• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ارکان پارلیمنٹ کو فنڈز کس قانون کے تحت ملتے ہیں، چیف جسٹس کا ازخود نوٹس

ارکان پارلیمنٹ کو فنڈز کس قانون کے تحت ملتے ہیں، چیف جسٹس کا ازخود نوٹس

اسلام آباد (رپورٹ :…رانا مسعود حسین، ایجنسیاں) چیف جسٹس آف پاکستان ،مسٹر جسٹس میاں ثاقب نثار نے عام انتخابات سے قبل قومی اسمبلی ،سینیٹ اور صوبائی اسمبلیوں کے اراکین کو اربوں روپے کے ترقیاتی فنڈز دینے کے عمل کیخلاف ازخود نوٹس لیتے ہوئے ایڈیشنل اٹارنی جنر ل سے حکومت سے فنڈز کے اجرا ء کی قانونی حیثیت سے متعلق ہدایات لینے کا حکم جاری کیا ہے ،جبکہ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے ہیں کہ عام انتخابات سے قبل قومی اسمبلی، سینٹ اور صوبائی اسمبلیوں کے اراکین کو اربوں روپے کے ترقیاتی فنڈز کی بندر بانٹ کس قانون کے تحت کی جاتی ہے ؟ کیا یہ انتخابات سے قبل دھاندلی نہیں، ہو سکتا ہے انتخابات سے قبل ترقیاتی فنڈز کے اجراء پر پابندی لگا دیں، سرکاری فنڈز کو اراکین اسمبلی کی صوابدید پر چھوڑا جا سکتا۔عدالت نے سیاسی رہنمائوں کی تصاویر والے اشتہارات کے پیسے پارٹی رہنمائوں سے واپس لے کر قومی خزانے میں جمع کروانے کاحکم جاری کرتے ہوئے کہا کہ سیاسی لیڈروں کی تصویروں والے اشتہارات کے سوا کسی اشتہار پر پابندی نہیں۔ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں قائم تین رکنی بینچ سوموار کے روز ایک اسی نوعیت کے مقدمہ کی سماعت کررہا تھا کہ فاضل چیف جسٹس نے یہ از خود نوٹس لیا ،انہوں نے ریمارکس دیئے کہ یہ بات سامنے آرہی ہے کہ حکومت الیکشن سے پہلے اراکین کوترقیاتی فنڈز جاری کررہی ہے، کیا اراکین کو ترقیاتی فنڈز دینے کا عمل پری پول دھاندلی کے زمرہ میں نہیں آتا ہے؟ الیکشن سے پہلے ارکان پارلیمنٹ و صوبائی اسمبلیز کوکروڑوں روپے کے ترقیاتی فنڈز کس قانون کے تحت دیئے جاتے ہیں؟ فاضل چیف جسٹس نے حکم دیا کہ ایڈیشنل اٹارنی جنرل حکومت سے فنڈز کے اجرا ء کی قانونی حیثیت پوچھ کرعدالت کو آگاہ کریں۔ دریں اثناءعدالت عظمیٰ نے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی جانب سے قومی میڈیا پر سیاسی رہنمائوں کی تصاویر والے اشتہا را ت کے پیسے پارٹی رہنمائوں سے واپس لے کر قومی خزانے میں جمع کروانے کاحکم جاری کرتے ہوئے ایک ہفتہ کے اندر اندر پچھلے تین ماہ کے دوران میڈیا کو جاری ہونے والے اشتہارات کی مکمل تفصیلات عدالت میں جمع کروانے کا حکم جاری کیا ہے ،جبکہ ایک بار پھر اپنے فیصلے میں واضح کیا ہے کہ عدالت نے ماسوائے سیاسی لیڈروں کی تصویروں کے کسی بھی قسم کے اشتہارات پر کوئی پابندی عائد نہیں کی ہے، عدالت نے کونسل آف پاکستان ،نیوز پیپرز ایڈیٹرز ( سی پی این ای ) کے صدر ضیاء شاہد کو اشتہارات کے اجراء کی شفاف پالیسی کے حوالے سے تشکیل دی گئی مجوزہ گائیڈ لائنز تمام تر اخبارات میں چھپوانے کی ہدایت کرتے ہوئے کیس کی مزید سماعت 4 اپریل تک ملتوی کردی ہے۔ اسی مقدمہ کی سماعت کے دوران ہی چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے عام انتخابات سے قبل قومی اسمبلی ،سینیٹ اور صوبائی اسمبلیوں کے اراکین کو اربوں روپے کے ترقیاتی فنڈز کی مبینہ بندر بانٹ کے خلاف ازخود نوٹس لیتے ہوئے ایڈیشنل اٹارنی جنر ل کو حکومت سے فنڈز کے اجرا ء کی قانونی حیثیت سے متعلق ہدایات لینے کا حکم بھی جاری کیا ہے،فاضل چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے ہیں کہ سرکاری منصوبوں سے آگہی عوام کا حق ہے لیکن اشتہارات میں سیاسی شخصیات کی تصاویر نہیں ہونی چاہییں، ووٹ مانگنے کے لئے سرکاری اشتہار کا استعمال نہیں ہو سکتا ہے ، یہ کام اپنی ذمہ داری سمجھ کر کر رہے ہیں، حکومتیں اپنی تشہیر کے لیے سرکاری خزانے کا استعمال کرنے کی بجائے اپنا پارٹی فنڈز استعمال کریں، سرکاری پیسے سے اشتہار پری پول رگنگ کے مترادف ہے ، ہم نہیں چاہتے کہ میڈیا انڈسٹری کا کاروبار متاثر ہو جائے ، جہاں دیکھا کہ میڈیا کی آزادی کو دبایا جا رہا ہے تو فریقین سے تجاویز لیں گے ، ابھی صرف گائیڈ لائنز کی حد تک دیکھ رہے ہیں، اگلے مرحلے میں اشتہارات کی شفاف تقسیم کے معاملہ کو بھی دیکھیں گے، عدالت نے کسی کے اشتہارات کو نہیں روکا ہے صرف سیاسی شخصیات کی تصاویر والے اشتہارات کو بند کیا ہے۔ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں جسٹس عمر عطا بندیال اور جسٹس اعجاز الاحسن پر مشتمل تین رکنی بینچ نے منگل کے روز سرکاری اشتہارات کے اجراء میں عدم شفافیت سے متعلق از خود نوٹس کیس کی سماعت کی تو آل پاکستان نیوز پیپرز سوسائٹی(اے پی این ایس ) کے صدر سرمد علی اور ان کے وکیل بابر ستار ، کونسل آف پاکستان، نیوز پیپرز ایڈیٹرز ( سی پی این ای ) کے صدر ضیاء شاہد اور ان کے وکیل منیر اے ملک پیش ہوئے، منیر اے ملک نے عدالت کے سابق حکم کی روشنی میں اشتہارات کے اجراء کی شفاف پالیسی کے حوالے سے تشکیل دی گئی مجوزہ گائیڈ لائنز پڑھیں ،تو فاضل چیف جسٹس نے سرمد علی اور ضیاء شاہد کو کہا کہ ان مجوزہ گائیڈ لائنز کو مشتہر کردیتے ہیں۔ ضیاء شاہد نے کہا کہ سرکاری اشتہارات کو ایک آلہ کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔انہوں نے چیف جسٹس سے استدعا کی کہ ہمیں اس صورتحال سے نجات دلائیں۔جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ احسان کس بات کا ،ہم تو اپنی ذمہ داریاں نبھا رہے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس کیس کے دو پہلو ہیں،اول حکمرانوں کی جانب سے سرکاری اشتہارات کو ذاتی تشہیر کے لئے استعمال ، دوئم اشتہارات کی غیر مساوی تقسیم اور اسے بطور آلہ استعمال کرنے کا جو معاملہ آج آپ لوگوں نے اٹھایا ہے ، انہوں نے ریمارکس دیئے کہ جو میڈیا گروپ حکومت کے خلاف چلتا یا تنقید کرتا ہے اس کے اشتہارات بند کردیئے جاتے ہیں ،کیا یہ آزادی صحافت یا آزادی تحریر و تقریر کے خلاف نہیں ہے؟ انہوں نے کہا کہ ہم ان دونوں معاملات کو الگ کررہے ہیں، اس کیس کو پہلے گائیڈ لائنز کے حوالے سے دیکھتے ہیں اس کے بعد اشتہارات کی غیر مساوی تقسیم اور اسے بطور آلہ استعمال کرنے کے حوالے سے حکومت سے کمنٹس لیں گے ،دوران سماعت سرمد علی نے کہا کہ جنگ اور دی نیوز کو زیرو کیا ہوا ہے تو چیف جسٹس نے کہا کہ ہمارے سامنے جنگ اور دی نیوز یا نوائے وقت کا معاملہ نہیں بلکہ ہم نے تو برابری اور مساوات کے اصولوں کے مطابق کیس کا جائزہ لینا ہے۔ چیف جسٹس نے منیر اے ملک کو کہا کہ آپ مجوزہ گائیڈ لائن کی کاپیاں وفاقی و صوبائی حکومتوں اور دیگر فریقین میں تقسیم کردیں ،اگر اتفاق ہو گیا تو منظور کرلیں گے ،اعتراضات کی صورت میں ان کی سماعت کرلینگے۔ بعد ازاں فاضل عدالت نے اپنے فیصلے میںواضح کیا کہ عدالت نے ماسوائے سیاسی لیڈروں کی تصویروں کے کسی بھی قسم کے اشتہارات پر کوئی پابندی عائد نہیں کی ہے،عدالت نے ضیاء شاہد کو گائیڈ لائنز تمام تر اخبارات میں چھپوانے کی ہدایت کرتے ہوئے فریقین کے ساتھ میٹنگ کرنے کا بندو بست کرنے کی ہدایت کے ساتھ کیس کی مزید سماعت 4 اپریل تک ملتوی کردی۔ قبل ازیں فاضل عدا لت نے سیاسی لیڈروں کی تصویروں والے اشتہارات شائع کرنے سے متعلق کیس کی سماعت کی تو خیبرپختونخوا کے سیکرٹری اطلاعات قیصر عالم پیش ہوئے اور بتایا کہ گزشتہ تین ماہ میں 24کروڑ 12لاکھ 9ہزار روپے اشتہارات پر خرچ کیے گئے ہیں ، یہ اشتہارات یکم دسمبر 2017 سے لے کر 28 فروری 2018 تک دیئے گئے تھے ،انہوں نے مزید کہا کہ تین ماہ کے اشتہارات میں پرویز خٹک اور عمران خان کی تصاویر تلاش نہیں کرسکا ہوں ، جس پر چیف جسٹس نے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ خیبر پختونخوا حکومت نے تین ماہ میں اپنی ذاتی تشہیر کے لئے 24کروڑ روپے اشتہارات پر لگادیئے ہیں؟،جس پر انہوں نے بتایا کہ یہ اشتہارات عوامی آگاہی اور فیڈبیک کے لیے دیئے گئے تھے ،دوران سماعت ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل پنجاب ،عاصمہ حامد نے پنجاب حکومت کی جانب سے سرکاری اشتہارات سے متعلق گزشتہ تین ماہ کی رپورٹ عدالت میں جمع کرائی جس پر چیف جسٹس نے ان سے استفسار کیا کہ اشتہارات میں سیاسی رہنمائوں کی تصاویر شامل ہیں؟ تو انہوں نے کہا کہ جی ہاں،جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ذاتی تشہیرکے پیسے کون ادا کریگا؟ تو انہوں نے کہا کہ عدالت جو حکم کرے گی اس کی تعمیل کی جائے گی،جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ کیا آپ نے 55لاکھ روپے کا پہلے والا چیک دے دیا ہے؟ تو انہوں نے اثبات میں سر ہلایا ،چیف جسٹس نے مزید کہا کہ اس معاملے کو پورا دن سنوں گا، یہ معاملہ ایک دو دن میں حل ہوجائے گا ، اس پر کام کررہے ہیں، ہم چاہتے ہیں کہ سیاسی لیڈر اپنی تصاویرسرکاری اشتہارات میں لگوانا بند کرادیں۔ انہوں نے کہا کہ جن سرکاری اشتہارات میں لیڈروں کی تصاویر لگی ہیں پارٹی رہنما اپنی جیب سے یا پارٹی فنڈ ز سے پیسے واپس کریں۔ دوران سماعت حکومت سندھ کی جانب سے بھی تسلیم کیا گیا کہ ان کے اشتہارات میں بھی پارٹی کے رہنمائوں کی تصویریں شائع کی گئی تھیں ،جس پر عدالت نے پیپلز پارٹی کو بھی سرکاری اشتہارات کی رقم واپس کرنے کا حکم جاری کیا ،چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ حکومتیں اپنی تشہیر کے لیے سرکاری خزانہ استعمال نہ کریں۔بعد ازاں فاضل عدالت نے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی جانب سے قومی میڈیا پر سیاسی رہنمائوں کی تصاویر والے اشتہارات کے پیسے پارٹی رہنمائوں سے واپس لے کر قومی خزانے میں جمع کروانے کاحکم جاری کرتے ہوئے ایک ہفتہ کے اندر اندر پچھلے تین ماہ کے دوران جاری ہونے والے اشتہارات کی مکمل تفصیلات عدالت میں جمع کروانے کا حکم جاری کرتے ہوئے کیس کی مزید سماعت 4 اپریل تک ملتوی کردی۔

تازہ ترین