• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
واٹر اسکیمیں ناکارہ، زمینیں بنجر

مختار احمد کھٹی، ٹنڈو غلام علی

 اندرون سندھ میں لوگوں کی زندگی، روزگار اور تجارت کا زیادہ انحصار زراعت پرہے۔ طویل عرصے سے نہری پانی کی مصنوعی قلت، لوڈ شیڈنگ کے عذاب، جعلی کھاد و بیج سمیت نقلی زرعی ادویات اور ان تمام مصائب سے گزر کر کاشت ہونے والی فصلوں کے مارکیٹوں میں سرکاری نرخ میں کمی نے کاشت کاروںکو معاشی بد حالی سے دوچار کیا ہے۔

 آبادگاروں کا ہمیشہ سے کہناہے کہ محکمہ انہار کے عملے نے ان کے حصے کا نہری پانی خطیر رقم کےعوض فروخت کرکے ان کو اپنی زرخیز زمینیں کوڑیوں کے مول فروخت کرنے پرمجبور کردیا ہے۔شہروں میں واٹر سپلائی اسکیمیں بھی غیرمؤثررہنے کی شکایات عام ہیںآلودہ اور مضر صحت پانی پینے سے علاقے میں مختلف بیماریاں پھیل رہی ہیں جن میںجگر و معدہ، پیٹ، بلڈ پریشرکے امراض قابل ذکر ہیں۔

 پینے کے پانی کی فراہمی کیلئے فلٹر پلانٹ جیسی اسکیمیں متعارف کرائی گئی ہیںلیکن وہ بھی عملے کی لاپروائی کی وجہ سے سود مند ثابت نہیں ہوسکیں۔ ایسی ہی صورت حال سے ٹنڈو غلام علی و قرب و جوار کے دیہات کےعوام بھی دوچار ہیں۔ ٹنڈو غلام علی میں پہلے زمینی پانی کی وافر مقدار کی دستیابی کے باعث لوگوں کو واٹر سپلائی اسکیم کی ضرورت نہیں محسوس ہوتی تھی، لیکن 2005 کے زلزلے اور مختلف علاقوں میں آفٹر شاک کے بعدپورے پاکستان میں زمین کی ساخت پر اثر پڑا ہے۔

 اس علاقے میں بھی زمین کی سطح نیچے چلی گئی اور زیر زمین پانی میں زہریلے کیمیکلز اورنمکیات شامل ہونے کی وجہ سے مذکورہ پانی کپڑے دھونے اور غسل کرنے کے علاوہ کھانے پینے کیلئے بھی مضر صحت ہوگیا ہے۔ ماضی میں کروڑوں روپے کی لاگت سےشہریوں کیلئے فراہمی آب کا منصوبہ منظورہوا تھا جس پر کام بھی ہوا تھا لیکن مبینہ طور ناقص مٹیریل کےاستعمال کے باعث اس سے ایک دن بھی استفادہ حاصل نہیں کیا جاسکا۔ 

اس کے افتتاح کے وقت ٹیسٹنگ کے دوران فراہمی آب کی لائن دھماکے کے ساتھ پھٹ گئی جس کے بعدسےوہ ناقابل استعمال قرار دے دی گئی۔ جس کے آثار ٹاوٗن کمیٹی سے متصل اوور ہیڈ ٹینک کی صورت میں دیکھے جاسکتے ہیں جو انتہائی بوسیدہ حالت میںایک مدرسے کے ساتھ چھت پر معلق ہے اور کسی بھی وقت زمین بوس ہوکرطلباء و طالبات کے لیے بڑے جانی نقصان کا سبب بن سکتا ہے۔

واٹر اسکیمیں ناکارہ، زمینیں بنجر

 کچھ عرصے بعد لاکھوں روپے کی تخمینے سے نکاسی آب کی اسکیم منظور ہوئی لیکن یہ بھی کرپشن کی نذر ہوگئی۔ اس کا ٹھیکہ من پسند ٹھیکیدار کو دیا گیا ۔

 خطیر رقم کی لاگت سے تعمیر ہونے والے نالے، منڈیریں جھڑنے کی وجہ سے ملبہ گرنے کے بعد بند ہوچکے ہیں اور ان کی صفائی یا مرمت کا کام نہیں کیا گیا۔ شہر کی سماجی تنظیموں نے مطالبہ کیا ہے کہ فراہمی و نکاسی آب میں ہونے والی کروڑوں روپے رقم کی خردبرد کی تحقیقات کراکے اس میں ملوث کرپٹ افسران کے خلاف سخت کارروائی کی جائے۔

زراعت کی صورت حال اور بھی زیادہ خراب ہے اور زرعی اراضی کو پانی کی عدم فراہمی کے بعض فصلیں تباہ ہورہی ہیں۔ٹنڈو غلام علی کے قریب درجنوں دیہات کو نصیر واہ کی بکیرانی سب ڈویژن سے نکلنے والی چاکر شاخ جس کی ایرضی129 آرڈیز بتائی جاتی ہیں، عرصہ دراز سے نہری پانی کی مصنوعی قلت نے آبادگاروں کوشدید معاشی بدحالی کا شکار بنا دیا ہے۔

 ان کی زرخیز زمینیں سوکھ کر بنجربن چکی ہیںجس کے بعدان پر جھاڑ جھنکاڑ اگ آئے ہیں ، لوگ ان کی لکڑیاں فروخت کرکے ا پنے اہل خانہ کے لیے کھانے کا بندوبست کرتے ہیں۔

اکثرافراد اپنی آبائی زمینیں اور مکانات چھوڑ کر شہری علاقوں میں منتقل ہوگئے ہیں اور یومیہ اجرت پر مزدوری کرکے اپنے کنبے کی کفالت کررہے ہیں ۔ 

کاشت کاروں اور آبادگاروں کی جانب سے حکام کی نہری نظام میں ناانصافیوںکے خلاف مظاہرہ کیا گیا ۔روزنامہ جنگ کے نمائندے نے اس صورت حال کا جائزہ لینے کے لیے علاقے کا دورہ کیا ۔ 

 اس موقع پر ،چاکر شاخ کے متاثرہ زمیندار حیدر بخش شورونے جنگ سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ محکمہ انہار کےافسران اورعملہ ان کے حصے کا پانی بھاری رقم کے عوض فروخت کررہا ہے۔ نہر کی لائننگ کے کام کو مکمل کئےبغیرآر ڈی 114 تک کام کرواکربقیہ کام بند کرکے ٹیل کےآبادگاروں کوپانی کی سپلائی بند کری ہےجب کہ عشر و ڈھل کی مدمیں وصولی بدستورکی جارہی ہے۔

اسی علاقے کے ایک آبادگار، حاجی محمد دستی کاکا کہنا ہے کہ چاکر شاخ میں محکمہ انہار کے عملے کی ملی بھگت سے ڈائریکٹ واٹر کورس چل رہےہیں۔ اکثر واٹر کورس ماڈیول سے زیادہ پانی لے رہے ہیں، جس کی وجہ سے ہماری حق تلفی کی جارہی ہے۔ اس کی بازپرس کرنے والا کوئی نہیں ہے۔

 ہم نے اپنے علاقے کے سے منتخب ہونے والے رکن قومی اسمبلی ،کمال خان چانگ سے اس کی شکایت کی لیکن انہوں نے بھی اس کا کوئی نوٹس نہیں لیا۔ 

 ان کا کہنا تھا کہ نہری پانی کی مصنوعی قلت پیدا کرکے ا س طرح کے حالات پیدا کیے جارہے ہیں کہ آبادگار فاقہ کشی کے بعداپنی کروڑوں روپے مالیت کی زرعی اراضی کوڑیوں کے مول فروخت کرکے نقل مکانی پر مجبور ہو جائیں۔انہوں نے کہا کہ چاکر شاخ کو پختہ کئے جانے والے لائننگ کے کام میںاستعمال ہونے والے ناقص مٹیریل کے الزامات کی تحقیقات کے لیے کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔ 

اس کام میں مالی خورد بردکا اس سے بڑا کیا ثبوت پیش کیا جا سکتا ہے کہ آرڈی 114 کے قریب لائننگ کے کام میںاستعمال ہونے والےبلاک ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں اوران کا ملبہ نہر میں گررہا ہےجس کی وجہ سے خدشہ ہے کہ نہری پانی 129 آرڈی تک نہیں پہنچ پائے گا۔ 

علاقے کے زمیندار اور آبادگاروں نے ، چیئرمین واٹر کمیشن جسٹس(ر) مسلم امیرہانی اور حکومت سندھ سے اپیل کی ہے کہ اس صورت حال کا فوری نوٹس لیا جائے، زیریںسندھ کے پسماندہ ضلع بدین کی تحصیل ماتلی کے کلیدی شہر ٹنڈو غلام علی میں شفاف پانی کی فراہمی کیلئے واٹر سپلائی اسکیم کو فعال بنانے اور چاکر شاخ میں نہری پانی کی مصنوعی قلت، واٹر کورس کے شیڈول سے زیادہ پانی کی فراہمی،114 آر ڈی تا129 تک کا التوا شدہ لائننگ کا کام جلد شروع کرواکر شاکر شاخ کی ٹیل میں جائز رسد نہری پانی کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے، محکمہ انہار اور ہیلتھ کو کرپٹ افسران اور عملے سے نجات دلائی جائے ۔

تازہ ترین
تازہ ترین