اسلام آباد (انصار عباسی) بالآخر قومی احتساب بیورو کے متعلق کہا جا رہا ہے کہ ادارے نے مبینہ کرپشن اور اختیارات کے ناجائز استعمال پر سابق آمر جنرل (ر) پرویز مشرف کیخلاف تحقیقات کا فیصلہ کرلیا ہے۔ کرنل (ر) انعام رحیم خواجہ کی پٹیشن پر اسلام آباد ہائیکورٹ نے اپنے فیصلے میں نیب کو ہدایت کی تھی کہ وہ جنرل (ر) پرویز مشرف کیخلاف ان کے دورِ حکومت کے دوران ان کی مبینہ کرپشن اور اختیارات کے ناجائز استعمال کی تحقیقات کرے۔ کرنل (ر) انعام رحیم کا کہنا ہے کہ بدھ کو چیئرمین نیب نے انہیں بتایا ہے کہ نیب نے سابق آمر کیخلاف انکوائری شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ کرنل (ر) انعام نے بدھ کو دی نیوز سے بات چیت کرتے ہوئے بتایا کہ نیب کی دعوت کے بعد انہوں نے اسی دوپہر چیئرمین نیب اور بیورو کے سینئر افسران بشمول ڈپٹی چیئرمین، پراسیکوٹر جنرل اور دو ڈائریکٹر جنرلز سے ملاقات کی اور ان کے ساتھ مشرف کے کیس پر بات چیت کی۔ کرنل (ر) انعام رحیم سابق فوجیوں (ایکس سروس مین) کے لیگل فورم کے کنوینر ہیں، کا کہنا ہے کہ انہیں نہ صرف یہ بتایا گیا کہ بیورو نے مشرف کیخلاف تحقیقات شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے بلکہ نیب کے سینئر عہدیداروں نے مشرف کی دولت اور ان کی جانب سے اختیارات کے مبینہ طور پر ناجائز استعمال کے حوالے سے پیش کردہ شواہد پر بھی اطمینان کا اظہار کیا ہے۔ کرنل (ر) انعام کے مطابق ان کے پیش کردہ ثبوتوں کے حوالے سے نیب کے ایک سینئر عہدیدار نے کہا کہ یہ شواہد قابل قبول ہیں۔ اسلام آباد ہائی کورٹ نے قرار دیا تھا کہ نیب کے پاس اختیارات ہیں کہ وہ جنرل (ر) پرویز مشرف کیخلاف معلوم ذرائع سے زیادہ اثاثہ جات، کرپشن اور بدعنوانی پر تحقیقات شروع کر سکے۔ اسلام آباد ہائیکورٹ نے نیب کے 25؍ اپریل 2013ء کو مدعی انعام رحیم کو لکھے گئے خط کو غیر قانونی قرار دیا تھا۔ انعام رحیم ایڈووکیٹ کو لکھے گئے خط میں نیب نے انہیں آگاہ کیا کہ بیورو اختیارات نہ ہونے کی وجہ سے مشرف کیخلاف تحقیقات شروع نہیں کر سکتا۔ رحیم نے نیب میں مشرف کے ملک کے اندر اور باہر موجود معلوم ذرائع سے زیادہ اثاثوں کی تحقیقات کیلئے شکایت درج کرائی تھی۔ نیب کی جانب سے شکایت واپس کیے جانے پر مدعی نے اسلام آباد ہائیکورٹ میں پٹیشن دائر کر دی۔ اسلام آباد ہائیکورٹ کے آرڈر میں لکھا تھا کہ، ’’بیورو کے پاس درخواست گزار کی شکایت پر کارروائی کی طاقت اور اختیار موجود ہے اور اس پر غور کے بعد اگر یہ رائے طے ہوجائے کہ 1999ء کے آرڈیننس کے تحت بادی النظر میں جرم ہوا ہے تو یہ نیب کا فرض ہے کہ وہ تحقیقات کا آغاز کرے، تفتیش کرے اور 1999ء کے آرڈیننس کے تحت ادارے کو حاصل تمام ضروری اقدامات کرے۔ بلاتفریق احتساب بیورو کی قانونی ذمہ داری ہے اور اسے یہ مینڈیٹ 1999ء کے آرڈیننس کے تحت حاصل ہے۔ عوام کا بھروسہ اور اعتماد نتائج پر مبنی احتساب کی علامت ہے۔ یہ بیورو کا فرض ہے کہ وہ کسی بھی شہری کی جانب سے فراہم کی جانے والی ہر معلومات یا شکایت کا جائزہ لے اور اس پر 1999ء کے آرڈیننس کے تحت شفاف اور منصفانہ انداز میں کارروائی کرکے اپنی قانونی ذمہ داری بنا کسی خوف اور خطرے کے ادا کرے۔‘‘ اب تک نیب مشرف کی مبینہ کرپشن کیخلاف تحقیقات شروع کرنے میں ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کر رہا تھا۔ حال ہی میں بیرو نے حدیبیہ کیس میں بھی سپریم کورٹ کی وہ ہدایات نظرانداز کر دیں تھیں جن میں نیب کو اپنے ہی قانون کی یاد دہانی کرائی گئی تھی جس کے تحت بیورو کی تحقیقات میں رکاوٹ ڈالنے والے کیلئے 10؍ سال قید کی سزا مقرر کی گئی ہے۔ عدالت نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا تھا کہ نیب نے ان لوگوں کیخلاف کارروائی نہیں کی جنہوں نے شریف فیملی کو ملک سے باہر بھیج کر بیورو کی کارروائی میں رکاوٹ ڈالنے کی کوشش کی تھی۔ سپریم کورٹ کے آرڈر میں نیب قانون کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا تھا کہ نیب یا احتساب عدالت کی تحقیقات میں مداخلت، اسے نقصان پہنچانا یا ناکام بنانا قابل سزا جرم ہے اور ایسے شخص کو 10؍ سال تک قید بامشقت کی سزا دی جا سکتی ہے۔