• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میرے پیارے وطن کے حالات حیران کن بھی ہیں اور پریشانیوں کا سبب بھی بن رہے ہیں۔ ملکی معیشت کئی سال سے خسارے میں ہے لیکن معاملات سدھارنے کے لئے سنجیدہ کوششوں کے بجائے ملک میں جس طرف دیکھو لوٹ مار کا بازار گرم نظر آتا ہے۔ مندی اگر کہیں ہے تو وہ اعلیٰ اخلاق اور بلند اصولوں کے معاملات میں ہے۔ کئی شعبوں میں بے ایمان اور ریا کار لوگوں کی اہمیت بڑھتی جارہی ہے۔ دیانت دار، سچے اور کھرے لوگوں کی قدر گھٹ رہی ہے۔ کہنے کو تو ملک میں جمہوریت ہے لیکن خود جمہوری حکمرانوں کے رویوں میں آمریت کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ۔
کئی واقعات شاہد ہیں کہ طاقت ور لوگ قانون کے سامنے خود کو جواب دہ نہیں سمجھتے قیامت میں جواب دہی کا یقین تو بہت دور کی بات، لگتا ہے کہ انہیں آخرت کا احساس تک نہیں ہے۔ یہ طاقت ور کون ہیںٟٟٟٟٟٟ......؟ دراصل اس کے لئے چند لوگوں کے نام مخصوص نہیں ہیں۔ افراد تو بدلتے رہتے ہیں۔ ان افراد کا تعلق کسی خاص علاقے، خاص جماعت، خاص گروہ سے بھی نہیں۔ طاقت ور دراصل ایک طبقہ ہے۔ عوام کے لئے متعارف کروائے گئے کئی جذباتی نعروں کے برخلاف اس طبقے کے ارکان میں نسلی، لسانی یا مسلکی شناخت کو اہمیت نہیں دی جاتی۔ پاکستان میں سیاسی سطح پر مختلف پارٹیوں میں خواہ کتنی ہی دوریاں ہوں لیکن اس طبقے میں مسلم لیگ، پیپلز پارٹی، تحریک انصاف، ایم کیو ایم، اے این پی، مذہبی سیاسی جماعتوں کے ارکان ایک دوسرے کو سپورٹ کرتے ہیں۔ یہ طبقہ ہے پاکستان میں حکومتی مناصب، سرکاری عہدوں سے براہ راست یا بالواسطہ ناجائز فائدے اٹھا کر بے تحاشہ دولت اکٹھا کرکے طاقت حاصل کرنے والوں کا۔
خوش حالی کے لئے پاکستان کے غریبوں کو اپنے خوابوں کی تعبیر پانا روز بہ روز مشکل تر ہوتا جارہا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ غربت سے جان چھڑانے کے لئے ابتدائی مراحل طے کرنا ہی کروڑوں غریبوں کی استطاعت سے باہر ہے۔ غربت اور بنیادی ضروریات سے محرومی ان لوگوں کی قسمت میں لکھی ہوئی نہیں ہے بلکہ غریبوں کا مسلسل استحصال ہورہا ہے۔ پاکستان میں غربت پھیلنے اور محرومیوں میں اضافے کے زیادہ تر ذمہ دار قومی وسائل پر قابض چند ہزار افراد ہیں۔ یہ قبضہ بھی کوئی پانچ دس برس کی بات نہیں ہے۔ جب سے پاکستان بنا ہے ایک خاص طبقہ نہ صرف وسائل پر بلکہ عوام کی سوچوں پر بھی قابض رہا ہے۔ دلفریب نعروں اور جھوٹے وعدوں سے غریب عوام کو بہلایا جاتا رہا۔ لوگوں میں اپنے استحصال سے آگاہی اور اپنے حقوق کا شعور آنے لگے تو وہ برائیوں کی مزاحمت اور اپنے حقوق پانے کے لئے جدوجہد پر آمادہ ہوجاتے ہیں۔ محروم اور مجبور غریب لوگ استحصال کرنے والوں کے خلاف متحد نہ ہوں، حکمرانوں کا احتساب نہ کرپائیں، اس کے لئے کسی ایسی حکمت عملی کی ضرورت ہوتی ہے جس سے عوام کی توجہ کہیں اور رہے۔ اس مقصد کے لئے پاکستان کے مختلف علاقوں میں شروع سے ہی نسلی اور لسانی وابستگیوں کو اہمیت دی گئی۔ مغربی پاکستان میں بنگالیوں کے خلاف اور مشرقی پاکستان میں پنجابیوں کے خلاف جذبات اُبھارے گئے۔ 71ء کے بعد پاکستان میں یہ کام جاری رہا اور مختلف لسانی اکائیوں میں ایک دوسرے کے خلاف بدگمانیاں پھیلانے کی کوششیں کی جاتی رہیں۔ جنرل ایوب خان کے دور صدارت میں پاکستان میں صنعت، زراعت و تجارت کو تو خوب فروغ ملا، زراعت و صنعت کو پانی و بجلی کی فراہمی کے لئےبڑے بڑے ہائیڈرو تھرمل ڈیم تعمیر کیے گئے۔ صنعتی پیداوار میں سہولتیں دینے کے لئے انڈسٹریل اسٹیٹس بنائی گئیں۔ ان ترقیاتی اقدامات کی وجہ سے پاکستان میں دولت کی پیدائش کا عمل تیز رفتاری سے آگے بڑھا لیکن اس صنعتی و زرعی ترقی کو پاکستان کے غریبوں کی حالت بہتر بنانے اور سماجی بہتری کے لئے استعمال کیا جاتا تو غریبوں کے حالات آج کہیں بہتر ہوتے۔ ایوب دور میں ملک میں دولت مندوں کا ایک مخصوص طبقہ سامنے آیا۔ 60ء کے عشرے میں اس طبقے کو ’’بائیس امیر خاندان‘‘ کا لقب دیا گیا تھا۔ اب اکیسویں صدی میں دولت بائیس امیر ترین خاندانوں تک محدود نہیں رہی بلکہ بائیس سو یا کئی سو امیر ترین خاندانوں تک پھیل چکی ہے۔ پچاس سال پہلے کے بائیس خاندانوں میں زیادہ تر صنعت کار شامل تھے۔ آج اس طبقے میں صرف سرکار سے وابستہ شخصیات ہی نہیں بلکہ زراعت، صنعت، تجارت، رئیل اسٹیٹ، بینکنگ سیکٹر اور دیگر کئی شعبوں سے وابستہ افراد شامل ہیں۔ اس طبقے میں شامل افراد سیاسی وابستگی، مسلکی تعلق یا لسانی شناخت سے قطع نظر ایک دوسرے کے معاون و محافظ ہیں۔ اس دولت کے تحفظ کے لئے ضروری ہے کہ عوام کا مسلسل استحصال کیا جاتا رہے لیکن انہیں حقوق غصب ہونے کا احساس بھی نہ ہونے دیا جائے۔
پاکستان میں جب آمروں کی حکومتیں قائم تھیں، تو اس طاقت ور طبقے کے گویا وارے نیارے تھے۔ جنرل ضیاء الحق اور جنرل پرویز مشرف کے ادوار میں تو اس طبقے کی بہاریں دیکھنے والی تھیں، لیکن خزاں کا موسم اس طبقے نے جمہوری ادوار میں بھی نہ دیکھا۔ آج بھی پاکستان کی کئی بڑی سیاسی جماعتوں میں، بڑے بڑے جاگیرداروں، صنعتکاروں، تاجروں اور دوسر ے امراء کا غلبہ ہے۔ وفاق اور صوبوں میں حکومت کرنے والی مسلم لیگ ہو یا پیپلزپارٹی، تحریک انصاف ہو یا عوامی نیشنل پارٹی دولت کے اثر و رسوخ اور موروثی سیاست کے اثرات سے مبرّہ نہیں ہے۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) کی قیادت شریف خاندان کے پاس ہے۔ پیپلزپارٹی بھٹو اور زرداری خاندان کی سربراہی میں ہے۔ پاکستان کی تیسری بڑی جماعت تحریک انصاف موروثی سیاست کے حوالے سے اپنا دیرینہ موقف لودھراں کے حتمی انتخابات میں ترک کرچکی ہے۔ ایم کیو ایم اور جماعت اسلامی کے سوا ہمارے ملک کی اکثر سیاسی جماعتیں کسی فرد یا خاندان کے زیر اثر ہیں۔ چونکہ ان جماعتوں کے اراکین پارٹی الیکشن میں اس موروثی لیڈرشپ کے حق میں ووٹ بھی دے دیتے ہیں، اس لئے یہ سارا عمل مشرف بہ جمہوریت ہوجاتا ہے۔ ایسی ہر جماعت کی نظر میں جمہوریت کا مطلب ہے اس کے اپنے موقف کی پزیرائی۔ شفاف انتخابات کا مطلب ہے اس کی اپنی جیت۔ جو پارٹی جیت جاتی ہے وہ اپنی جیت کو عوام کا فیصلہ قرار دیتی ہے اور جو پارٹی ہار جاتی ہے اس کی نظر میں انتخابات دھاندلی زدہ اور مشکوک ہوتے ہیں۔ بہرحال کسی کی جیت یا ہار سے قطع نظر پاکستان میں اقتدار ہمیشہ ایک طاقتور طبقے کے ہاتھ میں ہی رہا ہے۔
جونیئر ڈاکٹرز، نرسز، پرائمری اسکول کے اساتذہ نے اپنی تنخواہوں میں اضافے کے لئے احتجاج اور جلسہ جلوس کرتے ہوئے لاٹھی چارج اور آنسو گیس کا سامنا بھی کیا ہے۔ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پنشن میں تھوڑے سے اضافے کے لئےحکومتی کمیٹیاں مدتوں حساب کتاب اور غور و خوص میں مصروف رہتی ہیں لیکن جب اراکینِ اسمبلی کی اپنی تنخواہوں اور مراعات میں اضافے کا معاملہ ہو تو حکومت اور اپوزیشن ارکان میں بے مثال اتحاد و یگانگی نظر آتی ہے اور ایسے بل فوری طور پر پاس ہوجاتے ہیں۔ ان اراکین کو منتخب کرنے والے کروڑوں ووٹرز جمہوری عمل کو اس طرح پھلتا پھولتا دیکھ کر دوبارہ اپنی اپنی مزدوریوں میں مصروف ہوجاتے ہیں۔ پاکستان میں غریب کے حالات اس وقت تبدیل ہوں گے، جب خود غریبوں میں اتحاد ہوگا اور عام ووٹرکو اپنے ووٹ کی طاقت اور اہمیت کا احساس ہوجائے گا۔ ابھی تو کئی ووٹرز برادری، قومیت یا محض لیڈرشپ کے سحر میں گرفتار ہیں۔

تازہ ترین