• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کاغذی کرنسی کے استعمال میں کمی

لیاقت علی جتوئی

زیادہ پرانی بات نہیں، جب پاکستان میں بینک کھاتے داروں کورقوم نکلوانے اور دیگر کاموں کے لیے کاؤنٹرز پر لمبی قطاروں میںلگنا پڑتا تھا۔خوش قسمتی سے اے ٹی ایم مشینوں کے متعارف ہونے کے بعدایسے کام کاؤنٹر پر قطار میں لگے بغیر ہونے لگے۔ بینکاری نظام میں ٹیکنالوجی کے بڑھتے کردار کے باعث اس جدت کے باوجود، نقل و حمل کا عنصر پھر بھی شامل رہا۔ 

ایک بینک صارف کو بینک برانچ تک نہ سہی، لیکن اے ٹی ایم مشین تک جاناہی پڑتا ہے۔ بینکاری خدمات کے استعمال میں اسی ’’نقل و حمل‘‘ کے عنصر کو کم کرنے یا ختم کرنے کی جستجو، مالیاتی اور ٹیکنالوجی اداروں کے مابین معلومات کے تبادلے کی مؤجد بنی۔ 

آن لائن/انٹرنیٹ بینکنگ اور موبائل بینکنگ اسی جستجو کا نتیجہ ہے۔ آج بینک اکاؤنٹ ہولڈرز کی ایک بڑی تعداداپنے گھروں، دفاتر،تجارتی مراکز یا کہیں بھی بیٹھے صرف چند clicksکے ذریعے بینکاری امور نمٹالیتاہے۔ مالیاتی اور ٹیکنالوجی اداروں کے اس اشتراک نے بینکاری اور روز مرہ کی مالیاتی خدمات کے استعمال کو عام عوام کی دسترس میں کردیا ہے۔

اسمارٹ فون کا بڑھتا کردار

انٹرنیشنل ڈیٹا کارپوریشن کے مطابق، اسمارٹ فونز کی ستر فی صد شپمنٹ ایمرجنگ مارکیٹس میں جاتی ہے، جبکہ صرف تیس فی صد اسمارٹ فونز ترقی یافتہ ملکوں میں فروخت ہوتے ہیں۔یہ ستر فی صد اسمارٹ فونز ترقی پذیر ملکوں میں موبائل بینک اکاؤنٹس اور موبائل Walletsکے طور پر استعمال ہورہے ہیں۔

پاکستان کا منظر نامہ

عالمی بینک کااندازہ ہے کہ پاکستان میں تقریباً 10 کروڑ بالغ افراد کو باقاعدہ اور ریگولیٹڈ مالیاتی سہولیات تک رسائی حاصل نہیں۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ پاکستان کی تقریباً آدھی آبادی بینکاری نظام سے باہر ہے۔ عالمی تناظر میں دیکھیں تو، پوری دنیا کی آبادی کے پانچ فی صد افراد پاکستان میں رہتے ہیں، جو بینکاری نظام استعمال نہیں کرتے یا اس تک رسائی حاصل نہیں۔ 

اس وقت دنیا بھر میں دو ارب افراد بینکاری نظام سے باہر ہیں۔ ان تمام باتوں کے باوجود، جنوبی ایشیا میں پاکستان ڈیجیٹل فائنانس اور برانچ لیس بینکنگ کے شعبے میں سب سےآگے ہے۔جنوبی ایشیا میں اوسطً دو اعشاریہ چھ فی صد لوگ موبائل اکاؤنٹ رکھتے ہیں، جب کہ پاکستان میں موبائل اکاؤنٹ ہولڈرز کی تعداد چھ فی صد ہے۔اس سے واضح ہے کہ پاکستانی صارفین نئی ٹیکنالوجی اپنانے کے لیے تیار ہیں۔

نئی ٹیکنالوجی اختیار کرنے میں پاکستانیوں کی دلچسپی کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ 1947میں آغاز کے بعد پاکستانی بینکوں کو چارکروڑ روایتی بینک اکاؤنٹ ہولڈرز بنانے میں ستر سال لگ گئے۔ اس کے برعکس پاکستانی بینکوں نے صرف پانچ سال کے عرصے میں پونے دو کروڑ برانچ لیس بینک اکاؤنٹ ہولڈرز بنالیے ہیں۔برانچ لیس بینکاری کے تیز ی کے ساتھ فروغ کی وجہ موبائل فون صارفین ہیں۔

2015سے پاکستان میں نیشنل فائنانشل انکلوژن اسٹریٹجی (NFIS)بھی نافذالعمل کردی گئی ہے، جس کے بعد پاکستان میں کام کرنے والے تمام بینکوں نے اپنی آفیشل بینکنگ ایپ متعارف کرادی ہے۔ اب ایک بینک صارف اپنے بینک کی آفیشل بینکنگ ایپ کے ذریعے بیلنس کی معلومات اور فنڈٹرانسفر سے لے کر یوٹیلٹی بلز کی ادائیگی کرسکتا ہے۔ بینکنگ ایپ نے اب ’’نقل و حمل‘‘ کا مسئلہ حل کردیا ہے۔

پاکستان میں پلاسٹک منی کا تعارف

پاکستان میں سب سے پہلا کریڈٹ کارڈ جاری کرنے کا کریڈٹ ایچ بی ایل کو حاصل ہے۔محدود پیمانے پر جاری کیے جانے کے باعث ، حبیب بینک کی جانب سے جاری کیے گئے اس گولڈ کارڈ سے متعلق بہت کم لوگ جانتے ہیں۔ اس کے چند سال بعد الائیڈ بینک نے ماسٹر کارڈ کا اجراکیا۔ تاہم سٹی بینک کی جانب سے جاری کیا گیا ویزا کارڈ، پاکستان میں پلاسٹک منی کے فروغ میں اہم سنگ میل ثابت ہوا۔ حالانکہ پاکستان کی معیشت بنیادی طور پر ابھی تک کیش اکانومی ہے، جہاں تقریباً 10کروڑ آبادی کو باقاعدہ مالیاتی خدمات تک رسائی حاصل نہیں۔ تاہم تین دہائی قبل پاکستان میں جس cash-less نظام کی داغ بیل ڈالی گئی تھی، آج وہ بڑی تیزی سے فروغ پارہا ہے۔

اعدادوشمار کیا بتاتے ہیں؟

پاکستان کے مرکزی بینک۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے مطابق، مالی سال 2017کے دوران پاکستان میں کارڈز اور انٹرنیٹ کے ذریعے ٹرانزیکشنز میں 17فی صد اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔ ایسی ٹرانزیکشنز کا مجموعی حجم 62کروڑ 58 لاکھ جب کہ مالیت 37اعشاریہ ایک ٹریلین روپے ریکارڈ کی گئی۔

اے ٹی ایم مشینیں

حالانکہ موبائل اور انٹرنیٹ کے ذریعے بینکاری لین دین میں اضافہ ہورہا ہے، اے ٹی ایم کے ذریعے کیش نکلوانا اب بھی سب سے مقبول اور آسان ذریعہ مانا جاتا ہے۔اس بات کی تصدیق اسٹیٹ بینک کی رپورٹ سے بھی ہوتی ہے۔ اسٹیٹ بینک کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ گزشتہ سال صرف رمضان المبارک اور عیدالفطر کی چھٹیوں میں اے ٹی ایم کے ذریعے 442 ارب روپے نکلوائے گئے۔

 یہی وجہ ہے کہ بینکوں نے 2017 کے دوران بھی اپنے اے ٹی ایم نیٹ ورک کو وسعت دینے کو ترجیح دی۔ گزشتہ سال کے دوران پورے ملک میں اے ٹی ایم مشینوں کی تعداد میں ساڑھے 11فی صد اضافہ ہوا، اس طرح پورے ملک میں بینکوں کے اے ٹی ایم پوائنٹس کی تعداد 12ہزار 689تک جا پہنچی۔اگر پلاسٹک کارڈز کی بات کریں،تو گزشتہ سال نو فی صد اضافے کے ساتھ پلاسٹک کارڈز کی تعداد بڑھ کر تین کروڑ چھیاسٹھ لاکھ ہوگئی۔

پلاسٹک کارڈز کا بریک۔اپ

-ڈیبیٹ کارڈ ایک کروڑ اناسی لاکھ (مجموعی پلاسٹک کارڈز میں حصہ 48.7فی صد)-اے ٹی ایم اونلی کارڈ اسی لاکھ(جن کا استعمال اے ٹی ایم مشین تک محدود ہوتا ہے) (حصہ22فیصد)- کریڈٹ کارڈ تیرہ لاکھ(مجموعی پلاسٹک کارڈ میں حصہ ساڑھے تین فی صد) -سوشل ویلفیئر کارڈ اکیانوے لاکھ دس ہزار(حصہ تقریباً پچیس فی صد)

ای۔کامرس

انٹرنیٹ اور موبائل بینکاری نے روایتی سوچ کو بدل کر رکھ ڈالا ہے۔ اسی طرح ای۔کامرس ابتدائی مراحل میں ہونے کے باوجود پاکستان میں تیزی سے مقبولیت حاصل کررہا ہے۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ 571 کاروبار۔۔ اپنی پراڈکٹس آن لائن فروخت کررہے ہیں، جہاں گزشتہ سال تقریبا ساڑھے نو ارب روپے مالیت کی بارہ لاکھ ٹرانزیکشن کی گئیں۔

پوائنٹ آف سیل (POS)

پوائنٹ آف سیل مشینیں بھی بہت تیزی سے فروغ پارہی ہیں۔ گزشتہ سال پوائنٹ آف سیل مشینوں میں سات اعشاریہ تین فی صد اضافہ ہوا۔ اس طرح ملک بھر میں 54ہزار 490 پوائنٹس آف سیل قائم کیے جاچکے ہیں۔مالیت کی بات کی جائے تو گزشتہ سال 23فی صد اضافے کے ساتھ پوائنٹس آف سیل کے ذریعے 246ارب روپے کا کاروبار کیا گیا۔

انٹرنیٹ بینکنگ

ملک میں جیسے جیسے براڈ بینڈ کا نیٹ ورک وسیع ہورہا ہے، انٹرنیٹ بینکاری بھی فروغ پارہی ہے۔ اسٹیٹ بینک کے اعدادوشمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ گزشتہ سال انٹرنیٹ کے ذریعے بینکاری کی خدمات کے استعمال میں 32 فی صد کا تیز تر اضافہ ہوا۔انٹرنیٹ کے ذریعے ڈھائی کروڑ سے زائد ٹرانزیکشنز ہوئیں، جن کی مالیت 969ارب روپے بنتی ہے۔

مستقبل سے توقعات

براڈ بینڈ کے بڑھتے دائرہ کار اور صارفین میں بہتر awarenessکے باعث پاکستان کا مالیاتی شعبہ انقلاب کے دہانے پر ہے۔FinTech(فائنانشل ٹیکنالوجی) کی بدولت، صارفین آنے والے چند ماہ کے دوران پاکستان کے مالیاتی اور بینکاری شعبے میں کئی انقلابی اور خوش گوار تبدیلیاں دیکھ سکیں گے ۔

 ان تبدیلیوں کے متعارف ہونے کے بعد بینک صارفین کو ان سہولیات تک رسائی حاصل ہوجائے گی، جو چند سال پہلے تک ناممکن معلوم ہوتی تھیں۔

FinTechایک ایسا الیکٹرانک پلیٹ فارم ہے، جس کے ذریعے ایک شخص ایک پلیٹ فارم سے، ملک کے کسی بھی حصے میں دوسرے دوسرے موبائل فون پر موجود کسی بھی اکاؤنٹ میں ٹرانزیکشن کرسکے گا۔ ابھی تک Inter-operabilityنا ہونے کے باعث، ایک نیٹ ورک سے دوسرے ٹیلی کام نیٹ ورک پر آن لائن ٹرانزیکشن ممکن نہ تھیں۔

 اس وقت ٹیلی نار ایزی پیسہ، جیز موبی کیش اور یونائیٹڈ بینک، اومنی کے ذریعے موبائل ٹیکنالوجی کا استعمال کرکے برانچ لیس بینکنگ سروس فراہم کررہا ہے۔ اس وقت، ایزی پیسہ کے ذریعے موبی کیش یا پھر موبی کیش کے ذریعے اومنی اکاؤنٹ میں کوئی ٹرانزیکشن نہیں کی جاسکتی، تاہم جلد ہی یہ سب بدلنے والا ہے۔

تازہ ترین