• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان سمیت دنیا بھر میں آج خواتین کا عالمی دن اس حقیقت کے اعتراف میں منایا جارہا ہے کہ خواتین کا انسانی معاشرے کی سماجی، سیاسی، ثقافتی اور اقتصادی ترقی میں اہم کردار ہے۔ عورت بحیثیت ماں، بہن، بیوی، بیٹی ہر روپ میں قابل احترام ہے اورد نیا کے تمام مذاہب خواتین کو عزت کا مقام دیتے ہیں۔ ہندو مت میں معاشرے کی اکائی گھر کی خوشحالی کوعورت کی خوشی سے جوڑا جاتا ہے، مقدس ویدوں کے مطابق عورت قدرت کا انسانیت کو تحفہ ہے، ایک مرد کی ذمہ داری ہے کہ وہ عورت کی حفاظت کرے اور اسے کسی صورت عدم تحفظ کا شکار نہ ہونے دے، رامائین کی کلیدی کردار سیتا ماتا اپنے تقدس کی بنا پر تمام ہندوؤں کیلئے قابلِ احترام ہے، روایتی طور پر ہندو سماج میں شادی شدہ خاتون سے چار بنیادی ذمہ داریوں کی توقع کی جاتی ہے، داسی یعنی کہ فرماں بردار، منتری یعنی مشیر، ماتا یعنی ماں اور رمبھا (باعثِ راحت)۔ تاہم تاریخ میں ہندو خواتین کے انتظامی عہدوں پر موجودگی کے شواہد بھی ملتے ہیں جس میں جھانسی کی رانی لکشمی بائی نمایاں ترین ہے۔ اسی طرح عیسائیت میں مقدس میری کو بلند مقام حاصل ہے، یمن کی طاقتور اور خودمختار ملکہ سبا کا قصہ دنیا کے تمام الہامی مذاہب کی تعلیمات میں پایا جاتا ہے۔ پیغمبر اسلام ﷺ کی بدولت دنیا بھر میں اسلام کا نور پھیلا اور بیٹی کو خدا کی رحمت سے منسوب کیا گیا، اسلام کی تعلیمات میں خواتین سے اچھے سلوک کی جابجا تلقین کی گئی ہے، آخری حج کے خطبے میں بطور خاص عورتوں سے نرمی برتنے کا کہا گیا۔ الغرض آپ جس مذہب کا مطالعہ کرتے جائیں، وہاں عورت کا ذکر ایک قابل احترام ہستی کے طور پر ملے گا، دنیا کے تمام ماہرعمرانیات اس امر پر متفق ہیں کہ عورت کے وجود کے بغیر معاشرہ نامکمل ہے اور سماجی ترقی و خوشحالی کو یقینی بنانے کیلئے عورتوں کی شمولیت ضروری ہے، میں نے اپنے عالمی دوروں میں ترقی یافتہ ممالک کی جو خاص بات نوٹ کی وہ وہاں کی خواتین کو بنا کسی تعصب کے ترقی کے یکساں مواقع فراہم کرنا تھا۔ دوسری طرف یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ مثبت مذہبی تعلیمات کے باوجود عورتوں کے حقوق سلب کرنے کا سلسلہ تھم نہ سکا، میری معلومات کے مطابق دنیا کے تقریباََتمام معاشروں میں خواتین کو ظلم و جبر کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ آج مغرب میں بسنے والی خاتون دنیا بھر میں سب سے زیادہ آزاد اور خودمختار سمجھی جاتی ہے لیکن مغربی ممالک میں بھی خواتین کو اپنے حقوق کی بقا کی خاطر کافی جدوجہد کرنا پڑی جس کا باقاعدہ آغاز 1908میں امریکی شہر نیویارک کی ایک گارمنٹس فیکٹری میں خواتین نے ہڑتال کرکے کیا،1909میں انہی خواتین سے اظہار یکجہتی کی خاطر امریکہ بھر میں عورتوں کا پہلا قومی دن منایا گیا، اس سلسلے کو برقرار رکھتے ہوئے 1910میں ڈنمارک کے شہر کوپن ہیگن میں پہلی مرتبہ خواتین کانفرنس منعقد کی گئی جس میں17ممالک سے تعلق رکھنے والی سو سے زائد خواتین نے شرکت کی اور پہلی دفعہ عالمی سطح پر عورتوں کے حقوق کی بات کی گئی، 1911 میں بیک وقت آسٹریا، ڈنمارک، جرمنی اور سوئزرلینڈمیں پہلی مرتبہ خواتین کا عالمی دن منایا گیا، آخرکار 1975میں اقوام متحدہ نے خواتین کے عالمی سال کے موقع پر 8 مارچ کو خواتین کا عالمی دن قرار دے کر خواتین کے حقوق کیلئے سرگرم تنظیموں کو ایک موقف پر جمع کیا۔ یوم خواتین کی مناسبت سے پاکستان میں بھی مختلف سرکاری، نیم سرکاری تنظیموں کی طرف سے سیمینار، واک، کانفرنس اوردیگر تقریبات منعقد کی جاتی ہیں تاکہ خواتین کے حقوق کے حوالے سے زیادہ سے زیادہ آگاہی فراہم کرنے کے ساتھ قومی ترقی میں ان کے کردار کو سراہا جاسکے۔ حالیہ برسوں میں پاکستان میں خواتین کی آزادی کے حوالے سے مثبت تبدیلیاں دیکھنے میں آرہی ہیں اور وہ صحت، تعلیم، انجینئرنگ، سیاست، بزنس، آرٹ، ڈیفنس، فیشن اور دیگر شعبہ جات میں پیش پیش دکھائی دیتی ہیں۔ محترمہ بینظیر بھٹو، عاصمہ جہانگیر، بلقیس ایدھی، عارفہ کریم، منیبہ مزاری، ملالہ یوسف زئی، شرمین عبیدچنائے، ثمینہ بیگ، مریم مختیار وغیرہ وغیرہ چند ایسے نام ہیں جنہوں نے پاکستان کا نام عالمی سطح پر روشن کیا۔ میں ہمیشہ تحریک پاکستان کو انسانی تاریخ کی سب سے پرُامن اور کامیاب سیاسی جدوجہد قرار دیتا ہوں جسکے ذریعے ایک آزاد مملکت کا حصول یقینی بنایا جاسکا، میں سمجھتا ہوں کہ بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح خواتین کے حقوق کے بڑے داعی تھے، تحریک پاکستان کی کامیابی کیلئے مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح نے خواتین کو متحرک کرنے میں بھرپور کردار ادا کیا، اسی طرح آزادی کے فوراً بعد خاتون اول رعنا لیاقت علی خان نے نرسنگ کے شعبے کی سربلندی کیلئے ناقابل فراموش خدمات سرانجام دیں۔ بحیثیت پاکستانی آج میرے لئے افسوس کا مقام ہے کہ جب پاکستان میں عورتوں کواستحصال کا شکار بتایا جاتا ہے، ہمارے معاشرے میں غیرت کے نام پرخواتین کا المناک قتل کسی سانحے سے کم نہیں، میرا اپنا تعلق سندھ سے ہے جہاں کاروکاری کی شرمناک رسم اکیسویں صدی میں بھی جاری ہے، بے شمار واقعا ت میں بے بس بہن اور بیٹی کی جائیداد ہڑپ کرنے کیلئے مذہب کی آڑ میں قابلِ مذمت اقدامات کئے گئے ہیں، اسی طرح رشتے کے تنازعے پر عورت پر تیزاب پھینکنا یا جان لے لینا انسانیت سے گِرا گھناؤنا جرم ہے، خواتین سے زیادتی کے واقعات روزانہ کی بنیادوں پر میڈیا پر رپورٹ ہورہے ہیںایک ورکنگ وومن کی اپنے گھر کی معاشی مشکلات سے چھٹکارا پانے کی جدوجہد میں اذیتوں کا سامنا ایک الگ موضوع ہے۔ بلاشبہ وفاقی اور صوبائی سطح پرخواتین کے تحفظ کے سلسلہ میں قانون سازی بھی کی گئی ہے لیکن پاکستان کو ترقی کی راہ پرگامزن کرنے کیلئے بے پناہ مشکلات درپیش ہیں ۔ پاکستان میں عام خواتین کو ہمیشہ سے یہ شکایت رہی ہے کہ خواتین کے حوالے سے قانون سازی جرائم کے سدباب کیلئے موثر ثابت نہیں ہورہی، اس حوالے سے میری تجویز ہے کہ ہمیں پارلیمان میں خواتین کی مخصوص نشستوں کی بجائے ڈائریکٹ ووٹنگ کے ذریعے خواتین ممبران کا انتخاب کرنے کا جمہوری طریقہ کار اپنانا چاہئے، مخصوص نشستوں پر ذاتی پسند ناپسند کی بنیاد پر سیاسی لیڈران کی اپنی قریبی رشتہ دار خواتین سے کہیں زیادہ بہتر کارکردگی کا مظاہرہ وہ خاتون ممبرکرسکتی ہے جو عوام کے ووٹ کے بل بوتے پر پارلیمان میں آئے۔ آج خواتین کے عالمی دن کے موقع پر ہم سب کو اس عہد کی تجدید کرنی چاہئے کہ ہم خواتین کے حوالے سے اپنا مائینڈ سیٹ بدلیں گے، ایک مہذب مرد کی پہچان ہواکرتی ہے کہ وہ خواتین کا احترام یقینی بناتا ہے، پاکستان کو ترقی یافتہ ممالک کی صف میں کھڑا کرنے کیلئے ضروری ہے کہ ہم برسرروزگار خواتین کو عدم تحفظ کا شکار نہ ہونے دیں، ہم سب کو قائداعظم کے وژن کے مطابق ایک ایسے پاکستانی معاشرے کا قیام یقینی بنانیکی جدوجہد کو جاری رکھنا چاہئے جہاں ہر شہری کو اپنی مرضی کی زندگی بسر کرنے کا بنیادی حق حاصل ہو۔

تازہ ترین