سلیم آزاد:میرپورخاص
میرپورخاص ڈویژن سمیت سندھ بھر میں روزمرہ استعمال کی اشیاء کی گرانی کی صورت حال پر ایک طائرانہ نظر ڈالی جائے تو عام صارف انتہائی مظلوم دکھائی دیتا ہے۔صارفین کو مکمل طورسےدکانداروںاورکاروباری حضرات کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا گیا ہے ،کوئی ادارہ ایسا نہیں جو صارفین کے ساتھ لوٹ مار کرنے والوںکا محاسبہ کرے۔
ہر ملک میں قومی و مذہبی تہواروں کے موقع پر اشیائے خوردنی و صرف کی قیمتوں میں کمی کردی جاتی ہے، لیکن ہمارے ملک میںرمضان المبارک ، عیدین اور اقلیتوں کے تہوار کے موقع پر تاجر طبقے کو عوام کی کھال کھینچنے کا بھر پور ریلیف دیا جاتا ہے۔ حکومت کی جانب سے ان موقعوں پر نہ تو کوئی قانون سازی کی جاتی ہے اور نہ ہی ضابطہ اخلاق مرتب کیا جاتا ہے، جس کی وجہ سے دکاندار حضرات سال بھر کا منافع رمضان جیسے مقدس مہینے اور تہواروں کے ایام کے چند روز کے دوران کمانے کی کوشش کرتے ہیں۔
غریب عوام کو کسی قسم کا ریلیف دینے کے بجائے نہ صرف روزمرہ کی اشیاء کی قیمتیں ہوش ربا حد تک بڑھا دی جاتی ہیں بلکہ ان کی ذخیرہ اندوزی کرکےمہنگے نرخوں پر فروخت کی جاتی ہیں۔
تہواروں کے علاوہ عام دنوں میں بھی مہنگائی کا یہی عالم رہتا ہے ۔ اس ملک میں صرف تاجر طبقے کو نوازا جاتا ہے جب کہ صارفین کے حقوق نہ ہونے کے برابر ہیں۔ کراچی سمیت ملک کے دیگر شہروں میں ’’صارفین کے حقوق ‘‘ سے متعلق نام نہاد تنظیمیں قائم ہیں لیکن وہ عوام کی بہبود کے لیے کام کرنے کی بجائے تاجر اور کاروباری حضرات کےمفاد میں کام کرتی ہیں جس کےعوض خطیر رقوم و دیگر فوائد حاصل کرتی ہیں۔
ملک کے دیگر شہروں کی طرح میرپورخاص ضلع کے شہری ودیہی قصبات، شدید ترین مہنگائی کی لپیٹ میں ہیں۔ڈیری مصنوعات دودھ،دہی، سبزی، پھل سمیت تمام خوردنی اشیاء کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے ، پرائس کنٹرول اتھارتی یا حکومتی رٹ کہیں بھی نظر نہیں آتی۔
سندھ اسمبلی نے فروری 2015میں صارفین کے حقوق کے تحفظ کیلئے متفقہ طور سے ایک بل منظور کیا تھا ،جسے ’’سندھ کنزیومرپروٹیکشن ایکٹ 2014 ‘‘یا تحفظ صارفین ایکٹ کانام دیا گیاتھاجس کے تحت صارفین کی شکایات کے ازالے کیلئے صوبہ بھر میں کنزیومر کورٹس کا قیام عمل میں آنا تھا۔مذکورہ بل کی منظوری کو تقریباًتین سال گزر چکے ہیں لیکن صارفین کے حقوق کے تحفظ کیلئےاب تک صارفین عدالتیں قائم نہیں ہوسکی ہیںجس کی وجہ سے صارفین کنزیومر پروٹیکشن ایکٹ کی موجودگی کے باوجود عوام آج بھی منافع خوروں اور ذخیرہ اندوزوں کے رحم وکرم پر ہیں۔ ۔
سندھ میں جہاں پیپلز پارٹی سب سے زیادہ عرصےاقتدار میں رہی ہے اسے یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ صارفین کےتحفظ کا قانون سب سے پہلےمحترمہ بینظیر بھٹو1995میں بہ حیثیت وزیر اعظم، متعارف کروایا گیا تھا ،لیکن نوکر شاہی نے اسے سرخ فیتےکی نذر کرتے ہوئے صوبائی حکومتوں کے کھاتے میں ڈال دیا تھا۔
2015میں بل کی منظوری کے بعد اس نے باقاعدہ ایکٹ کی صورت اختیار کرلی ہے، لیکن اس ایکٹ کا حکومتی سطح پر اطلاق کرنے کے لیے کوئی بھی پیش رفت نہیں کی گئی اور کنزیومر کورٹس کا قیام ہنوز تعطل کا شکار ہے۔سندھ حکومت کو پریشان حال عوام پر بھی توجہ مرکوز کرنا چاہیےاور عوام کو مہنگائی کے عذاب، تاجروں و کاوباری حضرات کی چیرہ دستیوں اور ملاوٹ شدہ شیاء سے نجات دلانے کے لیے جلد سے جلد صارفین کورٹس قائم کرنا چاہئیں۔