• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

حالیہ سینیٹ انتخابات کے ’’ثمرات‘‘ پر سب سے زیادہ پریشان عمران خان صاحب اور سب سے زیادہ حیران آصف زرداری صاحب ہیں۔ جیسے آپ کو اِس طالب علم کے اس جملے پر حیران ہورہی ہے، اسی نوع کے حیرت و استعجاب کے کئی ایک جہاں ان انتخابات میں آباد ہیں۔ پیر پگارا مرحوم کہا کرتے تھے ’’فرشتے ہیں’’ مرحوم و مغفور خان عبدالولی خان نے جن کیلئے’ نادیدہ قوتوں‘ کی اصطلاح قوم کو مرحمت فرمائی، آپ کہا کرتے تھے ، یہ ایسی ’نظربندی‘ کردیتے ہیں کہ دیکھنے والے مبہوت، ہوکرPUPPETS (کٹھ پتلی) بن جاتے ہیں، ہم تو ایسے ’جنات‘ پر یقین نہیں رکھتے، محض اِسے ہاتھ کی صفائی گردانتے ہیں، یوں کبھی ان کے آگے سجدہ ریز نہ ہوئے ۔ ہاں جو ہوئے ہوتے ہیں، وہ پھر سحر اُڑتے ہی چلانا شروع کردیتے ہیں کہ یہ تو ہاتھ ہوگیا۔ لیکن ہاتھ تو ہوچکا ہوتا ہے۔ کاش یہ ہمارے ساتھ بروقت چلائیں تو شاید یہ جن بھوت ہماری اکٹھ سے بھاگ جائیں‘‘… جہاندیدہ ولی خان صاحب نے جو کہا، من وعن یہی سارا کچھ بہت جلد عمران خان کہنے والے ہیں۔ ووٹ سب سے زیادہ مسلم لیگ (ن) کے تھے، پھر پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف … لیکن چیئرمین سینیٹ کون بنا؟ اِس صاحب کے ڈبے میں سے اگر 54 ووٹ نکلے ہیں تو یہ کمال کس کا ہے۔
جس بزم میں ساغر ہو نہ صہبا ہو نہ خم ہو
رِندوں کو تسلی ہے کہ اس بزم میں تم ہو
اگر زرداری صاحب بھاری ہوتے تو وہ کیونکر ایسے شخص کے سر پر تاج رکھنے کے لئے تیار ہوجاتے ، جو پیپلز پارٹی پر لعنت ملامت کرکے چھوڑ چکا تھا! ! کیا عمران خان، اس زرداری جسے وہ بیماری اور چند روز قبل نہ جانے کیا کیا کہہ چکا ہو، کے ڈپٹی چیئرمین کو ووٹ دیتے، اور خود ’خالی‘ ہاتھ لوٹتے … تو کوئی تو تھا ، جس کے ’سبب‘ کے سب محتاج تھے۔ یوںتو زرداری صاحب جن کے متعلق کہا جاتا ہے کہ انہوں نے سیاسی مہارت میں ’پی ایچ ڈی‘ کررکھی ہے، اُنہیں بھی ان انتخابات میں حسبِ خواہش نہ ملا ، لیکن وہ پیپلز پارٹی کی ساکھ نیلام کرکے بعض اہداف جو سیاسی و عوامی سے زیادہ نجی و گروہی ہیں، کے حصول کیلئے پوری تیاری کے ساتھ ہی دبئی سے آئے ہیں۔ البتہ عمران خان صاحب تو وزارت عظمیٰ کی خاطر ہی صبح و شام کررہے ہیں۔ان کے ساتھ سینیٹ و بلوچستان اسمبلی کی طرح ہی اگر عام انتخابات میں ہا تھ کی صفائی ہوگئی ، تو ان کا کیا بنے گا۔موصوف کے ساتھ سب سے پہلے ’دھوکہ‘ تو جنرل پرویز مشرف نے کیا تھا، خان صاحب نے ریفرنڈم میں ان کی حمایت کی تھی ،جنرل نے 2002 کے انتخابات کے دوران جب جنرل حمید گل برانڈ کے وزیراعظم کو لانے کا عندیہ دیا، تو لوگوں کو حیرانی ہوئی تھی۔زندہ جنرل اور مُردہ جنرل میں نہیں بنتی تھی۔اپنی کتاب ’سب سے پہلے پاکستان‘میں پرویرمشرف صاحب نہایت غصے کے عالم میں حمید گل کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ’ نام نہاد‘فاتح جلال آباد نے کس طرح اپنی رسوائی کرائی تھی۔خیر واقفان ِحال بتاتے ہیں کہ خان صاحب باقاعدہ تیار ہوکر اس اجلاس کی اختتامی راہداری دیکھ رہے تھے، جو وزارت عظمیٰ کے چنائو کی خاطر جاری تھا۔ لیکن جب اس اجلاس سے جرنیل صاحبان ’باجماعت‘ نکلے، تو خان صاحب ششدر رہ گئے کہ قرعہ فال کسی اور کے نام نکل چکا تھا۔ پھرحقیقت جو کچھ بھی ہو، لیکن ایک تاثر یہ بھی ہے کہ 2013ء کے انتخابات خان صاحب جیت چکے تھے، راتوں رات مگر 35 پنکچر لگے، میاں نواز شریف صاحب کا پژمردہ چہرہ یکایک کِھل اٹھا۔ یہ میموگیٹ کے تحفے کا بدل اور آئندہ ساتھ رہنے کے ایفائے عہد کا نذرانہ تھا۔ دھاندلی ، چار حلقے کھلوانے کی خان صاحب کی ’جنونیت‘ مصنوعی نہ تھی۔ پھر اس حقیقی جنونیت کو اس وقت معنویت میں بدل کر رکھ دیا گیا، جب میاں صاحب نے عین اپنے مزاج کے مطابق ’پر‘ نکالنا شروع کردئیے۔ خان صاحب نے طویل دھرنا دیا۔ لیکن یہ دھرنا بھی منطقی انجام تک نہ پہنچنا ۔ الغرض خان صاحب بارہا حیران ہوتے رہے ہیں، لیکن انہوں نے ہمت نہیں ہاری۔ یہ پہلا موقع ہے کہ وہ ناقابلِ بیان حد تک پریشان ہوگئے ہیں۔
وہ اس امر پر پریشان نہیں، کہ جنہیں وہ ’’نہ جانے کیا کیا‘‘ کہا کرتے تھے ، اُس زرداری کے چرنوں میںوہ کیوں بٹھا دئیے گئے۔ بلکہ پریشان اس باعث ہیں کہ اگر تین بڑی جماعتوں مسلم لیگ، پی پی، تحریک انصاف کو ’مائنس‘ کرکے ایک غیر معروف غیر جماعتی آزاد سیاستدان نہ صرف یہ کہ سینیٹ کا چیئرمین بن سکتا ہے بلکہ سب پر بھاری کو پوری دنیا کےسامنے کھوکھلابناتے ہوئے فرمانبردار بنایا جاسکتا ہے توکیا آئندہ انتخابات ’اگر‘ ہوتے ہیں کیونکر ’بامراد ‘ہوسکتے ہیں؟... بنابریں جو اصل ’بھاری‘ ہیں اگر انہیں سینیٹ کے چیئرمن شپ کیلئے عددی اکثریت و عوامی مینڈیٹ رکھنے والی تین بڑی جماعتیں قبول نہ تھیں، تو وہ وزارت عظمیٰ کیلئے کن خوبی و اوصاف کی بناپر ان میں سے کسی کو قبول کرلیں گے۔
ویسے تو سینیٹ انتخابات میں ایم کیو ایم کی حقیقت بھی عیاں ہوچکی۔ بعض حلقے ایم کیو ایم کے باہمی کشاکش کو ’نورا کشتی‘ سے تعبیر کرتے ہوئے یہ رائے رکھتے ہیں کہ ’اصل میں جو سب پر بھاری ہیں، ان سے باہمی انڈراسٹینڈنگ کے تحت پہلے بلاواسطہ اسٹیبلشمنٹ نواز پی پی کو فائدہ پہنچایا گیا، پھر یہ جانتے ہوئے کہ ڈپٹی چیئرمین کیلئے درکار ووٹ پورے ہیں، ڈرامہ رچاتے ہوئے بائیکاٹ کیا گیا تاکہ ڈرامہ حقیقت نظر آئے۔ فاٹا کے مسئلے پر دل و جاں سے ایک مولانا فضل الرحمان صاحب اور محمود خان اچکزئی صاحب کے ڈپٹی چیئرمین کی نشست پر باہم دست و گریباں ہونے سے ان کی ’اصولی سیاست‘ پر بھی انگلیاں اٹھنے لگی ہیں،جبکہ جے یو آئی کے ووٹ بھی اِدھر سےاُدھر ہونے کی باتیںزبانِ زد عام ہیں ۔
جہاں تک مسلم لیگ (ن) کی بات ہے… تو بلاشبہ وہ اینٹی اسٹیبلشمنٹ کے روپ میں سامنے آرہی ہے، پھر سینیٹ کے انتخابات سے یہ امر بھی مزید واضح ہوچکا کہ کس طرح کا کھیل جاری ہے۔ تاہم راجہ ظفر الحق صاحب کی نامزدگی سے ایک تاثر یہ بھی ابھرا کہ شاید میاں صاحب کسی کو یہ پیغام دینا چاہتے ہیں۔
تھک گیا میں کرتے کرتے یاد تجھ کو
اب تجھے میں یاد آنا چاہتا ہوں
ان انتخابات کا نوحہ جہاں ’سب پر بھاری جناب زرداری‘ اور خانِ خاناں عمران خان کا ایک آزاد امیدوار کے سامنے مجبور محض بننا ہے، تو المیہ یہ ہے کہ اس آزاد امیدوار کیلئے اس رضا ربانی کو دھتکارا گیا جن پر اجماع تھا۔ راقم بڑے غور سے وہ منظر دیکھ رہا تھا جب کامیابی کا اعلان ہوتے ہی نئے چیئرمین صادق سنجرانی گرمجوشی سے رضا ربانی صاحب کے پاس گئے، تو رضا ربانی جیسے اپنی جماعت کیلئے دی گئی طویل قربانیوں کی یاد میں کہیں کھوئے تھے اور جب وہ نئے چیئرمین کو گلے لگا رہے تھے، تو جیسے بزبانِ جون ایلیا کہہ رہے ہوں…
مل کر تپاک سے نہ ہمیں کیجئے اُداس
خاطر نہ کیجئے کبھی ہم بھی یہاں کے تھے
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں00923004647998)

تازہ ترین