• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اسلام آباد میں قدرتی موسم کی تبدیلی کے بعد حکومت کے رہنے یا نہ رہنے کے حوالے سے بھی موسم بدلنے کے اشارے مل رہے ہیں۔اسلام آباداور پنڈی کے کئی ٹیلرز کی چاندی ہوگئی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اس بار کراچی اور لاہور کے نئے نظام کا حصہ بننے والے شوقین شاید اسلام آباد ہی سے شیروانیاں اور نئی طرز کے تھری پیس سوٹ سلوانے کی نہ صرف منصوبہ بندی کر چکے ہیں، بلکہ ممکن ہے کہ کئی پہلے سے بنوا بھی چکے ہوں۔ پاکستان شاید دنیا کا واحد ملک ہے، جہاں ایک سو یا دو سو شخصیات ہمہ وقت کسی نہ کسی طرح نئی ذمہ دار یوں کا حلف اٹھانے کے لئے بے چین رہتی ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں، جو سندھ کلب اور اسلام آباد کلب میں منصوبہ بندی کرتے کرتے اکثر تھک بھی جاتے ہیں، مگر سینیٹ کے کامیاب مگر کرپشن کی بدنامی کے حوالے سے ایک نئی تاریخ رقم کرنے والے انتخابات کے بعد مارچ کے ختم ہونے میں18،20دن رہ جاتے ہیں جبکہ حکومت کے خاتمہ کی آئینی مدت بھی آخری 60،70دنوں کی سیڑھی چڑھ چکی ہے۔ اب اسلام آباد کے دونوں فائیوا سٹارز ہوٹل نئے نظام کے امیدواروں کی میزبانی میں مصروف ہیں، جو کسی کو بھی ظاہر نہیں ہونے دے رہے کہ ان کا کل کا ایجنڈا کیا ہے، انہیں تو اپنے حلف اٹھانے سے غرض ہے، چاہے اس کے لئے جمہوریت کا ٹریک بھی انہیں چھوڑنا پڑے۔ ایسے لوگوں کی بڑی تعداد امید سے نظر آرہی ہے مگر کس کس کی امید کب بر آتی ہے یہ خدا ہی بہتر جانتا ہے، مگر اسلام آباد میں بہرحال کچھ نہ کچھ تو ہورہا ہے جو پارلیمنٹ کے اندر اور باہر دو دہائیوں سے ہر حکومت کا ساتھ نبھانے والے ضرورت سے زیادہ فعال نظر آرہے ہیں۔ آخر کیوں؟ اگر یہ غیر مصدقہ سوچ یا خیال صحیح ہوجاتا ہے تو بیرون دنیا میں پاکستان کا امیج کیا ہوگا۔ خاص کر سفارتی نقطہ نظر سے کئی مسائل تو پیدا نہیں ہوجائیں گے، اگر ایسی کوئی بات نہیں ہے تو پھر اللہ سے خیر کی دعا مانگنی چاہئے اور ہر سطح پر یہ کوشش ہونی چاہئے کہ سینیٹ کی طرح عام انتخابات بھی ماہ جولائی یا اکتوبر میں بروقت منعقد ہوجائیں، مگر اس سے پہلے اعلیٰ عدالتوں کو سینیٹ میں کڑوروں روپے کے لین دین کی کم از کم آئندہ کے لئے حوصلہ شکنی کے لئے کوئی ایسا ضابطہ کار نافذ ہونا چاہئے جس سے امریکی طرز پر سینیٹرز کی تقرری اور ان کے رول کو واضع کردیا جائے، اگر ایسا ممکن نہیں تو پھر سینیٹ انتخابات کے کم از کم طریق کار کو بدل دیا جائے، جس کی وجہ سے کئی قباحتیں پیدا ہورہی ہیں اس سلسلہ میں موجودہ پارلیمنٹ نے جاتے جاتے کم از کم قومی مفاد اور ضروریات کے تحت کوئی موثر قانون سازی کی ہے،تو اس سے پاکستان میں عام افراد کا جمہوریت پر اعتماد برقرار رہ سکتا ہے، لیکن اگر ایسا نہ ہوسکا تو پھر عام انتخابات (اگر ہوتے ہیں) میں تو انتخابی ضابطہ اخلاق کی کوئی وقعت نہیں رہے گی، اس سلسلہ میں الیکشن کمیشن کے حکام کو بھی ابھی سے مؤثر حکمت عملی بنانا ہوگی، ورنہ عام انتخابات میںمختلف سطح پر ٹکٹوں کی تقسیم اور پھر وازرتوں کی بندر بانٹ میں بھی قوم کو بھاری قیمت ادا کرنا پڑے گی۔
اس وقت مختلف ماہرین اس پر مطمئن نظر آرہے ہیں کہ ملک میں کرپشن کی حوصلہ شکنی کے لئے متعلقہ ادارے آہستہ آہستہ مؤثر کردار ادا کرنے کی طرف بڑھ رہے ہیں، ان کے مطابق اگر یہ ادارے مضبوط اور منصفانہ احتساب کریں گے تو پاکستان کے امیج کے حوالے سے بیلنس شیٹ آہستہ آہستہ بہتر ہوتی جائے گی، جو اس وقت کئی اسباب کی وجہ سے دھندلی ہوتی جارہی ہے، اس لئے اب قومی سطح پر یہ رائے بھی سننے میں آرہی ہے کہ ملک میں یا تو کرپشن ہورہی ہے اور یا پھر احتساب ہورہا ہے ،اب اس میں سے قوم کو فیصلہ کرنا ہے کہ کس کام کی حوصلہ افزائی کرے۔ کرپشن کی حوصلہ افزائی میں چند خاندان اور چند سو افراد کے پیٹ بھرتے ہیں اور احتساب میں قوم کی اکثریت بالواسطہ اور بلاواسطہ مطمئن ہوتی ہے اور اس سے عالمی سطح پر پاکستان کے اچھے مستقبل کے نقوش زیادہ نمایاں نظر آتے ہیں۔ دوسری صورت میں ملک کی بیلنس شیٹ مزید خراب ہوسکتی ہے جس کے ہم بطور قوم زیادہ متحمل نہیں ہوسکتے۔
kk

تازہ ترین