• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

روس کے خلاف اٹھ کھڑا ہوجانا چاہئے خواہ یہ ایک شخص کی زندگی کی خاطر کیوں نہ ہو!

روس کے خلاف اٹھ کھڑا ہوجانا چاہئے خواہ یہ ایک شخص کی زندگی کی خاطر کیوں نہ ہو!

(ڈینیل حنان)

آخری اقدام جس کی ہمیں ضرورت ہے،بغیر کسی لگی لپٹی کے،وہ روس کے ساتھ ایک نیا تنازع تھا۔برطانیہ ہرممکن طورپر زیادہ سے زیادہ ملکوں کے ساتھ اپنے دوطرفہ تعلقات کو مستحکم بنانے کا خواہاں ہے۔روس کے ساتھ ہماری تجارت میں گزشتہ سال کے دوران بیس فیصد اضافہ ہوا،اوردولت مند روسی شخصیات کی جانب سے ہمارے ہاں بڑے پیمانے پر سرمایہ لگایا گیا۔

انوک پاؤل نے، کسی حدتک غیر ہم آہنگ طورپر،ٹیلرزکے نقطہ نظرکو شیئر کیا ،قائل کیا ،حتیٰ سردجنگ کے عروج کے وقت،کہ یہ دونوں نیم یورپی قومیں بنیادی قرابت داری پرمبنی مفادات رکھتے ہیں۔ٹیلر اورپاؤل بلاشبہ بریگزٹ دیکھ چکے ہوں گےاوراس کے منطقی فیصلے کو جو اس کی مشترکہ خارجہ پالیسی کومضبوط بنا ہے کیونکہ اتفاق رائے پیدا کرنا زیادہ اہم ہے۔

لیکن ان سب کے باوجود ہم اپنی سرزمین پر ایک حملے کو نظراندازنہیں کرسکتے ہیں،ایک ایسا حملہ جس کے نتیجے میں ایک پولیس اہلکار انتہائی نگہداشت کے مرحلے تک پہنچ چکا ہے۔یہ اس ڈھنگ کا ملک نہیں جیسے ہم ہیں۔

نظریے کے طورپر،ایسا ممکن ہے کہ ہم روس کے ساتھ ایک محتاط مفاہمت کا معاملہ طے کریں۔اے جے پی ٹیلر دلیل دیا کرتے تھے کہ برطانیہ اورروس،یورپ تک محیط ہونے کے باعث،قدرتی حلیف تھے،دونوں اس براعظم پر غلبہ حاصل کرنا نہیں چاہتے،دونوں ممالک طاقت کے توازن کو برقراررکھنے کے خواہاں ہیں۔

انوک پاؤل نے، کسی حدتک غیر ہم آہنگ طورپر،ٹیلرزکے نقطہ نظرکو شیئر کیا ،قائل کیا ،حتیٰ سردجنگ کے عروج کے وقت،کہ یہ دونوں نیم یورپی قومیں بنیادی قرابت داری پرمبنی مفادات رکھتے ہیں۔ٹیلر اورپاؤل بلاشبہ بریگزٹ دیکھ چکے ہوں گے،اوراس کے منطقی فیصلے کو جو اس کی مشترکہ خارجہ پالیسی کومضبوط بنا ہے کیونکہ اتفاق رائے پیدا کرنا زیادہ اہم ہے۔

مسئلہ یہ ہے کہ ہم صرف مجردروس سے معاملات طے نہیں کررہے جو ان کے وسیع دماغوں میں موجود ہے۔ہم انہیں ایسا برت رہے ہیں جیسے وہ ماضی میں ہواکرتے تھے،اگرچہ انہوں نے اس کا عتراف کرنا کبھی پسند نہیں کیا،ایک گینگسٹرحکمراں ٹولہ جو بین الاقوامی سرحدوں کو خاطر میں نہیں لاتا جوان کی سرگرمیوں پر کسی قسم کا قدغن لگاتی ہو۔

سالسبری میں ’’نرووایجنٹ(nerve agent)‘‘کا حملہ ہماری سوچ کے اس دائرہ سے بہت دورجاتا ہے حتیٰ کہ سردجنگ کے دوران جو کچھ ہم تجربہ کرچکے ہیں ۔علاوہ ازیں ،ایک ایسی مفاہمت موجود تھی کہ جاسوس،جن کا ایک بارتبادلہ کیا گیا ہے،انہیں الگ تھلک چھوڑدیا جائے گا۔کسی بھی مفروریا غدارسے مفیدمعلومات اگلوالی جائے گی،بعدازاں اسے اپنی زندگی بلا کسی پریشانی کے گزارنے کی اجازت دی جائے گی۔

وہ افرادجنہوں نے کرنل سرگئی سکرپال کے قتل کی کوشش کی ،انہوں نے اس اصول کو توڑا،اوریہ نہیں سوچا کہ وہ ایسا کرتے ہوئے عام سویلین شہریوں کی زندگی کو خطرے میں ڈال رہے ہیں۔

اس مقدمے کی سماعت کرنے والے جج نے بالآخریہ نتیجہ اخذ کیا کہ اس قتل کی واردات کا باضابطہ حکم‘‘غالباً’’اعلیٰ عہدیدارکی جانب سے منظوری دی گئی تھی،اوراس سے ہم اس وقت کی جس قسم کی بھی انکوائری ہورہی ہے،اس کے بارے میں زیادہ سے زیادہ توقع ہی کرسکتے ہیں۔   

کیا اس حملے کی منظوری ولادی میرپیوٹن کی جانب سے دی گئی تھی؟کیا یہ ایف ایس بی(روس کا وفاقی سیکورٹی ادارہ)کی جانب سے انتقامی قتل ہے؟یایہ ایک منظم جرم تھا؟ہم اس بارے میں کبھی بھی حقیقت نہیں جان پائیں گے،اورکسی بھی حوالے سے،اوران درجات کے درمیان خط فاصل تشویشناک طورپردھندلابنتا جارہا ہے۔

اس حملے کا حکم خواہ روسی ریاست کی جانب سے بطورخاص دیا گیا ہو یا نہیں،اسے یقینی طورپرملکی حدودسے باہرسیاسی قتل کے بطورایک جواز دیکھا جاتا ہے۔

چیچن رہنمائوں کو آسٹریا اورترکی میں گولی مارکرہلاک کیا جاچکا ہے اوراسٹونیا کے ایک سیکورٹی عہدیدارکوان کے اپنے ہی ملک میں اغواءکرایا گیا تھا۔جہاں تک سابق ڈبل ایجنٹوں کا تعلق ہے،پیوٹن نے 2010میں کہا تھا کہ وہ لوگ جنہوں نے‘‘اپنے دوستوں کے ساتھ غداری کی تھی’’انہیں کس خونی انجام سے دوچارہونا پڑےگا:انہوں نے اس کے بدلے میں خواہ کچھ بھی لیا ہو،سلورکے وہ تیس ٹکڑے جو انہیں دیئے گئے تھے،وہ ان کے گلے بند کردیں گے۔’’

کیاایف ایس بی(فیڈرل سیکورٹی سروس یعنی روس کی خفیہ سرکاری ایجنسی)کے کچھ کارندوں نے اپنے سربراہ کے الفاظ پر عمل کیا ہے جیسے تھامس بیکٹ کو نائٹس نے قتل کردیا تھا؟یاوہ صرف بطورمافیا کچھ اداکاری کررہے تھے جیسا کہ وہ کرتے ہیں،تمام ترمقاصداورمنشاء کو تبدیل کیا جاتا ہے؟

تفتیش کرنے والے اس سوال کاجواب نہیں دے سکیں گے۔الیگزینڈرلٹکویننکوکی 2006ءمیں موت کے سلسلے میں کی گئی انکوائری غیرمعمولی طورپر کلئیر(شک وشبہ سے بالاتر)تھی جب اس دوران قاتلوں اوران کے طریقہ ہائے واردات کی شناخت کا وقت آیا،لیکن یہ کریملن کے کنگروں والی فصیلوں سے نہیں دیکھا جاسکا اورنہ ہی ایسا کچھ ثابت ہوسکا جہاں سے حکم جاری ہواتھا۔

اس مقدمے کی سماعت کرنے والے جج نے بالآخریہ نتیجہ اخذ کیا کہ اس قتل کی واردات کا باضابطہ حکم‘‘غالباً’’اعلیٰ عہدیدارکی جانب سے منظوری دی گئی تھی،اوراس سے ہم اس وقت کی جس قسم کی بھی انکوائری ہورہی ہے،اس کے بارے میں زیادہ سے زیادہ توقع ہی کرسکتے ہیں۔

‘‘غالباً’’کی بنیادپرہم کہاں تک ادلہ بدلہ کرسکتے ہیں؟۔مجودہ الزام زیادہ سنجیدگی کا متقاضی ہوسکتا ہے۔اگرملکہ برطانیہ کے زیرامن رہنے والے کسی شخص کے قتل کا حکم روسی ریاست کی جانب سے دیا گیا ہے تو یہ تکنیکی طورپر ہمارے خلاف اقدام جنگ کا ارتکاب کیا گیا ہے۔اب یہ دبائو ہے کہ اس ضمن میں دیگر مشتبہ ہلاکتوں سے متعلق تحقیقات شروع کی جائے۔

کس قدریقینی ہے یہ بات کہ کیا ہمیں پلٹ کر جواب دینے کی ضرورت ہے؟اور،زیادہ اہم نکتہ یہ ہے کہ ،ہم کس قدرمتناسب اورموثرطورپرپلٹ کرجواب دے سکتے ہیں؟

روس پہلے ہی کئی قسم کی معاشی پابندیوں کا شکارہے:کچھ،مخصوص شخصیات کو ہدف بنایا گیا،جنہوں نے قبل ازیں،انسدادبدعنوانی کے ماسکوسے تعلق رکھنے والے اکاآئونٹنٹ سرگئی میگنٹ سکائی،جنہوں نے سرکاری عہدیداروں کی جانب سے بڑے پیمانے پر فراڈکو بے نقاب کیا تھا، کی 2011ء میں دوران حراست مشتبہ موت کے نتیجے میں ان پرمرحلہ واراطلاق کیا گیا۔

دیگرافراد جن میں،زیادہ ترعام افراد ہیں،پریوکرین میں 2014ء کے دوران روس کی فوجی مداخلت کے نتیجے میں پابندیاں عائد کی گئیں۔اب اس کے بعد روس پرامریکی صدارتی انتخاب میں مداخلت کے الزامات لگائے گئے ہیں۔

یہ پابندیاں پیوٹن کے لئے کچھ زیادہ مشکل پیدانہیں کرتیں۔اس کے برعکس،وہ محصورذہنیت جو انہوں نے تیارکی ہے،ان کے اقتدارکو بڑھاوادیتا ہے۔اسی طرح،چند سری روسی حکومت کے ارکان کے لئے اپنا روپیہ پیسہ مغرب میں خرچ کرنامشکل بنایا جارہا ہے جو ان کے روسی اثاثوں کو وطن واپس لانے میں مدددیتا ہے۔

ہم ان پر مزید دبائو ڈال کر ،مثال کے طورپر روسی بینکوں پربین الاقوامی ٹرانسفرنظام پرپابندی عائد کرتے ہوئے،لیکن ایساکرتے وقت ہم غلط لوگوں کو تکلیف دینے کا خطرہ مول لیں گے اورپیوٹن کو اورزیادہ مقبول بنائیں گےْ۔

اس کے متبادل کے طورپر ،ہم نئی حاصل کی گئی حکومت کی طاقت کو استعمال کرسکتے ہیں،ایسی دولت جس کی وضاحت نہ کی گئی ہوسے متعلق حکومتی حکم ،تاکہ پیوٹن کے قریبی ساتھیوں کو چیلسی مینشنزکی خریداری سے روکا جائے۔لیکن ہمیں روس میں ،پالیسی سے قطع نظر، ،ان کی رائے تبدیل کرنے کے بارے میں توقع نہیں رکھنی چاہئے۔

یاد رکھیں کہ ہم ایک ایسی قوم سے نمٹ رہے ہیں جو ابھی تک اس سے علیحدہ ہوجانے والی نوآبادیوں کا فانتوم درد(ایک نفسیاتی عارضہ جس میں جسم کے کسی کٹے ہوئے عضوکا کرب نفسیاتی طورپر محسوس ہوتا ہو)محسوس کرتی ہے،ایک چڑچڑی اوربدمزاج قوم،ایک ایسی قوم جس نے اسٹالن کی موت ، سے متعلق ارمانڈو لینوسی کاحال ہی میں ایک مزاحیہ پروگرام بند کرچکی ہے،یہ ایک بارپھر اس بات کی تصدیق ہے کہ ایسی مطلق العنان حکومتیں ہر ایک صورت میں مذاق یا تمسخراڑائے جانے سے نفرت کرتی ہیں۔

ہم کوئی بھی اقدام کرتے ہیں ،چاہے وہ سفارتی ہو یا معاشی،اس کی قیمت اداکرنی پڑے گی۔لیکن اس سے بھی بھاری قیمت اس وقت چکانی پڑتی ہے جب ہماری خودمختاری کے خلاف اقدام کیا جاتا ہے۔اگرہم سیاسی مہم جوئی کی خاطرقانون کی حکمرانی کی قربانی دیتے ہیں توہم لوگوں کو مرنے دیں گے اور خود بھی مریں گے۔

الیگزینڈرلٹکوننکوف کی موت کے نتیجے میں، روسی وزارت خارجہ کے ایک ترجمان نے بے یقینی کے اندازمیں استفسارکیا تھا کہ کیا امریکا ایک شخص کی موت پر ایک بڑی طاقت کے ساتھ سنجیدہ طورپر اپنے تعلقات کومتاثرکرنا تجویز کررہی ہے۔ہم ایسے تھے ،اورایک بارپھر ایسا ہی ہونا چاہئے۔یہی طرزعمل ہمارے معاشرے کو روسی معاشرے سے بہتر بناتی ہے ۔ 

تازہ ترین