کراچی(تجزیہ :مظہر عباس) سابق فوجی آمر جنرل(ر) پرویز مشرف کے خلاف عدالتی ٹرائل کا حتمی نتیجہ کیا ہو گا؟ یہ بات ابھی تک غیر یقینی ہے۔ تاہم یقینی بات یہ ہے کہ مشرف پاکستان واپسی کے لیے تیار ہیں لیکن مسلم لیگ ن کی حکومت کے اختتام اور نگران حکومت کے قیام سے قبل ہر گز نہیں۔ مشرف کی واپسی اور ٹرائل ان کے حریف سابق وزیر اعظم نواز شریف کے ٹرائل کے ساتھ دیکھا جائے گا۔ کیا یہ واقعی بلا امتیاز احتساب ہو گا یا صرف یہ تاثر زائل کرنے کوشش ہو گی کہ ہمیشہ سیاستدان ہی احتساب کی چھلنی سے گزرتے ہیں؟پرویز مشرف کے قریبی ذرائع کا کہنا ہے کہ سابق صدر مسلم لیگ ن کی حکومت کی طرف سے انتقامی کارروائی کے تحفظات ہیںتاہم وہ عدلیہ کے بارے میں پراعتماد ہیں اورانہیں توقع ہے کہ انکا ٹرائل منصفانہ ہوگا۔سابق آمر کی قانونی ٹیم پہلے ہی ان کی واپسی کو ڈاکٹروں کی اجازت سے منسلک کرچکی ہے، یہ اس بات کا اشارہ ہے کہ وہ ن لیگی حکومت کے دوران واپس نہیں آنا چاہتے۔ حتیٰ کہ اگر عدالت ان کی درخواست خارج کرکے وزارت داخلہ کو انٹرپول کے ذریعے واپس لانے کا حکم بھی دے تو بھی اس ساری کارروائی میں 4سے 8 ہفتے لگیں گے۔ ذرائع کے مطابق نواز شریف اور ان کی صاحبزادی مریم صفدر کی نیب میں پیشیاں اور ان کے یہ الزامات کہ صرف سیاستدان ہی عدالتوں کا سامنا کر تے اورمجرم ٹھہرائے جاتے ہیں ،اس نے ملا جلا ردعمل پیدا کیا ہے جس سے معاشرے میں دوہرے معیار کا سوال اٹھ رہا ہے۔ نگران حکومت مئی کے درمیان میں بنے گی ، مشرف کو نگران حکومت سے کچھ ریلیف ملنے کی امید ہے۔ انہیں کئی کیسوں کا سامنا ہے، ان میں سے ایک آرٹیکل 6 کا کیس بھی ہے، جو 3نومبر 2007 کو آئین معطل کرکے ایمرجنسی نافذ کرنے کے خلاف ہے۔ ا سکے علاوہ ان کا نام سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو کے قتل کیس میں بھی شامل ہے۔ حالانکہ آصف زرداری کے دعوئوں کے برعکس مشرف اس الزام کو مسترد کرتے رہے ہیں۔ مشرف کی الیکشن سے قبل واپسی کا وقت اس لیے بھی دلچسپ ہوگا کیونکہ نواز شریف کے خلاف بھی مئی میں ہی فیصلہ متوقع ہے۔پاکستان کے سابق سویلین وزیراعظم اور سابق آمر کا ایک ہی وقت میں ٹرائل پاکستان کی عدالتی ، سیاسی اور آئینی تاریخ میں ایک سنگ میل ہو گا۔ اس سے پہلے کسی آمر نے عدالتوں کا سامنا نہیں کیا اور نہ ہی آئین کو معطل کرنے پر کسی کے خلاف کارروائی ہوئی۔ نواز شریف اور مریم اگر منی لانڈرنگ اور کرپشن کیسوں میں مجرم ٹھہرے تو انہیں لمبی سزا ہو سکتی ہے۔ نواز شریف کو سز ا ہوئی تو مشرف پر بھی دبائو آئے گا کیونکہ ان کا کیس آرٹیکل 6کی بنیاد پر بہر حال زیادہ سنگین ہے۔ دونوں ہائی پروفائل کیسوں کی وجہ سے الیکشن 2018ء کی گہما گہمی ماند پڑ سکتی ہے۔ مشرف اور ان کی ٹیم پاکستان واپسی اور ٹرائل کے ممکنہ نتائج جانتی ہے، اس لیے پہلی بات یہ کہ انہوں نے مسلم لیگ ن کی حکومت کے دوران پاکستان نہ لوٹنے کا فیصلہ کیا ہے، دوسری یہ کہ وہ واپسی پر وزارت داخلہ کی بجائے وزارت دفاع سے سکیورٹی مانگ رہے ہیں۔ تیسری بات یہ کہ وہ عدالت سے اپنے گھر کو سب جیل قرار دینے کی درخواست کرسکتے ہیں ۔ ان کی قانونی ٹیم پہلے ہی عدالت سے 6 ہفتوں کا وقت مانگ چکی ہے۔ دوسری طرف وفاقی وزیر داخلہ احسن اقبال کہہ چکے ہیں کہ حکومت انٹرپول کے ذریعے مشرف کی واپسی سمیت تمام عدالتی احکامات پر عمل کرے گی جبکہ اس عمل میں بھی کم وبیش 8ہفتے لگ سکتے ہیں ۔ وزیر داخلہ نے کہا ہے کہ ایسے ملزم کے لیے جو بھی سکیورٹی قانون کے مطابق ضروری ہوگی وہ فراہم کریں گے۔ تاہم ذرائع نے بتایا کہ مشرف پولیس کی بجائے قانون نافذ کرنے والوں اداروں سے سکیورٹی مانگیں گے کیونکہ ان پردور حکومت کے دوران دو دفعہ حملے ہو چکے ہیں۔ اگرچہ مشرف سپریم کورٹ کے احکامات سے نام ای سی ایل سے خارج ہونے کے بعد بیرون ملک گئے تاہم بہت سے لوگوں کاگمان تھاکہ یہ سول ملٹری ڈیل کا نتیجہ تھا۔ نواز شریف کی حکومت کو بھی اس معاملے پر اپوزیشن کے شدید دبائو کا سامنا کرنا پڑا، تاہم اس وقت کے وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان نے کسی بھی ڈیل کا حصہ ہونے سے انکار کردیا۔ انہوں نے کہا تھا کہ حکومت اور ان کی وزارت نے ٹرائل کورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیل کی تھی ۔سپریم کورٹ کے احکامات پر مشرف کا نام ای سی ایل سے نکالا گیا تاہم ان کا نام اڑھائی سال ای سی ایل میں رکھا بھی گیا۔چودھری نثار نے کہا کہ ان کی وزارت کے دوران نئی ای سی ایل پالیسی بنائی گئی ، 8 ہزار افراد کا نام لسٹ سے نکالا گیا اور اب نیب یا دوسرے اداروں کی سفارش پر صرف پارلیمانی کمیٹی کسی کا نام ای سی ایل میں ڈالنے کی مجاز ہے۔ مشرف نے ایک بار انٹرویو میں کہا تھا کہ سابق آرمی چیف جنرل(ر) راحیل شریف نے ان کی رہائی میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ اسٹیبلشمنٹ نے 2013ء کے الیکشن سے پہلے بھی مشرف کو پاکستان نہ آنے کی ہدایت کی تھی کیونکہ تب نواز شریف کی کامیابی کی رپورٹس آرہی تھیں۔ ذرائع کے مطابق مشرف کو پہلی بار 2008میں بیرون ملک جانے کی اجازت ملی جوکہ اس وقت کے صدر آصف زرداری اور آرمی چیف جنرل کیانی کے مابین سمجھوتے کا نتیجہ تھا۔مشرف اپنے 11 سالہ دور اقتدار میں دہشتگرد گروہوں کی ہٹ لسٹ پر رہے اور القاعدہ ار طالبان نے ان پر دو دفعہ خودکش حملوں کی کوشش کی ، اس لیے جنرل راحیل نے اپنے انٹیلی جنس چیف کے ذریعے انہیں واپس نہ آنے کا کہا۔ تاہم انہوں نے جنرل راحیل کی ہدایت کو بالائے طاق رکھا اور بعد ازاں جب وہ آرٹیکل 6 کے مقدمے میں گرفتار ہوئے تو اسٹیبلشمنٹ کو سخت شرمندگی اٹھانا پڑی، انہیں پراسرار طور پر ہسپتال لےجانے سے قبل دو بار خصوصی عدالت میں پیش کیا گیا۔ مشرف جو 2015ء سے خود ساختہ جلاوطنی میں رہ رہے ہیں، نے الیکشن 2018ء سے قبل پاکستان واپسی کا اعلان کر رکھا ہے، انہوں نے تاحیات الیکشن لڑنے پر 2013 میں لگائی جانے والی پابندی کو بھی چیلنج کیا ہے اور 2018 ء کا الیکشن لڑنا چاہتے ہیں۔ نواز شریف کی پاناما کیس میں نااہلی ، نیب میں پیشیوںاور عدلیہ مخالف بیانیے نے ملک کا سیاسی ماحول خاصاگرما رکھا ہے ،ایسے میں مشرف کا آرٹیکل 6 کے تحت ٹرائل پاکستان کی 70 سالہ تاریخ میں ایک سنگ میل ثابت ہو گاکیونکہ یہ کسی فوجی آمر کا پہلا ٹرائل ہو گا۔