ندیم نبی قائم خانی ،سامارو
ہر سال 8مارچ کودنیا بھر میں خواتین کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔اس دن کے منانے کا بنیادی مقصد نہ صرف خواتین کو ان کے بنیادی حقوق کے بارے میں آگاہی دینا بلکہ ان کی معاشرتی اہمیت کو بھی اجاگر کرنا ہے۔
تقریباً 110سال قبل نیو یارک کی ایک ٹیکسٹائل مل میں مسلسل دس گھنٹے کام کرنے والی خواتین نے اپنے کام کے اوقات کار میں کمی اور اجرت میں اضافے کے لیے آواز اٹھائی تو ان پر پولیس نے نہ صرف لاٹھی چارج اور وحشیانہ تشدد کیا بلکہ بعض خواتین کو گھوڑوں سے باندھ کر سڑکوں پرگھسیٹا گیا،لیکن خواتین نے جبری مشقت کے خلاف تحریک جاری رکھی جس پر ریاست نے بے انتہا تشدد کیا۔
خواتین کی مسلسل جدوجہد اور لازوال قربانیوں کانتیجے میں1910 میںکوپن ہیگن میں خواتین کی پہلی عالمی کانفرنس منعقد ہوئی جس میں 17 سے زائد ممالک کی سو کے قریب خواتین نے شرکت کیے اس موقع پر منظور کی جانے والی قرارداد میں عورتوں پر ہونے والےمظالم اور استحصال کا عالمی دن منانے کا فیصلہ کیا گیا۔ اس وقت سے آج تک یہ دن ہر سال منایا جاتا ہے۔
پاکستان میں بھی اس روز خواتین تنظیموں کے زیر اہتمام تقریبات کا انعقاد کر کے ’’بااختیار عورت ‘‘ کا تصور دیا جاتا ہے۔لیکن یہ بہت بڑا المیہ ہے کہ ہماراملک’’ جینڈر انڈکس‘‘ میں 145 ممالک میں 144 ویں نمبر پر ہے۔ آج بھی ہمارےملک کی 55 فیصد بچیاں اسکول نہیں جاتیں اور 35 فیصد لڑکیوںکی شادی 16 سال کی عمر سے بھی پہلے کر دی جاتی ہے۔ سندھ میں خواتین زبوں حالی کا شکار ہیں۔
اس صوبے میںخواتین کو اپنی مرضی سے زندگی گزارنے کا حق نہیں ہے۔ مذہب اور قانون کی رو سےخودمختار ہونے کے باوجود،اپنی پسند کی شادی کرنا سندھ کے قبائلی معاشرےمیں اتنا بڑا جرم تصور کیا جاتا ہےکہ اس کی سزا جرگے کے خودساختہ قوانین کے تحت صرف موت قرار پاتی ہے۔ اس جرم کا ارتکاب کرنے والا جوڑا اپنی جان بچانے کے لئے مہینوں وسالوں عدالتوں کے چکر کاٹنےیاچھپ کر رہنےپرمجبور ہوجاتا ہے۔
مقامی اخبارات میں دیہی علاقوں میں ہونے والےواقعات کی رپورٹنگ سے پتا چلتا ہے کہ بعض اوقات پسندکی شادی کرنے والےمیاں بیوی کو ان کے ہی والدین، بھائی ،اور چچا،برادری میں رسوائی کے ڈر سے نام نہاد غیرت کے نام پہ صدیوں پرانی قبیح رسم کاروکاری کےتحت انہیںموت کے گھاٹ اتارنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔
چند سال قبل سندھ اسمبلی میں خواتین پر تشدد کے خلاف بل منظور ہوا تھا لیکن قانون سازی کے باوجود خواتین پرتشدد کے واقعات میں کمی نہیں آسکی ہے جس کا بڑا سبب بل کے مطابق قوانین پر عمل درآمد کا فقدان ہے۔
سرکاری اعدادوشمار کے مطابق سال 2017 میں ضلع سامارواور اس ملحقہ شہر عمرکوٹ میں خواتین کے قتل کے6 ارادہ قتل کے 2 زیادتی کے 2جبکہ خواتین کی بےحرمتی کے4 واقعات رپورٹ ہوئے۔
اس کے علاوہ خودکشی کے 15واقعات رجسٹرہوئے جن میں سے8 واقعات کی ورثاءکے اصرار پر کارروائی ہی نہیں ہوئی. يہ تعداد میڈیا پر رپورٹ ہونے والے تشدد کے واقعات سے کہیں کم ہے۔ایس ایس پی عمرکوٹ عثمان اعجاز باجوہ کے مطابق خواتین پر تشدد، زیادتی اور خودکشی کے واقعات کی رپورٹنگ اصل واقعات سے کم ہے جس کی کئی وجوہات ہیں جن میں عوام میں آگہی،پولیس کا خوف، ،پردہ اورضلع عمرکوٹ میں ویمن تھانہ کا نہ ہونا بھی ہے۔
دوسری جانب اس ضلع میں 2 سال قبل ویمن ڈیولپمنٹ ڈپارٹمنٹ کے زیرانتظام خواتین کے لیے ایک سیف ہائوس قائم کیا گیا تھا جس میں عملے کے 7 افراد بھی تعینات کیے گئے مگر یہ سیف ہاوس آج تک ایک خاتون کو بھی تحفظ نہیں دے سکا ہے۔ رواں ماہ کے پہلے روز ہی عمرکوٹ شہرکے نواحی گاؤں وھرو شریف میں شوہر نیرچنداوڈھ نے نے گھریلو ناچاقی پر اپنی بیوی کو لاٹھی اور ڈنڈے کےوار کرکےقتل کردیا۔
مقتولہ کے بھائی اور قتل کے مقدمے کے مدعی کے مطابق ان کی مرحومہ بہن کو ملزم آئے روز تشدد کا نشانہ بناتا تھا جس کے باعث گھرسے روزانہ شور و غلکی آوازیں آیا کرتی تھیں۔ وقوعہ کی شب وہ اپنے والد اور دیگر رشتے داروں کے ہمراہ ملزم کو سمجھانے کے لیے اس کے گھر گئےتھے۔ رات کوسب کے سونے کے بعد ملزم نے اپنی بیوی کوتشدد کا نشانہ بنا کر قتل کردیا۔
بھائی کی رپورٹ پر پولیس نے فوری طور سے جائے وقوعہ پر پہنچ کر قاتل نیرچنداوڈھ کو گرفتار کرمقدمے کا چالان مقامی عدالت میں پیش کیا جہاں سے ملزم کو جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا گیا۔
سامارو شہر میں رقم کے عوض کم عمر لڑکیوں کی شادی کے واقعات بھی میں بھی تیزی آئی ہے۔ ایسے ہی ایک واقعے کی اطلاع ملنے پر پولیس نے موقع پر پہنچ کر دولہا،دلہن کے والد اور نکاح خواں کو گرفتار کرکے مقدمہ درج کرلبا۔
اسی قسم کا ایک مقدمہ چھ ماہ قبل سول جج عمرکوٹ (ون)کی عدالت میں پیش ہوا تھا جس میں بختاور کالونی میں چھوٹی عمرکی لڑکی شمع دختر قادربخش سولنگی کی شادی کروانے کے مقدمے میں نامزد دلہا احمد ولدبلاول آریسر،دلہن کے والد قادرسولنگی،نکاح خواں قربان علی ہالپوٹو سمیت 7افراد کو2دوسال قید بمعہ 10ہزار جرمانے کی سزا سنائی تھی ۔