اطہر جاوید صُوفی، کراچی
70 برس کی پاکستانی فلمی صنعت کے اتار چڑھاؤ کا جائزہ لیا جائے تو گزشتہ دو دہائی سے پاکستان میں سینما کی بحالی کی کوششیں جاری ہیں۔ گزشتہ کئی برسوں سے ہم سنتے آرہے ہیں کہ پاکستانی فلموں کا سُنہری دور واپس آنے والا ہے، مگر ایک دو فلموں کی کام یابی کے بعد پھر فلاپ فلموں کی لائن لگ جاتی ہے۔ ماضی میں فلموں کی کہانی پر توجہ دی جاتی تھی، سماجی مسائل پر مبنی فلمیں کام یاب ہوتی رہی ہیں۔ کہانیوں میں خواتین کے پسندیدہ موضوع اور جذباتی مناظر پر مبنی فلمیں خواتین میں ہمیشہ مقبول رہیں۔ اس سلسلے کی قابلِ ذکر فلموں میں سہیلی ، کوئل، ہیررانجھا، چھوٹی بیگم، میرا کیا قصور، مہتاب، تہذیب، دوستی، بندش، بہارو پھول برسائو، دولت اور دنیا، امرائو جان ادا، صائقہ، سہاگ، من کی جیت، بشیرا، دلاں دے سودے، آس، دامن اور چنگاری، اولاد، قیدی، بغاوت، اناڑی، بہشت، آگ کا دریا، چاہت، دلگی، زرقا، یہ امن، سماج، میرا نام ہے محبت، لاکھوں میں ایک، شکوہ، اک گناہ اور سہی، نائیلہ، انورا، ہیرا اور پتھر، دل میرا دھڑکن تیری، آگ، آئینہ، قربانی، نوکر ووہٹی دا، ملنگی اور یہ دل آپ کا ہوا، جیسی مضبوط کہانی والی فلمیں بنتی رہی ہیں ، جس کی وجہ سے فلمی صنعت مستحکم رہی، جب کسی فلم نے کام یابی حاصل کی اور خصوصا فلم نے خواتین میں مقبولیت حاصل کی۔ فلم ناقدین نے کہنا شروع کردیا کہ اب پاکستانی فلموں کا دور واپس آگیا۔ لیکن ہوا یہ کہ روایتی سینما آہستہ آہستہ معدوم ہوتا چلا گیا اور اس کی جگہ غیر روایتی اور نئے فلم ساز آئے۔2007 میں شعیب منصور کی فلم ’’خدا کے لیے‘‘ واقعی ایک نیا سنگِ میل ثابت ہوئی۔ یہ فلم موضوع سے لے کر فلم بندی تک ایک جدت لیے ہوئے تھی اور نئے اور اچھوتے موضوع کی وجہ سے عوام اور تنقید نگاروں سے یکساں پزیرائی حاصل کی۔ نئے لوگ نئی سوچ کے ساتھ فلم سازی کی طرف مائل ہوئے۔ 2008 میں اگر 12 فلمیں ریلیز ہوئیں، تو یہ تعداد بڑھ کر 2017 میں قریب تیس فلمیں ریلیز ہوئیں۔ ان گزشتہ دس برسوں میں ریلیز ہونے والی فلموں کا اگر فلم کی عوامی سطح پر پزیرائی کے تناسب سے جائزہ لیا جائے تو ان سینکڑوں فلموں میں سے کوئی دس کے قریب فلمیں ایسی ہوں گی، جنہوں نے بیس کروڑ سے زائد کا بزنس کیا اور 2017 میں ریلیز ہونے والی فلم ’’پنجاب نہیں جاؤنگی‘‘ نے پچاس کروڑ کا بزنس کیا۔ فلم چوڑیاں (1998) اور یہ دل آپ کا ہوا (2002) اس سے قبل یہ سنگ میل عبور کر چکی تھیں۔ اسی عرصے میں 11 کے قریب فلموں نے دس کروڑ سے زائد کا ہندسہ عبور کیا۔ کام یاب ہونے والی فلموں کا بزنس واضح کرتا ہے کہ فلم بین فلم دیکھنا چاہتا ہے۔تاہم اگر کام یاب فلموں کے مقابلے میں ناکام فلموں کا جائزہ لیا جائے تو یہ فہرست کافی طویل ہوجاتی ہے۔ جدید سینما کو دستیاب افرادی قوت زیادہ تر ٹی وی ڈرامے سے فراہم ہورہی ہے اور شاید یہی وجہ ہے کہ فلم دیکھتے ہوئے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ طویل دورانیہ کا کوئی ڈراما سینما میں دیکھا جارہا ہے۔ فلم اور ٹی وی دو مختلف میڈیم ہیں۔ ڈراما دیکھنے کے لیے کچھ ادا نہیں کرنا پڑتا، جب کہ ملٹی پلیکس سینما پر ایک فلم دیکھنے کا خرچہ سات سو سے آٹھ سو فی فرد ہے اور فیملی کے ساتھ فلم دیکھنے کا مطلب تقریبا پانچ ہزار روپے کا خرچہ ہے۔ اب اگر پانچ ہزار روپے خرچ کرکے فلم بین کو ڈراما ہی دیکھنا ہے تو وہ کیوں نہیں اپنے گھر میں آرام سے بیٹھ کر ڈراما دیکھے۔ دورِ حاضر کی پاکستانی فلموں کا اگر جائزہ لیا جائے تو اس کی سب سے بڑی خامی اس کی کہانی ہے۔ بیش تر فلمیں موضوعات کے حساب سے تو اچھوتی تھیں، لیکن اسی موضوع کو کہانی میں ڈھالتے ہوئے فلم کے ٹیمپو کا خیال نہ رکھا گیا اور فلم میں کہانی انتہائی سُست رفتاری سے آگے بڑھتی نظر آئی۔دوسرا اہم پہلو بھیڑ چال۔ ماضی میں بننے والی فلموں پر عام طور پر ایک الزام لگتا تھا کہ وہ بھیڑ چال کا شکار ہیں،لیکن جدید سینما بھی غیر محسوس انداز میں اسی بھیڑ چال کا شکار ہوگیا۔ فلمیں زیادہ تر فلم سے زیادہ کسی این جی او کی دستاویزی فلم کا تاثر دیتی ہیں۔ اگر ایک کے بعد دوسری فلم میں مسلسل کچھ موضوعات پر ہی طبع آزمائی کی جائے گی، تو دیکھنے والوں کا اکتاہٹ کا شکار ہونا تو بنتا ہے۔ یقینا فلم ایک طاقت ور میڈیم ہے، کسی بھی پیغام کو پہنچانے کا!! لیکن ساتھ ہی یہ تفریح کا بھی ذریعہ ہے۔ فلم لکھنے والوں کو سمجھنا ہوگا کے ان کو اپنا پیغام گلاب جامن میں لپیٹ کر پہنچانا ہے۔ ورنہ فلمیں تنقید نگاروں سے تو داد تحسین وصول کرتی رہیں گی، لیکن عوامی سطح پر پزیرائی حاصل کرنے میں ناکام ہی رہیں گی۔گزشتہ برسوں میں ایسی بہت سی فلمیں ریلیز ہوئیں، جن کا عوام کو معلوم بھی نہیں ہوا کہ فلمیں کب ریلیز ہوئیں اور کب اتر گئیں، یہاں ان فلموں کا ذکر ان کے پروڈیوسر اور ڈائریکٹر کے لیے شاید دل آزاری کا سبب بن جائے۔ ۔فلم کی کہانی فلم کی جان ہوتی ہے اور ایک اچھی کہانی میں اچھوتا پن، سسپنس اور دل چسپی کے عناصر میں سے کسی ایک کی بھی کمی فلم بین کی بوریت کا باعث بنتے ہیں اور فلم کی کام یابی کا انحصار صرف اسی بات پر ہے کہ فلم دیکھنے والا اپنے دوستوں کو وہ فلم دیکھنے کا مشورہ دیتا ہے یا آگاہ کرتا ہے کہ میں تو پھنس گیا تھا تم نا دیکھنے جانا۔
پاکستان کے ابتدائی برسوں میں فلموں کی کام یابی میں فلم کی کہانی اسکرین پلے پر توجہ دی جاتی تھی۔ اس دور کے نامور کہانی نویسوں نے بہت ہی خوب صورت سبجیکٹ پر لازوال فلمیں لکھی ہیں ۔ اسی طرح فلم کی کام یابی میں موسیقی اور گانوں کی مقبولیت فلم کو دیکھنے والوں میں مقبول بناتی تھی، جب کہ آج جدید تکنیکی سہولیات کے ساتھ جدید آلات سے کمپوزنگ کرنے کے باوجود موسیقی میں دل کو چھولینے والی کوئی بات دکھائی نہیں دیتی، جب کہ ماضی کے گیت آج بھی سننے والوں کے کانوں میں رس گھول رہے ہیں۔ اگر ہم بھارتی اور ایرانی فلموں کی مقبولیت کا جائزہ لیں تو وہاں سماجی و خواتین کے مسائل پر مبنی فلمیں بنانے میں جدید ٹیکنالوجی کا سہارا لیتے ہوئے فلموں کو معیاری بناتے ہیں، جو کسی حد تک کام یابی حاصل کرتی ہیں۔ ہمارے ہاں ٹیلنٹ کی کوئی کمی نہیں اور یہی وجہ ہے کہ جدید سینما کے دور میں دو پاکستانی فلمیں آسکر ایوارڈ لینے میں کام یاب ہوئیں، جس سے ثابت ہوتا ہے کہ اچھے موضوعات پر فلمیں بنا کر نا صرف مقامی بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی اس انڈسٹری کا لوہا منوایا جاسکتا ہے۔ ماضی میں فلم کی کہانی لکھنے والے اوریجنل کہانی لکھتے تھے، جس کے بعد بعض فلم رائٹرز کو کابل لے جایا جانے لگا اور بھارتی فلموں کی کہانی لکھوانے کا سلسلہ شروع ہوگیا، جس کی وجہ سے فلم رائٹرز نے بھی اپنی ذہنی صلاحیتوں سے استفادہ کرنا چھوڑدیا، بلکہ کہانیاں چربہ کی جانے لگیں، جس کی وجہ سے پاکستانی فلمی صنعت میں اچھے اور حقیقی موضوعات پر کہانی لکھنے والوں کا فقدان ہونے لگا، جس کا اثر پاکستانی فلمی صنعت پر بہت برا پڑا۔ کہانی اسکرپٹ اور اسکرین پلے کمزور ہوتا چلا گیا۔ فلمیں فلاپ ہونے لگیں۔ ماضی میں ایک دور میں یکساں موضوعات پر بھی فلمیں بنائی گئیں، گجروں بدمعاشوں، جٹوں کے نام سے فلمیں بننے لگیں، جس سے فلم بین جلد ہی اکتا گئے ۔ شروع کی چند فلموں کے بعد بعض فلم سازوں نے اپنے دور کے غنڈوں، بدمعاشوں کے نام سے بھی فلمیں بنائیں اور انہیں ہیرو بنا کر پیش کیا۔ یہ سب موضوعات حقیقت سے منفی تھے۔ آج بھی اچھے موضوعات پر بنائی جانے والی فلمیں پسند کی جاسکتی ہیں۔ اگر فلم رائٹر مضبوط کہانی لکھیں، فلموں کی کام یابی میں پہلی اینٹ مضبوط کہانی ہی ہوتی ہے۔