• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میاں نوازشریف نے صحافیوں کے سوالات سے گریز کرتے ہوئے کہاکہ ’’ان کا گلا خراب ہے اس لئے وہ بات نہیں کریں گے‘‘۔پیشہ ور گلوکار گلاخراب ہونے کا بہانہ اس موقع پر بناتے ہیں جب ان سے کبھی مفت گانے کی فرمائش کی جاتی ہے۔ میاں صاحب غالباََ صحافیوں کے سوالات کو پس پشت ڈال کر اپنے گلے کو آرام دینا چاہتے تھے تاکہ اپنی انرجی اس اجتماع کے لئے بچاپائیں جہاں عوام انہیں براہ راست سننے آرہے تھے۔ نوازشریف یکے بعد دیگرے وزارت عظمیٰ اور نون لیگ کی صدارت سے نااہل ہوئے جس کے باعث وہ ہر روز آتش فشاں جیسا پھٹتے ہیں۔ میاں صاحب SOPRANO (قوالوں کی طرح اونچے سروں میں گانے والا)کی طرح لوگوں سے پوچھتے ہیں کہ ’’کیا آپ میرے خلاف فیصلہ قبول کرتے ہیں‘‘۔ظاہر ہے وہ جلسے اور اجتماعات نون لیگ کے ہوتے ہیں اسلئے لوگ جواباََ’’ناں‘‘ کہتے ہیں۔نوازشریف اجتماع سے دوبارہ پوچھتے ہیں جس پر حاضرین اپنا جواب دہراتے ہیں۔میاں صاحب اور نون لیگ کے حامیوں کے مابین یہ جگل بندی دیدنی ہوتی ہے۔ پروفیشنل سنگرز کئی طریقوں سے اپنے گلے کی حفاظت کرتے ہیں۔بھارتی گلوکار محمد رفیع عام زندگی میں بہت کم بات کیاکرتے تھے تاکہ ان کے گلے کو آرام میسر آئے اور جب وہ گانے کے لئے مائیک پر کھڑے ہوں تو باجے کی آخری سپتک تک گائیں ۔ محمد رفیع کے گائے وہ گیت جو انہوں نے اونچے سُروں میں گائے وہ یاد گار رہے۔ کشمیر کی کلی کے لئے ’’چاہے مجھے کوئی جنگلی کہے‘‘ اور بیجوباورا کے لئے گایاگیت ’’او دنیا کے رکھوالے ،سن درد میرے نالے ‘‘ ۔درج بالا دونوں گیت میاں نوازشریف کو بہت پسند ہیں۔گیت دوم کا متن بھی حسب ِ حال ہے جس میں بیجو باورا اوپر والے سے فریاد کرتاہے کہ اس کے دکھڑے سن لے!
فلم ’’بیجوباورا‘‘ میں دکھایاگیاہے کہ مغل شہنشاہ اکبر کے زمانہ میں بیج ناتھ المعروف بیجو نامی ایک عوامی گلوکار تھا جو اپنے عہد کی اسٹیبلشمنٹ یعنی درباری اکبری کے سرکاری اور لاڈلے گوئیے تان سین کو گائیکی کا چیلنج کرکے ہرا دیتا ہے۔میاں صاحب اور بیجوباورا کی کہانی میں تھوڑی بہت مماثلت پائی جاتی ہے۔ سینیٹ کے حالیہ انتخاب میں نوازشریف نے عمران خان کو اچھے خاصے مارجن سے شکست دی ہے ۔تاہم ابھی سینیٹ کے چیئر مین کے لئے زور آزمائی ہورہی ہے۔ اس وقت میاں صاحب کو اینٹی اسٹیبلشمنٹ سیاست کا مرکزی کردار قراردیا جارہاہے۔ان کے برعکس عمران خان کو لاڈلا سمجھاجاتاہے ۔ یہ بھی ہماری تاریخ ہے کہ میاں نوازشریف بذات خود نہ صرف اسٹیبلشمنٹ کے لاڈلے رہے ہیں ۔ بعض تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ آصف زرداری بھی اسٹیبلشمنٹ کی آنکھ کاتارا بننے کے لئے راگ درباری الاپ رہے ہیں جو اکبر اعظم سے لے کر ہر اسٹیبلشمنٹ کا فیورٹ رہاہے۔ایک روایت کے مطابق تان سین نے شہنشاہ اکبر کو شہزادہ شیخو کی پیدائش کے وقت راگ درباری سنایاتھا جس کی استھائی تھی ’’انوکھا لاڈلا کھیلن کو مانگے چاند‘‘۔ بیسویں صدی میں شام چوراسی گھرانے کے استاد سلامت علی خاں اور مہدی حسن کو تان سین ثانی کہاگیاہے۔لتامنگیشکر نے مہدی حسن کے لئے کہاتھاکہ ’’شیری مہدی حسن کے گلے میں بھگوان بولتے ہیں‘‘۔بہت سال بعد جب میں نے لتا سے ٹیلی فونک انٹرویو کیاتو انہوںنے اپنی کہی بات کے متن کو بدلنا چاہا۔میں نے پوچھاکہ کیاآپ نے یہ نہیں کہاتھاکہ مہدی حسن کے گلے میں بھگوان بولتے ہیں؟لتا نے کہاکہ میرے الفاظ تھے کہ ’’یوں لگتاہے مہدی حسن کے گلے کو بھگوان رام نے اپنے ہاتھوں سے بنایاہے‘‘۔یہ ان دنوں کی بات ہے جب مہدی حسن آغا خان اسپتال کراچی میں اپنی زندگی کے آخری دن گن رہے تھے۔مجھے یاد ہے ان دنوں پاکستان اوربھارت کے تعلقات میں کشیدگی پائی جارہی تھی جس کے باعث لتامنگیشکر ان کے لئے تعریفی کلمات ادا کرنے سے گریزاں تھیں۔میں نے لتا سے کہاکہ مہدی حسن دنیا سے رخصت ہورہے ہیں، ان کے لئے آپ کے الفاظ بہت بڑا اعزاز ہیں کیاآپ چاہتی ہیں کہ وہ دنیا سے رخصت ہوتے ہوئے اس اعزاز سے محروم جائیں؟اس پر لتا منگیشکر دوبارہ مہدی حسن کے لئے نیک کلمات ادا کرنے لگیں ۔ایک دوسرے ٹیلی فونک انٹرویو میں لتا منگیشکر نے استاد حسین بخش گلو،غلام علی ،استاد مجید بٹ اور گلوکار جواد احمد کی موجودگی میں یہ کہا تھاکہ’’ وہ مہدی حسن کو اپنا استاد مانتی ہیں اور ان کی دعا سے گاتی ہیں‘‘۔لتا منگیشکر کے یہ الفاظ جواد احمد کے موبائل ٹیلی فون میں ریکارڈ ہیں۔جواد احمد سے درخواست گزار ہوں کہ وہ مہدی حسن کیلئے لتا کے ان الفاظ کو یوٹیوب پر لوڈ کردیں تاکہ دونوں ملکوں کے تعلقات کشیدہ ہونے پر بھی شہنشاہ غزل مہدی حسن کا ’’پروٹوکول‘‘ متاثر نہ ہوپائے۔
بقول لتامہدی حسن کے گلے میں بھگوان بولتے ہیں۔ اس اصول کے تحت سوچاجاسکتا ہے کہ میاں نوازشریف ،زرداری اور عمران خان کے گلے میں کون بولتا ہے؟بین الاقوامی امور خاص طور پر امریکہ اور پاکستان کے تعلقات کے ماہرین کا کہنا ہے کہ میاں صاحب امریکہ برینڈ جمہوریت کے داعی ہیں۔ پارلیمنٹ کی بالادستی، عوام کے ووٹ کا تقدس جیسے نعرے جاتی امرا میں تخلیق نہیں کئے جاتے بلکہ یہ واشنگٹن سے امپورٹ کئے جارہے ہیں۔ ایک عرصہ سے امریکہ اور پاکستانی فوج کے ورکنگ ریلیشن شپ مثالی نہیں ہیں۔
ٹرمپ انتظامیہ کی طرف سے پاکستان کو دہشت گردوں کی پناہ گاہ قراردے کر سیکورٹی امداد کی معطلی سمیت دیگر الزامات کا سامنا کرناپڑرہاہے۔ امریکہ اور پاکستان کے فوجی ڈاکٹرائن بدل گئےہیں۔ماضی میں امریکہ اس خطے میں کمانڈکیلئے پاکستانی فوج پر انحصار کرتاتھا ۔ یہ سلسلہ پاکستان میںامریکہ کیلئے بڈھ بیر کے فوجی اڈوں اور افغانستان کی سرزمین پر سوویت یونین کے خلاف امریکی اسپانسرڈ جہاد تک جاری رہا ۔ نائن الیون نے پاکستان کو ایک مرتبہ پھر امریکہ کے پلے باندھ دیاتھا لیکن اب حالات بدل گئے ہیں۔ ایک عرصہ سے ہماری خارجہ پالیسی میں روس،چین اور ترکی سمیت خطے کے دیگر اہم ممالک سے تعلقات میں بہتری لانا بھی اہم سمجھ لیاگیاہے۔پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو50سال پہلے ہمیں یہ خارجہ پالیسی دے گئے تھے لیکن افسوس ہم امریکہ کے پالنے میں جھولتے رہے اور ہم نے اپنا آپ خاکستر کرلیا۔ گزرے 70سالوں میں بھارت نے امریکہ کے ساتھ روس سے بھی دوستانہ تعلقات استوار کئے رکھے مگر ہم ایسا نہ کرسکے جس کا ہمیں ناقابل تلافی نقصان ہوا۔سی پیک کا پورا کریڈٹ میاں صاحب لیتے ہیں ،مریم نوازاور نون لیگ کے’’ ہاف بوائلڈ انقلابی‘‘ یہ کہتے ہوئے تھکتے نہیں کہ’’ نوازشریف کو سی پیک بنانے کی سزادی جارہی ہے‘‘۔چین کے ساتھ تعلقات کا آغاز 50کی دہائی میں ہوا تھا ،بھٹو دور میں یہ رشتہ سمندر سے گہرا اور ہمالیہ سے بلند ہواتھا لیکن نوازشریف بیجوباورا کی طرح اونچے سُروں میں سارا کریڈٹ خود کو دینے میں مصروف ہیں ۔ میرے دوست استاد فہیم مظہر کلاسیکی موسیقی کے ماہر ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ ہارمونیم کی تین سپتکوں کے حساب سے نوازشریف کا نارمل ووکل کاڈ یعنی بولنے کا سُر پہلاسفید ہے جو نرم ملائم اوردھیما ہے لیکن جب وہ کہتے ہیںکہ ’’مجھے کیوں نکالا‘‘ تو بیجوباورا کی طرح اونچے سُروں میں جا پہنچتے ہیں۔بیجوباور ا کی اصل کہانی میںتان سین ،بیجو سے گائیکی کا مقابلہ ہار جاتاہے جس پر دربارِاکبر سے اسے سزائے موت سنائی جاتی ہے لیکن بیجو باورا شہنشاہ اکبر سے تا ن سین کی زندگی مانگ کر سنگیت کی حیات کو بچالیتاہے۔میاں صاحب شروع سے بیجوباورا نہیں تھے ،یہ کبھی میاں تان سین ہوا کرتے تھے ان کا تعلق آمریت کے ضیاالحقی جالندھری گھرانے سے ہے۔اب تان سین کی سیٹ خالی ہے دیکھنا یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کے شاہی گوئیے کا اہم پورٹ فولیو کپتان کے ہاتھ آتاہے یا استاد زرداری اس سنگھاسن پر براجمان ہوتے ہیں؟
کالم پر ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں 00923004647998

تازہ ترین