نیوٹن کے بعد آئن سٹائن اورپھر اسٹیفن ہاکنگ نے جو کارہائے نمایاں سرانجام دئیے اس سے انسان کو کائنات کے اسرار ورموز سمجھنے میں بہت مدد ملی۔اسٹیفن ہاکنگ نے ظاہری طور پر اپنی76سالہ زندگی کے 55سال وہیل چیئر پر گزارے لیکن دراصل وہ اس نصف صدی سے زائد عرصے میں کائنات کی وسعتوں کو تسخیر کررہاتھا۔جواں سال اسٹیفن ایک پرجوش زندگی گزار رہا تھا مگر’’ موٹر نیورون‘‘ جیسی موذی بیماری میں مبتلاہونے پر اسے بتایاگیاکہ وہ زیادہ سے زیادہ تین سال تک زندہ رہ سکے گا۔اسٹیفن اس کے بعد 55سال تک زندہ رہا،اس عرصہ میں اس نے نہ صرف اپنی معذوری کو شکست دی بلکہ اپنے مقدر کو بھی قدرے بدل کر رکھ دیا۔وہ ظاہری طور پر غیر متحرک ،جامد،ساکت اور بے سُدھ تھا مگر اس کا دماغ اس وسیع وعریض کائنات کےپُرپیچ رستوں پر دوڑ رہا تھا۔ اسٹیفن ہاکنگ نے اپنی شہرہ آفاق کتاب A Brief History of Time میں ایڈوین ہبل کے اس تجزئیے سے اتفاق کیاہے جو اس نے 1929میں تحریر کیاتھا۔ ہبل نے کہاتھاکہ دنیا میں جہاں سے بھی کائنات کو دیکھاجائے دوردراز کہکشائیں ہم سے مزید دور ہوتی دکھائی دیتی ہیں۔اسکا مطلب یہ تھاکہ پہلے وقتوں میں اجرام فلکی ایک دوسرے سے قریب تر رہے ہوں گے ۔حقیقت میں یہ لگتاہے کہ اب سے دس یا بیس ارب سال پہلے وہ سب ٹھیک ایک ہی جگہ پر تھیں ، تو اس وقت کائنات کی کثافت (DENSITY)لامتناعی ہوگی ،یہ دریافت بالآخر کائنات کی ابتداکے سوال کو سائنس کی دنیا میں لے آئی۔اس سے قبل کائنات کے آغاز کا سوال سائنسی نہیں مذہبی تھا۔اسٹیفن نے لکھا ہے کہ Big Bangیعنی عظیم دھماکہ ہواتھا،یہ وہ زمانہ تھاجب کائنات بے انتہا مختصراور لامتناعی طور پر کثیف تھی۔اس وقت سائنس کے تمام قوانین اور مستقبل بینی کی صلاحیت یکسر ختم ہوگئی تھی ٗ بگ بینگ سے ہی وقت کا آغاز ہواتھا،اس سے پہلے وقت کے بارے میں کچھ بھی کہنا ممکن نہیں ہے۔ایک غیر متغیر کائنات میں ٗ وقت کا آغاز کائنات کے باہر سے ہی مسلط کیاجاسکتا ہے۔
سائنس اور فزکس میر امضمون نہیں ہے زیر نظر کالم لکھنے کیلئے میں نے اپنے بھتیجے ہادی طیب سرور میر کی خدمات مستعار لیں ۔ہادی نے کاسمولوجی سے متعلق مجھے اسی طرح سمجھادیاجیسے نعیم بخاری نے میاں نوازشریف کو آئین کی شق باسٹھ تریسٹھ سمجھادی ہے ۔دوسرے الفاظ میں جیسے بابر اعوان نے عمران خان کو بنی گالے کے نقشے سے متعلق اجازت نامہ مہیاکردیاتھا۔ بالواسطہ طور پر مجھے یہ بات سمجھ آئی ہے کہ اسٹیفن ہاکنگ نے آئن اسٹائن کے تھیوری آف ریلٹیوٹی (نظریہ اضافیت) اور کوانٹم فزکس پر تحقیقی کام کیاجسے Cosmologyیعنی کونیات کہاگیا۔ کوانٹم فزکس وہ سائنس ہے جس میں ایک ایٹم سے وابستہ مزیدذرات سے متعلق جانا جاتاہے۔ اسٹیفن اپنی کتاب کے آٹھویں باب ’’کائنات کا ماخذاور مقدر ‘‘میں لکھتے ہیں کہ بگ بینگ کے وقت کائنات کی جسامت صفر سمجھی جاتی رہی ہے ۔یعنی کائنات کا ماخذ لامتناعی طور پر گرم رہاہوگا ۔مگر کائنات پھیلنے کے ساتھ درجہ حرارت کم ہوتاگیا۔بگ بینگ کے ایک سیکنڈ کے بعد یہ تقریباََ دس ار ب ڈگری درجے تک گیاہوگا،کیاانسانی ذہن اس قدر گرمی اور حدت کا اندازہ کرسکتاہے؟ایک اندازے کے مطابق گرمی کی یہ شدت سورج کے مرکز میں پائی جانے والی حرارت سے بھی ہزار گنا زیادہ ہوگی۔اسٹیفن نے لکھاکہ ہائیڈروجن بم کے دھماکوں سے خارج ہونے والی حرارت بھی اس قدر شدیدہوتی ہے۔ اگرچہ ان کی تحقیق کے پائے سینکڑوں سالوں میں سینکڑوں سائنسدانوں کی ریاضت،مشقت اورتجزئیے پر رکھے تھے
مگر اس کے باوجود اسٹیفن نے اہم کارنامہ سرانجام دیا۔اسٹیفن کی نظر میں 1687میں نیوٹن کی طرف سے پیش کیاجانے والانظریہ ایک انقلاب تھا جس میں زمان ومکان میں اجسام کی حرکت کاتجزیہ اور اس سے متعلق پیچیدہ ریاضی تشکیل دی گئی۔نیوٹن نے ہمہ گیر تجاذب (Universal Gravition) کا قانو ن بھی تشکیل دیا تھاجس کی رو سے کائنات میں موجود تمام اجسام ایک دوسرے کی طرف کھنچ رہے ہیں ٗ اس کشش کا انحصار ان اجسام کی کمیت اور قربت پر ہے ، یہی وہ قوت ہے جو چیزوں کو زمین پر گراتی ہے۔ آج سائنسدان کائنات کی تشریح دوبنیادی جزوی نظریات پر کرتے ہیںاضافیت کا عمومی نظریہ اور کوانٹم میکینکس جس کے تحت ہی کائنات کی وسیع تر ساخت کو بیان کیاجاسکتاہے۔ان اصولوں کے تحت ایک انچ کے لاکھویں اور کروڑویںحصے سے لے کر کائنات کی وسعت جو کروڑوں،اربوں اور کھربوں میلوںپر پھیلی ہوئی ہے اسے ماپا جاسکتا ہے۔ اسٹیفن کاموضوع کائنات کا آغاز اور انجام بھی ہے جس کے متعلق اقبالؒ نے کہاتھاکہ
یہ کائنات ابھی ناتمام ہے شاید
کہ آرہی ہے دمادم صدائے کن فیکوں
اسٹیفن عیسائی تھا مگر اس کے سائنسی تجزئیے کے باعث کلیسائوں نے اسے Atheists قرار دیا۔اسٹیفن ذاتی طور پر ایک خوش مزاج انسان تھا یہی وجہ ہے اس نے انتہائی پیچیدہ علم کو بھی دلچسپ پیرائے میں پیش کیا۔وہ کہتا ہےکہ قدرت کے بارے میں جاننے کی دھن میں ہمیں خطرات کا سامنا کرنا پڑسکتاہے۔ اس کے مطابق Aliens(اجنبی یا دوسرے سیارے کی مخلوق) سے تعلقات پیدا کرنے کی خواہش کا نتیجہ وہی ہوسکتاہے جو کولمبس کے امریکہ دریافت کرنے کے بعد مقامی باشندوں کا ہواتھا۔وہ یہ بھی کہتا ہےکہ یہ فزکس ہی ہے جس میں انسان نے ایٹم کا سراغ لگایااور ایٹم بم بنایاجس سے تباہی اور بربادی بھی برپا ہوئی۔ انہوں نے بلیک ہول کے روایتی تصور میں بھی اضافہ کرتے ہوئے جو نظریہ پیش کیااسے ہاکنگ ریڈی ایشن کا نام دیاگیا۔بلیک ہول کی سادہ تعریف یہ ہے کہ ایسا زمان ومکان یا خطہ جس میں کوئی شے حتی کہ روشنی بھی فرار حاصل نہ کرسکے کیونکہ اس کا تجاذب بے حد مضبوط ہے۔
رواں ہفتے کے آغازمیں برادرم سہیل وڑائچ صاحب کے چچا چوہدری ارشد محمود وڑائچ کی رسم چہلم میں احباب کے ساتھ میں بھی دعائے مغفرت میں شریک تھا۔اتفاق سے اسی روز لاہورجامعہ نعیمیہ میں میاں نوازشریف پر جوتااچھالنے کا واقعہ پیش آیا جس کی تمام سیاسی جماعتوں نے مذمت کی ۔مجیب الرحمان شامی ،حفیظ اللہ نیازی،ممتازشاہ ،مظہر برلاس،سہیل ضیابٹ،فہدشہباز خان اورنواب زادہ غضنفر گل سمیت دیگر میں یہ بحث چھڑی ہوئی تھی کہ اس واقعہ کے پیچھے کس کا ہاتھ ہے؟حفیظ اللہ نیازی نے اپنے مخصوص اور بلند وبانگ لہجے میں کہاکہ پوراپاکستان جانتا ہے کہ اس واقعہ کے پیچھے کون ہے؟سہیل ضیابٹ نے کہاکہ بتائیں پیچھے کون ہے ؟آپ کو بھی پتہ ہے پیچھے کون ہے حفظ اللہ نیازی نے جھینپے بغیر جواب دیا۔جب وہاں ’’پیچھے کون ہے ‘‘ کی گردان کئی بار دہرائی گئی تو غضنفر گل نے اپنے لکنت بھرے لہجے میں غالب کا یہ شعر پڑھا جو نوازشریف اور شاید ان کے ساتھ پیش آنے والے واقعہ کے ’’پیچھے ‘‘ ہونے یا نہ ہونے سے متعلق پوری کہانی بیان کرتاہے
مت پوچھ کہ کیاحال ہے میراترے ’’پیچھے‘‘
تودیکھ کہ کیارنگ ہے تیرا مرے آگے
وطن عزیز میں یہ بحث بھی جاری ہے کہ سینیٹ کے انتخاب میںآصف زرداری اور عمران خان نے بالواسطہ اتحاد کرکے ایوان بالامیں اپنا چیئر مین منتخب تو کرلیامگر انہوں نے’’جمہوریت ‘‘ کی پیٹھ پر چھرا گھونپا ہے۔ ایسے مورخین وہ پرانے کھاتے بھی کھولیں جن میں چھانگا مانگا اور آئی جے آئی کے مقامات سے ہی میثاق جمہوریت کے موہنجودڑو اور ہڑپے دریافت ہوں گے ۔ اسٹیفن ہاکنگ بھی کہتے تھے بلیک ہول میں سب کچھ غرق تو ہوتا ہے لیکن اس عمل سے انرجی خارج بھی ہوتی ہے یعنی تباہ ہونے والے جسموں سے پیدا ہونے والی ریڈی ایشن بہرحال تباہی کا سراغ دیتی ہے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں00923004647998)