کراچی (ٹی وی رپورٹ)جیوکے پروگرام ”آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ“ میں میزبان نےتجزیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ توہین عدالت کے کیسز اور عدالتی ریمارکس کہیں نواز شریف اور مریم نواز کیلئے پیغام تو نہیں، آئندہ انتخابی مہم عدلیہ کے ہی گرد گھومے گی، گزشتہ کچھ عرصہ سے پارلیمنٹ میں ریاستی اداروں کے کردار اور ان میں ٹکراؤ پر بحث ہوتی رہی ہے۔میزبان شاہزیب خانزادہ نے مزید کہا کہ شریف خاندان کیخلاف نیب کیسوں کا مستقبل کیا ہوگا، کیا احتساب عدالت نیب ریفرنسز پر 14مارچ کو وقت پر فیصلہ سناپائے گی یا احتساب عدالت کو مزید قت دیاجائے گا، کیا سپریم کورٹ احتساب عدالت کے ریٹائر ہونے والے جج محمد بشیر کو ایک بار پھر توسیع دیدے گی یا ان کی جگہ ایک نیا جج آئے گا جو دوبارہ کیس کے سارے معاملات دیکھے گا جس کی وجہ سے ڈیڈ لائن پر فیصلہ نہیں آسکے گا، عرصے سے جاری رہنے والی یہ بحث کل ختم ہوجائے گی کیونکہ اس حوالے سے ایک خصوصی بنچ تشکیل دیدیا گیا ہے جس کی سربراہ جسٹس اعجاز افضل کررہے ہیں ، بدھ کو یہ خصوصی بنچ احتساب عدالت میں چلنے والے نیب ریفرنسز کی مدت بڑھانے سے متعلق سماعت کرے گا، یہی بنچ جج محمد بشیر کو توسیع دینے یا نہ دینے کا فیصلہ بھی کرے گا، اہم بات یہ ہے کہ جسٹس اعجاز پاناما بنچ کا حصہ بھی رہے ہیں اور بدھ کو وہ فیصلہ کریں گے کہ نیب ریفرنسز پر احتساب عدالت کو مزید وقت دیا جائے یا نہیں دیا جائے، اگر وقت دیا جائے تو کتنا وقت دیا جائے گا۔شاہزیب خانزادہ نے تجزیے میں مزید کہا کہ سپریم کورٹ نے منگل کو توہین عدالت کے تین کیسز سنے، یہ تینوں کیسز مسلم لیگ ن سے جڑے ہوئے ہیں، سپریم کورٹ میں نہال ہاشمی کی نظرثانی کی درخواست سنی گئی جبکہ دانیال عزیز اور طلال چوہدری کیخلاف توہین عدالت کے کیسوں کی سماعت ہوئی، چیف جسٹس ،نہال ہاشمی کی رہائی کے بعد کی تقریر اور غیر رسمی گفتگو میں گالی پر سخت برہم دکھائی دیئے، توہین عدالت کے کیسز اور عدالتی ریمارکس کہیں نواز شریف اور مریم نواز کیلئے پیغام تو نہیں کیونکہ یہ دونوں بھی عدالت پر مسلسل سخت تنقید کررہے ہیں، توہین عدالت کی سزا پوری کرنے کے بعد نہال ہاشمی ایک اور مشکل میں جاتے دکھائی دے رہے ہیں، نہال ہاشمی کو توہین عدالت کے ایک اور نوٹس کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے اور شاید اس بار سزا پہلے سے بھی زیادہ سخت ہو، عدالت نے ایک اور توہین عدالت کے نوٹس کا عندیہ دیتے ہوئے نہال ہاشمی کو بدھ کو سپریم کورٹ میں طلب کرلیا ہے۔شاہزیب خانزادہ نے کہا کہ نہال ہاشمی نے رہائی کے بعد عدالت کے حوالے سے بہت کچھ میڈیا کے کیمروں کے سامنے کہا مگر ان کی ایک گفتگو باہر لوگوں کے درمیان ہوئی جس میں انہوں نے ایک گالی دی جو منگل کو سپریم کورٹ میں زیربحث رہی، خود نہال ہاشمی کے وکیل کامران مرتضیٰ بھی اس موقع پر ان کی پیروی کرنے سے پیچھے ہٹ گئے، جیل سے رہا ہونے کے بعد نہال ہاشمی نے جہاں اور بہت سی سخت باتیں کیں وہاں بابا رحمتے کا بھی ذکر کیا، نہال ہاشمی نے اعلیٰ عدلیہ اور اس کے فیصلوں پر بھی تنقید کی اور کہا کہ آج مولوی تمیز الدین کی روح بھی شرمندہ ہوگی، نہال ہاشمی نے خود کہا کہ انہیں سزا دی جاسکتی ہے مارا جاسکتا ہے لیکن وہ ڈرتے نہیں ہیں۔شاہزیب خانزادہ کا کہنا تھا کہ نہال ہاشمی کے مئی میں دیئے گئے بیان پر ن لیگ نے سخت ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے ان کی پارٹی رکنیت معطل کردی تھی جبکہ سینیٹ سے مستعفی ہونے کا بھی کہا گیا تھا لیکن جب انہیں سزا ہوئی تو ن لیگ میں ان کیلئے ہمدردی پیدا ہوئی، مریم نواز نے گزشتہ ماہ جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ نہال ہاشمی کو سزا ہوگئی مگر مشرف کو کب سزا ہوگی، کتنے لوگوں کو سزا ملے گی جیل کم پڑجائے گی نواز شریف کے چاہنے والے کم نہیں ہوں گے، نواز شریف نے بھی توہین عدالت کا نوٹس ملنے کے بعد جلسے میں دانیال عزیز اور طلال چوہدری کے ہاتھ اٹھا کر عوام سے رائے لی، عوامی عدالت سے کتنے ہی فیصلے لیں عدالت پر فرق نہیں پڑا اور بدھ کو عدالت نے دانیال عزیز کے کیس میں فردجرم عائد کرنے کا فیصلہ کیا جبکہ طلال چوہدری کا معاملہ بھی آگے بڑھ رہا ہے، نواز شریف اور مریم نواز کیخلاف بھی توہین عدالت کی درخواستیں زیرسماعت ہیں لیکن انہیں ابھی تک توہین عدالت کا نوٹس باقاعدہ نہیں ملے گا، کیا ن لیگ کے دیگر رہنماؤں کیخلاف توہین عدالت کے نوٹس نواز شریف اور مریم نواز کیلئے پیغام ہیں۔شاہزیب خانزادہ کا کہنا تھا کہ عدلیہ اختیار سے تجاوز کررہی ہے یاپھر پارلیمنٹ کی شکایت درست نہیں، یہ بحث پارلیمنٹ میں بھی ہوئی ہے، یہ سوال بھی اٹھا کہ عدلیہ اور سیاسی قیادت میں محاذ آرائی کا انجام کیا ہوگا، کیا الزام تراشی ہوتی رہے گی، کیا توہین عدالت کے نوٹسز جاری رہیں گے، کیا سخت بیانات اور پھر سخت ریمارکس کا سلسلہ جاری رہے گا، یہ سوال ملکی سیاست میں گونج رہا ہے، یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ آئندہ انتخابی مہم عدلیہ کے ہی گرد گھومے گی، گزشتہ کچھ عرصہ سے پارلیمنٹ میں ریاستی اداروں کے کردار اور ان میں ٹکراؤ پر بحث ہوتی رہی ہے، اس بحث میں سب سے موثر آواز پیپلز پارٹی کے چیئرمین فرحت اللہ بابر کی ہے جو شاید اب ایوان میں نہیں گونجے گی۔ اس دفعہ بھی سینیٹ کیلئے سب سے بہتر لوگ پیپلز پارٹی لے کر آئی ہے لیکن اس دفعہ فرحت اللہ بابر کا انتخاب نہیں کیا گیا، فرحت اللہ بابر نے سینیٹ میں چھ سال کے دوران پورے پارلیمان کا وقار بلند کیا۔شاہزیب خانزادہ نے تجزیے میں مزید کہا کہ ایک شخصیت ہے جس کیخلاف نہ ریاست کچھ کرپاتی ہے نہ اس کیخلاف توہین عدالت کے نوٹسز ہوتے ہیں، وہ کیمروں ، عوام اور اداروں کے سامنے بیٹھ کر گالیاں نکالتے ہیں مگر ان کیخلاف کوئی کارروائی نہیں ہوتی ہے، ایک طرف عدلیہ اور ججوں کے خلاف جارحانہ تقاریر کرنے والے سیاسی رہنماؤں کو توہین عدالت کے کیسوں کا سامنا ہے تو دوسری طرف فیض آباد دھرنا کیس میں خادم رضوی عدالت کے سامنے پیش نہیں ہورہے، عدالت خادم رضوی کو مفرور قرار دے چکی ہے اور اشتہاری قرار دینے کے عمل کا آغاز کرچکی ہے، لیکن اس پوری صورتحال میں دو سوالات اٹھ رہے ہیں، پہلا سوال یہ کہ انسداد دہشتگردی عدالت نے ایک ایسے ملزم کو مفرور قرار دیا ہے جو روپوش نہیں ہے بلکہ ملک کے اندر موجود ہے، ابھی بھی تقاریر کرتا ہے، جلسوں میں شرکت کرتا ہے تو حکومت انہیں گرفتار کیوں نہیں کرپاتی، دوسرا سوال یہ اٹھ رہا ہے کہ جس شخص نے چیف جسٹس سے متعلق اپنی تقاریر میں انتہائی نازیبا الفاظ استعمال کیے اسے توہین عدالت کا نوٹس کیوں نہیں بھیجا جارہا، بہرحال یہ بات درست ہے کہ خادم حسین رضوی نے ایسی تقاریر کی ہیں جس میں انہوں نے چیف جسٹس سمیت دیگر اداروں کیلئے نازیبا اور سخت الفاظ استعمال کیے، ان کی طرف سے گالیاں نکالی گئیں، اسلام آباد میں بیٹھ کر ہجوم اور میڈیا کے کیمروں کے سامنے مائیک آن کر کے یہ سب ان کی طرف سے کہا گیا، کیا ایسی تقریروں پر توہین عدالت بنتی ہے، کیا عدالت ایسی تقریروں پر ازخود نوٹس لے سکتی ہے۔