• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ناقابلِ فراموش


ناقابلِ فراموش

میرے کزن، حمّاد بھائی ،پانچ بھائی تھے، بہن کوئی نہیں تھی۔ یہ ان دنوں کی بات ہے، جب ان کی نئی نئی نوکری لگی تھی اور وہ بہت خوش تھےکہ اب والدین کی خدمت کریں گے، لیکن بدقسمتی سےانہیں ملازمت ملنےکے دو ہفتے بعد ہی ان کے والد کا انتقال ہو گیا۔ ان کی والدہ نے شوہر کی موت کا گہرا صدمہ لیا اور چھے ماہ بعد ان کا بھی ہارٹ فیل سے انتقال ہو گیا، تو گھر کی ساری ذمّے داری حمّاد بھائی کے کندھوں پر آگئی۔ ان سے بڑے ایک بھائی تھے، جنہیں گھر کے کاموں میں کوئی دل چسپی نہیں تھی۔ نوکری کے ساتھ ساتھ حمّاد بھائی سودا سلف لاتے، کھانا پکاتے اور چھوٹے بھائیوں کے معاملات پر نظر بھی رکھتے۔یوں کہیے، وہ اکیلے ہی پورے گھر کی ذمّے داریاں نبھا رہے تھے۔ایک روز بازار سودا سلف خریدنے گئے، توان کی ملاقات اسکول کے زمانے کے ایک دوست، عزیرسے ہو گئی، وہ عرصے بعد ان سے ملا تھا، اس نے بتایا کہ مارکیٹ میں اس نے گوشت کی دکان کھولی ہے، جو اچھی چل رہی ہے۔ حمّاد بھائی نے اس کی دکان پر جا کر چائے پی، صاف ستھری اور تازہ گوشت کی دکان دیکھ کر حمّادبھائی نے وہیں سے گوشت خریدنا شروع کر دیا۔ ان دونوں میں ایک قدرِ مشترک ’’حسن پرستی ‘‘تھی، اچھا لباس، خوب صورت چہرے اور خوشبودونوں ہی کی کم زوری تھی۔ حمّاد بھائی نہ صرف مردانہ حسن و جمال کا پیکر تھے،بلکہ اپنی وجاہت پر نازاں اور گھمنڈی بھی تھے۔ گو، عزیر عام شکل و صورت کا مالک تھا، مگر اچھا ذوق رکھتا تھا۔ اس کی نئی نئی شادی ہوئی تھی۔ اپنی بیوی کے بارے میں اس نے بتایا تھا کہ ایک شادی کی تقریب میں جب وہ اپنی فیملی کے ساتھ بھارت گیا تھا،تو اس کی خوب صورتی پرفریفتہ ہو گیا،اورباہمی رضامندی سے جھٹ پٹ شادی ہو گئی۔حمّاد بھائی کو اس پر بڑا رشک آیا، گھر آکر بڑے بھائی فیاض پر زور دیا کہ وہ بھی شادی کرلیں تاکہ گھر میں کوئی عورت آجائے۔ بڑے بھائی، حمّاد سے چار سال بڑے تھے، انہوں نے جواب دیا کہ ’’میں ابھی ملازمت میں ترقی کےلیے کورسز مکمل کر رہا ہوں، میرا شادی کا کوئی ارادہ نہیں ہے، اگر تم گھر کے کاموں سے اُکتا گئے ہو تو تم شادی کر لو۔‘‘ فیّاض بھائی سے اجازت ملنے پر حمّادبھائی نے اپنے دوست عزیر ہی سے ذکر کیا کہ وہ ان کے لیے لڑکی تلاش کرنے میں مدد کرے۔ چند روز بعد عزیز نے حمّاد بھائی کی گھر میں دعوت کی اور اپنی بیوی سے ملوایا تو حمّاد بھائی اس کی حسین و جمیل بیوی دیکھ کر دنگ رہ گئے۔جب کھانےوغیرہ سے فارغ ہوکر وہ جانے لگے، تو عزیرکی بیوی، کنول نے حمّاد بھائی سے کہا کہ ’’آپ اپنے لیے رشتہ ڈھونڈ رہے ہیں، اگرمناسب سمجھیں تومیںاپنی چھوٹی بہن ،ثروت سے آپ کی شادی کے لیے اپنے گھر والوں سے بات کروں؟‘‘

حمّاد نے اس وقت مسکرا کر بات ٹال دی کہ بھارت جاکر لڑکی دیکھنا، پسند کرنا اور پھرشادی کے بعد بار بار بھارت جانا ان کے لیے مشکل تھا، لہٰذا انہوں نے اس وقت صرف یہی کہا کہ اپنے بڑے بھائی سے مشورہ کرکے بتائوں گا۔ گھر آکر بھائی سے ذکر کیا۔ وہ چاہتے تھے کہ پہلے چھوٹے بھائی تعلیم مکمل کرکے ملازمتوں پر فائز ہوجائیں، پھر شادی کے بارے میں سوچا جائے، اس لیے انہوں نے یہ کہہ کر ٹال دیا کہ پہلے ہم لڑکی دیکھیں گے، پھر فیصلہ کریں گے۔ یہ بات جب حمّاد بھائی نے عزیر کو بتائی، تو اس نے کہا کہ ’’وہ مذہبی لوگ ہیں، اپنی لڑکی، غیر مردوں کے سامنے کیسے لاسکتے ہیں، وہ تو مجھے بھی نامحرم سمجھتے ہیں، اپنی بچّیوں کو میرے سامنے کبھی نہیں لائے۔ اس معاملے میں تمہیں میری بیوی کی بات پر تکیہ کرنا ہو گا کہ وہ ہوبہو اس جیسی ہے اور میری بیوی واقعی خوب صورت ہے، یقینی طور پر اس کی بہن بھی حسین ہو گی۔ ‘‘حمّاد بھائی کے دل میں ارمان جاگ اُٹھے کہ اگر وہ کنول جیسی ہے، تو ان کے تونصیب سنورجائیں گے۔ ادھرعزیر کی بیوی، کنول نے اپنے شوہرکو اُکسانا شروع کر دیا کہ بھارت چلے۔ عزیر نے جب حمّاد بھائی کو بھی ساتھ چلنے کی آفر کی، تو وہ بھی ادھر اُدھر سے قرضہ لے کر ان کے ساتھ ہی بھارت پہنچ گئے۔ عزیر کے سسرال والوں نے ان کی خوب خاطر مدارت کی، انہیں بہت گھمایا پھرایا اور تحائف خرید کردیئے۔ حمّاد بھائی کی کوشش تھی کہ وہ ایک نظر ثروت کو دیکھ لیں، لیکن ان کے یہاں حقیقتاً پردے کی شدید پابندی تھی، گھر کی عورتیں کسی کے سامنے نہیں آتی تھیں۔ البتہ اس کے ہاتھ کے پکے کھانے انہیں خوب کھلائے گئے۔ بازار میں شاپنگ کے دوران وہ دو تین بار، بہن کے ساتھ آئی بھی، مگر صرف آنکھیں ہی کھلی نظر آرہی تھیں، ہاتھ پائوں تک موزوں اور دستانوں میں چھپے ہوئے تھے۔ وہ لوگ بھی حمّاد کی عادات کا جائزہ لے رہے تھے، جب وہ مطمئن ہوگئے، تب شادی کی بات چھیڑی، حمّاد بھائی پہلے ہی ذہنی طورپر تیار ہوکر گئے تھے۔ قصّہ مختصر، چند قریبی رشتے داروں کو بلا کر انہوں نے نکاح کی سادہ سی تقریب میں ایک دوسرے کو رشتہ ازدواج میںمنسلک کردیااوراپنے گھر کے اوپر والے ایک کمرے کو سجا کر ان کے لیے مختص کردیا کہ رات کھانے کے بعد رخصتی ہے۔حمّاد بھائی نے دل کھول کر شادی کی شاپنگ کی، دلہن کی منہ دکھائی کے لیے قیمتی انگوٹھی خریدی۔ پھر جب کمرے میں آکر گٹھری بنی دلہن کا گھونگھٹ اٹھایا، تو انہیںجیسے ایک دم جھٹکا سا لگا، ان کے منہ سے پہلا جملہ یہ نکلا ’’تم کون ہو.....؟‘‘

بے چاری دلہن گڑبڑا گئی، وہ کسی بھی اعتبار سے اپنی بہن کنول کے ہم پلّہ نہ تھی۔ رنگت گہری سانولی، ناک ضرورت سے زیادہ موٹی اور جسم فربہ ۔ حمّاد بھائی کے ہاتھ سے گھونگھٹ چھوٹ گیا، تو دلہن رونے لگی اور کہنے لگی کہ’’میں ہی آپ کی دلہن ہوں،آپ کے ساتھ کوئی مذاق نہیں ہوا، یہ تو اللہ کے کام ہیں کہ کسی کو حسین بنا دے اور کسی کو کم شکل، اگر میری بہن خوب صورت ہے، تو اس میں میرا کیا قصور؟‘‘ حمّادبھائی نے خون کے گھونٹ پی کر اسے سنبھالا، جب اس کے آنسو تھم گئے، تو اسے انگوٹھی پیش کی۔ وہ اس کی انگلی میںفٹ نہیںآئی، تو دلہن نے اسے اپنی چھوٹی انگلی میں پہن لیا اور خوش ہو گئی، مگر حمّاد بھائی خوش نہیں تھے، انہوں نے صبح سویرے اٹھ کر عزیر کو الگ بلا کراس پہ جی بھر کے اپنا غصّہ اتارا۔ وہ قسمیں کھاتا رہا کہ’’مجھےثروت کی شکل و صورت کے بارے میں کچھ پتا نہیں تھا، کنول مجھے یہی بتاتی تھی کہ اس کی چھوٹی بہن اس سے ملتی جلتی ہے۔میں نے بیوی کی بات کو سچ سمجھ لیا تھا۔‘‘

بہرحال، حمّادبھائی نے صورت حال سے سمجھوتا کر کے ثروت کو قبول کر لیا اور اسے لے کر پاکستان آگئے۔ ماں کی نصیحت یا د آنے پر اس رشتے کو احترام تو دے دیا، مگر دل میں جگہ نہیں دے پا رہے تھے۔ زیادہ تر گھر سے باہر رہنے لگے، ثروت کو سختی سے منع کر دیا تھا کہ وہ اپنی بہن سے نہیں ملے گی اور خود بھی عزیر سےدوستی ختم کردی تھی۔ وہ کہیں بازار میں مل جاتا، تو منہ پھیر کر گزر جاتے۔ عزیر سمجھ گیا تھا کہ وہ اس سے ملنا نہیں چاہتے۔ اس نے بھی اپنی بیوی سےکہہ دیا تھا کہ اگر اس نے بہن سے ملنے کی کوشش کی تو حمّاد دونوں کی بے عزتی کرے گا۔ لہٰذا وہ اس رشتے کو وہ بھول جائے، کیوں کہ بہن کے معاملے میں اس نے حمّاد کو دھوکا دیا تھا۔

پھر رفتہ رفتہ حمّادبھائی کوگھر کابدلا نقشہ دیکھ کر احساس ہونے لگا کہ یہ چیزوں کی ترتیب و نفاست ،ان کی بیوی، ثروت کے سگھڑاپے کا منہ بولتا ثبوت ہے۔وہ نہ صرف ان کے تمام کام کرتی بلکہ اپنے جیٹھ اور دیوروں کے بھی سارے کام کرتی۔ سارا دن گویامشینی اندازمیںگزار دیتی۔ پنج وقتہ نمازی تھی، اس نے اپنے دیوروں کو بھی نماز پڑھنے کی تلقین کرکے مسجد بھیجنا شروع کر دیااور ان کے ساتھ فیاض بھائی نے بھی مسجد جانا شروع کر دیا۔اس کے بعدحمّاد بھائی بھی فجر کی نماز پہلے گھر اور پھر مسجد جا کر ادا کرنے لگے، چاروں بھائی جب گھر آتے، تو گرم ناشتا، دھلے استری شدہ کپڑے اور بھابی کا پرتپاک لہجہ ان کو ہشاش بشاش کر دیتا ۔ چند ماہ کے اندر گھر کی کایا ہی پلٹ گئی تھی، ثروت، فربہ ضرور تھی مگر اس میں غضب کی پھرتی تھی، خود بھی صاف ستھری اور ہنستی مسکراتی رہتی ،گھر کا ماحول بھی ایسا ہی رکھنا اس کی فطرت میں شامل تھا۔ فیاض بھائی اس کی تعریفیں کرتے نہیں تھکتے تھے اور دیور گھرمیں داخل ہوتے ہی ’’بھابی، بھابی‘‘ کی پکار شروع کر دیتے، وہ سب کے ناز نخرے ایک ذمّے دار اور پیار کرنے والی ماں کی طرح اٹھاتی۔ ایک سال بعد ثروت نے ایک بیٹی کو جنم دیا، توگھرکی رونق میں مزیداضافہ ہو گیا۔ بچّی، ماں کی طرح سانولی تھی، مگر باپ سمیت سب کی آنکھ کا تارا تھی۔ اب حمّادبھائی کو احساس ہو گیا تھا کہ محبت محض صورت و شکل کی پوجا کا نام نہیں، وہ اچھے کردار سے بھی ہو جاتی ہے اور جب اپنی اولاد کا معاملہ ہو، تو چاہے وہ خوب صورت نہ ہو، مگر دنیا بھر سے پیاری لگتی ہیں، انہوںنے یہ سبق سیکھ کر اپنے روّیوں میں تبدیلی کر لی اور پھرانہیں ثروت سے واقعی محبت ہو گئی۔

ایک روز حمّاد بھائی بازار میں واقع مسجد میں، جمعے کی نماز پڑھنے گئے، تو وہاں انہیں عزیر مل گیا۔ حمّاد بھائی کے دل سے اس کے لیے تلخی دھل چکی تھی، انہوں نے خود بڑھ کر عزیر کو سلام کیا اور گلے لگا لیا۔ وہ ہکّا بکّا رہ گیا۔ بہرحال، نماز کے بعد کچھ دیر کے لیے وہ ایک ساتھ بیٹھے، عزیر نے بتایا کہ ’’میری بیوی کنول چند روز قبل سیڑھیوں سے گرگئی تھی، ان دنوں بستر پر ہے، اس لیے پریشان ہوں۔کنول نہایت جلدباز اور لاپروا ہے، کوئی کام ڈھنگ سے نہیں کرتی، دو دفعہ قدرت نے اسے اولاد کی خوش خبری دی، مگر دونوں بار اس کا حمل گرگیا، اسے گھر کے کاموں سے بھی دل چسپی نہیں ہے، اس لیے کام بار بار بگڑ جانے پر میرے گھر والوں نے بھی اسے اس کے حال پر چھوڑ دیا ہے۔اسے سوائے ٹی وی دیکھنے اور ہارسنگھارکے کسی اور معاملے سے دل چسپی ہی نہیں، اس کی فضول خرچی کی وجہ سے میں کچھ بچت بھی نہیں کرپاتا۔ اس لیے کچھ عرصے بعد، دکان بھی ادھار بڑھ جانے پر بند کرنا پڑگئی۔ دوبارہ دکان کھولنے کے ارادے سے آج دو سال بعد یہاں آیا ہوں۔‘‘ عزیر کی یہ باتیں سن کر حمّاد کی آنکھیں کھل گئیں، حسن پرستی کی رہی سہی چاہت بھی کہیںظ اڑنچھو ہوگئی۔ دراصل کنول سمجھتی تھی کہ وہ حسین ہے، ا س لیے اس کے ناز نخرے اٹھانا سب پر لازم ہے۔

آج اس واقعے کو بیس سال ہو چکے ہیں ، ہم سب ثروت بھابی کی تعریفیں کرتے نہیں تھکتے۔ انہو ں نے اپنی بیٹی کی بھی نہایت اچھی پرورش کی ہے، اس کی شادی طے ہو چکی ہے، اللہ تعالیٰ سے دعا کی ہے کہ وہ بھی اپنی ماں کی طرح سب سسرال والوں کے دِلوں پر راج کرے۔ آمین۔(روبینہ عزیز، کراچی)

ناقابلِ فراموش

مَیں بچپن میںبہت شرارتی تھی۔ کبھی میری کسی حرکت سے نقصان ہوجاتا، تو والدہ کڑی سزا دیتی تھیں، اسی لیے ان سے گھبراکر میں زیادہ تر گھر کے باہر ہی کھیلتی تھی۔ طبیعت بھی کچھ ایسی پائی تھی کہ محلّے کے بچّوں کے ساتھ کھینا کودنا مجھے پسند نہیں تھا۔ہمارے گھر کے قریب ہی ایک مسجد تھی، جس میں پکّی منڈیروں والا ایک کنواں تھا۔ میں اکثر اس کنویں کی منڈیر پر بیٹھ جاتی اور پانی کی سطح میں اپنا عکس دیکھ کر خوش ہوتی، مجھے مسجد کی منڈیر پر بیٹھنا اچھا لگتا تھا، گلی سے چھوٹے بڑے کنکر اپنی قمیص کی جھولی میں بھر کر منڈیر پر بیٹھ جاتی اور ایک ایک کنکر کنویں میں پھینکتی رہتی اور پھرپانی میں دائرے بنتے دیکھ کر خوش ہوتی۔ ایک روزمَیں ظہرکے بعد گھر سے نکلی، اس وقت مسجد خالی تھی۔ سردیوں کے دن تھے، عصر کی نماز میں وقفہ کم تھا، میں چھوٹے بڑے پتھریلے کنکر لے کر کنویں پر پہنچ گئی، اور ابھی پہلا کنکر پھینکنے کے لیے ہاتھ اٹھایا ہی تھا کہ مسجد کی گلی سے کچھ لوگوں کی باتیں کرنے کی نامانوس سی آوازیں آنے لگیں۔ میں سمجھی کہ شاید عصر کی نماز کے لیے نمازی آرہے ہوں گے، کہیں مجھے اس حرکت پر ڈانٹ نہ پلادیں۔ اس ڈر سے جلدی جلدی جلدی کنویں میں کنکر پھینکنے لگی، چند کنکر بچ گئے تو انہیں، صفوں والی جگہ پر تاک کر اِدھر ادھر اچھال کر تیزی سے کنویں کی منڈیر سے اترنے لگی، مگر زمین پر پیر ٹکنے سے پہلے ایک جھٹکے سے اچھل گئی،پھر یوں محسوس ہوا، جیسے کسی نے میرے بازو جکڑکر کنویں کے بیچوں بیچ الٹا لٹکا دیا ہو۔ مَیں تقریباً تین چار منٹ تک کنویں کے اندر معلّق رہی، یوں لگ رہا تھا کہ کوئی اَن دیکھی قوت مجھے اوپر، نیچے کررہی ہے۔ خوف سے میری گھگھی بندھ گئی تھی، اور میں مسلسل ’’اللہ مجھے بچالے‘‘ کی صدائیں لگارہی تھی۔ بالآخراس نادیدہ قوت نے مجھےکئی بار اچھالنے کے بعد گیند کی طرح اوپر اچھال دیا، اور میں مسجد کی صفوں کے درمیان آگری۔ میرے حواس قابو میں نہیں رہے تھے۔ کچھ دیر نیم بے ہوشی کی حالت میں پڑی رہی، جب نمازی مسجد میں داخل ہونے لگے، تو کپڑے جھاڑ کر اٹھ بیٹھی اور تیزی سے مسجد سے نکل کر آہستہ آہستہ گھر پہنچ گئی، امّی نے مجھے ڈولتے ہوئے دروازے سے داخل ہوتے دیکھا، تو بھاگ کر سہارا دیا، انہوں نے میرا حلیہ دیکھا، تو کہنے لگیں۔ ’’یہ کیا حال بنا رکھا ہے، تیرے کپڑے کیسے گیلے ہوئے، توکہاں چلی گئی تھی؟‘‘تب مجھے یاد آیا کہ میں کنویں میں معلق ہی نہیں ہوئی تھی، بلکہ مجھے کئی بار ڈبویا بھی گیا تھا، شاید اس وقت میں ہوش میں نہیں رہی ہوںگی۔ میں نے جھوٹ بول دیا کہ’’ کسی نے بالکنی سے پانی پھینکا تھا، میں ادھر سے گزر رہی تھی، اس لیے گیلی ہوگئی۔‘‘ امی نے کپڑے بدلنے کے بعد مجھ سے چائے بنانے کے لیے کہا،لیکن میرا تو حال ہی عجیب ہورہا تھا، وہ ہول ناک منظر جب مجھے کنویںمیں الٹا لٹکایا گیا تھا، آنکھوں سے دور نہیں ہو رہا تھا، پھر ربڑ کی گڑیا کی طرح اچھال کر مسجد کے صحن کے پاس پھینک دینا، کوئی خواب کا منظر نہیں تھا، یہ ساری کیفیات اور مناظر میرا ذہن چکرا رہے تھے، میں اپنے پلنگ پر گر گئی اور پھر کوئی ہوش نہیں رہا۔

کچھ دیر بعد خود ہی چائے بنا کر امّی جب مجھے جگانے آئیں، تو انہیں پتا چلا کہ مجھے توتیز بخار چڑھا ہواہے۔ پلنگ سے اٹھنا، تو درکنار، میں تو آنکھیں بھی نہیں کھول پا رہی تھی۔ جیسے تیسے رات گزرگئی،مگربخار نے اترنے کا نام نہیں لیا، تو ابو مجھے اسپتال لے گئے۔ وہاں کئی ٹیسٹ کیے گئے۔ کچھ پریشانی کی بات سامنے نہ آئی، البتہ دوائیں کھانے سے تھوڑا افاقہ ضرورہوا، مگر رات کے دو بجے میں چیخ مار کر اٹھ بیٹھی۔ ایسا محسوس ہورہا تھا کہ جیسے کوئی میرا دایاں ہاتھ مروڑ رہا ہو۔ امّی بھی اٹھ گئیں، انہوں نے مجھے تھپکی دی، پانی پلایا، میں بار بار اپنا ہاتھ دبا رہی تھی، صبح تک مجھے پھر تیز بخار چڑھ گیا اور میری حالت غیر ہونے لگی۔ ابو نے پھر دفتر سے چھٹی لے کر اسپتال کا رخ کیا، مگر ڈاکٹرزنے ہر چیز نارمل بتا کربخار کی دوا دے کر مجھے گھر بھیج دیا۔ میں مسجد میں ہونے والے واقعے کے بارے میں امّی کو بتانا چاہتی تھی،مگر جب بھی زبان کھولتی،تو وہ تالو سے چپک جاتی، یوں محسوس ہوتا کہ کوئی نادیدہ قوت مجھے ایسا کرنے سے روک رہی ہے۔بہرحال، یہ حالت مجھ پر ایک ہفتے طاری رہی، اس دوران رات کے کسی بھی پہر اچانک ڈر کر ااٹھ جاتی اور میرے ہاتھ کا دردبڑھ جاتا۔ دوائیں اور ڈاکٹر بدلنے سے کوئی افاقہ نہیں ہورہا تھا ۔ رشتے دار عیادت کے لیے آتے،تو امّی ان سے یہی کہتیں کہ’’ کسی نےاتنی سردی میںپانی سے بھری بالٹی اس پر الٹ دی ہے،تب سے بخار چڑھا ہے۔‘‘ایک روز ہمارے ایک رشتے دار نے مشورہ دیا کہ خالہ زینب کو بھی بلا کر دکھا دیں، شاید ان کے دَم کرنے سے شفا مل جائے۔

خالہ زینب میری امّی کی سگی خالہ تھی۔ انہوں نے کم سِنی میں قرآن حفظ کرکے خود کو دینی خدمت کے لیے وقف کرلیا تھا۔ بچّوں کو دینی تعلیم مفت دیتی تھیں،مشہور تھا کہ ان کے پاس جنّات کے بچّے بھی پڑھنے آتے ہیں۔ قصہ کوتاہ، امّی نے انہیں گھر بلوا کر مجھے دکھایا،توچیک کرنے کے بعدمسکرانے لگیں۔ کچھ دیر تک وظائف پڑھ کر پھونکتی رہیں، پھر اپنے ہاتھ سے پانی پلایا، اس پانی میں اللہ جانے کیسا جادو تھا کہ دس پندرہ منٹ ہی میں میرا بخار اتر گیااور امّی سے کچھ کھانے کو مانگنے لگی۔حالاں کہ چھے روز سے میں نے تھوڑا بہت دودھ پینے کے علاوہ کچھ نہیں کھایا تھا۔خیر،پیٹ بھر کے دودھ، دلیا کھایا۔ گھر میں سب میرے اتنی جلدی بستر سے اٹھ بیٹھنے پر حیران ہورہے تھے۔ مَیں گھنٹہ بھر میں چلنے کے قابل ہوگئی، خالہ زینب اس دوران امّی کے کمرے میں بند ہوکر وظیفہ پڑھتی رہیں،تقریباً دو گھنٹے بعد باہر آئیں، میرے پاس آکر سر پر ہاتھ رکھا اور کہنے لگیں،’’ بیٹا! تم مسجد کیوں جاتی ہو؟‘‘ میں گڑبڑا گئی۔ خالہ نے کہا، ’’آئندہ وہاں مت جانا۔‘‘ امّی نے حیران ہوکر ان کی طرف دیکھا،تو خالہ زینب نے کہا ’’یہ اکثر مسجد جاتی رہتی ہے اوروہاں کنویں کی منڈیر پر بیٹھ کر اندر کنکریاں پھینکتی رہتی ہے۔ یہ جمعرات کوبھی وہاں گئی تھی، اس کے ہاتھ میں بیر اور کنکر، پتھر تھے،جو اس نے پہلے کنویں میں پھر کچھ نماز پڑھنے کی جگہوں پر اچھالے، وہاں جِنوں کی ایک جماعت، نماز کی ادائیگی کےلیے جمع ہورہی تھی، پہلے تو وہ برداشت کرتے رہے، پھر ان میں سے ایک نے غصّےمیں آکر اسے کنویں کے اندر الٹا لٹکا دیا، پھر پانی میں ڈبو کر باہر اچھال دیا، وہ تو اسے اندر ڈبو دیتا، مگر ایک بزرگ جِن نے مداخلت کرکے اس کی جان بچا لی،اور اسے کنویں کے باہر اچھال دیا، اسے اس وقت چوٹ کا احساس نہیں ہوا تھا، مگر بعد میں اس کی حالت بگڑ گئی۔ مگر جس جِن نے اسے کنویں میں ڈبویا تھا،اس نے اس شرط پر اس کی جان بخشی کردی کہ آئندہ یہ مسجد کا رخ نہیں کرے گی۔‘‘میں احمقوں کی طرح منہ پھاڑے خالہ زینب کی باتیں سن رہی تھی، میں نےمسجد جانے اور کنویں میں الٹا لٹکنے کے واقعے کا ذکرکسی سے نہیں کیا تھا۔ واقعی، اس روز میرے پاس بیر بھی تھے اور جھولی میں بڑے سائز کی پتھریلی کنکریاں بھی۔خالہ زینب نے میری طرف سوالیہ نگاہوں سے دیکھا، تو میں نےاعتراف کرلیا کہ میرے ساتھ بالکل ایسا ہی ہوا تھا۔ امّی نے اس وقت تو میری حالت دیکھ کر کچھ نہیں کہا، مگر بعد میں جو ڈانٹ پڑی، وہ آج تک نہیں بھولی۔

یہ میری والدہ کا سنایا ہواقصّہ ہے، جس کی تصدیق نانی نے بھی کی تھی۔(ثنا بنت اصغر، کراچی)

ناقابلِ فراموش


تازہ ترین
تازہ ترین