و دیگر بالا حکام سے اپیل کی کہ لوگوں کو پینے کے صاف پانی کی فراہمی یقینی بنانے کے لئے ہنگامی بنیادوں پر موثر اقدامات کئے جائیں اور منرل واٹر کے نام پر شہریوں کو غیر معیاری پانی فروخت کرکے لوٹنے والوں کےخلاف بھی سخت کارروائی عمل میں لائی جائے، ایسی تمام کمپنیاں جن کے پاس نہ تو لائسنس ہے اور نہ ہی لیبارٹری سرٹیفکیٹ ، انہیں فوری طور پر سیل کیا جائے تاکہ شہریوں کو صاف و صحتمند پانی کی فراہمی ممکن ہوسکے۔