اسلام آباد (نیوز ایجنسیاں،جنگ نیوز) سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ثاقب نثار نے ریمارکس دیئے ہیں کہ حکومت سورہی ہے، پیسہ باہر لے جانے سے روکنے کیلئے کچھ تو کرتی ایک آرڈیننس ہی لے آتی،پاناما اور پیرا ڈائزلیکس میں شامل پاکستانیوں کا ابھی تک کچھ پتا نہیں، دیکھنا ہےہم ملک سے باہر پیسہ لے جانا بند کرسکتے ہیں یا نہیں، کمیٹی نے تو کچھ نہیں کرنا، پیش کردہ رپورٹ میں کچھ خاص نہیں ہے۔جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ہرلیکس میں آتاہے پاکستانیوں کی کتنی جائیدادیں باہرہیں، ملک کاپورانظام ایلیٹ طبقے کوسپورٹ کرتاہے، حکومت کوابتک ایکشن لیناچاہیے تھا۔ ایف بی آر کی جانب سے عدالت کو بتایا کہ بیرون ملک پاکستانیوں کو اثاثے ظاہرکرنے کیلئے ایمنسٹی اسکیم مارچ کے اختتام تک متعارف کرائی جائے گی جس کا فارمیٹ تیارہے۔ عدالت نے معاشی ایکسپرٹ محمود مانڈوی والا اور شبر زیدی کو عدالت کا معاون مقرر کردیا جبکہ گورنر اسٹیٹ بنک کے پیش نہ ہونے پر برہمی کا اظہارکرتے ہوئے مقدمے کی سماعت 20مارچ تک ملتوی کردی۔سپریم کورٹ میں بیرون ملک پاکستانیوں کے بینک اکاؤنٹس سے متعلق ازخودنوٹس کی سماعت ہوئی۔سپریم کورٹ نے پاکستانیوں کی بیرون ملک جائیدادوں کی تفصیل طلب کرتے ہوئے کہا ہے کہ تفصیلات آنے پر دیکھیں گے کیا قانون سازی ہو سکتی ہے اور کیا فیصلہ دیا جا سکتا ہے؟۔ لوگ اوپن مارکیٹ سے ڈالر خرید کر فارن اکائونٹ سے باہر بھیج دیتے ہیں،حکومت سورہی ہے، پیسہ باہر لے جانے سے روکنے کیلئے کچھ تو کرتی ایک آرڈیننس ہی لے آتی۔ جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا کہ قانون میں خامیوں کے باعث کسی نے اثاثے ظاہر کرنے کی زحمت ہی نہیں کی، ہمیں لیکس سے پتا لگتا ہے کہ لوگوں کی کتنی پراپرٹیز باہر ہیں، اگر اس میں قانونی اقدامات اٹھانے ہیں توکام شروع ہونا چاہیے۔سیکرٹری فنانس نے عدالت میں کہا کہ کیس کے دو حصے ہیں، ایک باہر سے پیسہ لانے کا، ایک باہر جانے سے روکنے کا۔ اس پر چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ آپ کوکچھ نہ کچھ قدم اٹھانا چاہیے تھا تاکہ پیسہ باہرجانے کا سلسلہ بند ہو، پاکستان کی تباہی ایسے ہوتی ہے کہ لوگ پیسہ اڑا کرباہرلے گئے۔جسٹس ثاقب نثار نے چیئرمین ایف بی آر سے استفسار کیا کہ آپ ان لوگوں کونہیں پکڑسکے جن کے نام پاناما اوردیگر لیکس میں آئے۔چیف جسٹس ثاقب نثار نے ریمارکس دیئے کہ پاکستان سے پیسا باہر لے جانا ملک کیلئے تباہی ہے، بچوں کی پڑھائی کےلئے رقوم بھیجنا الگ چیز ہے، یہ معلوم ہونا چاہیے کہ کن کا لوگوں کے ملک سے باہر کرنسی اکاؤنٹس ہیں۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ جن ممالک سے معاہدے ہیں ان سے معلومات حاصل کی جا سکتی ہیں۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ جرمنی، بھارت نے اپنے لوگوں سے متعلق سوئٹزرلینڈ سے کس طرح معلومات لیں؟ چیف جسٹس نے کہا کہ پاناما اور پیراڈائز لیکس میں شامل پاکستانیوں کا ابھی تک کچھ پتہ نہیں ہے، عدالت گورنر اسٹیٹ بینک پر انحصار کر رہی ہے، انہیں موجود ہونا چاہیے۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ملک کا پورا نظام ایلیٹ طبقے کو سپورٹ کر رہا ہے، قانون میں خامیوں کے باعث کسی نے اثاثے ظاہر کرنے کی زحمت ہی نہیں کی۔ چیئرمین ایف بی آر نے جواب دیا کہ ہم نے اشتہارات دیئے لیکن کوئی انفارمیشن نہیں آئی۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ملک کا پورا نظام ایلیٹ طبقے کو سپورٹ کررہا ہے، حکومت کو اب تک ایکشن لینا چاہیے تھا۔معزز چیف جسٹس نے کہا کہ دیکھنا ہے کہ ہم پاکستان سے باہر پیسہ لے جانا بند کرسکتے ہیں یا نہیں، ہم نے دو باتوں پر فوکس کیا ہے،کمیٹی نے تو کچھ نہیں کرنا، کمیٹی کی پیش کردہ رپورٹ میں کچھ خاص نہیں ہے، ہم اس معاملے کو روزانہ کی بنیاد پر سنیں گے۔ جسٹس ثاقب نثار نے استفسار کیا کہ پا کستا نی شہریوں کی باہرپراپرٹی کیا ہیں اور اکاؤنٹ میں کیا رکھا ہوا ہے؟ چیف سیکرٹری فنانس نے کہا کہ تین ماہ سے حکومت کے سامنے چیزیں لائے ہیں۔ چیف جسٹس پاکستان نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کیا کر رہی ہے؟ وہ سورہی ہے، یہ معلوم ہونا چاہیے کہ کن کن لوگوں کے ملک سے باہرکرنسی اکاؤنٹس ہیں، بچوں کی پڑھائی کے لیے رقوم بھیجنا الگ چیز ہے۔عدالت نے معاشی ایکسپرٹ محمود مانڈوی والا اور شبر زیدی کومعاون مقرر کرتے ہوئے سماعت 20 مارچ تک ملتوی کردی۔ چیف جسٹس پاکستان نے کہاکہ 20 مارچ سے روزانہ کی بنیاد پر مقدمہ کی سماعت کریں گے۔